گزشتہ دِنوں امریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن نے افغانستا
نے کے بعد جس معصوما نہ و مفا ہمت پسندا نہ انداز اور جن ظا ہر و با طن
دھیمے اور یتز لہجے کو اپنا تے ہوئے دھمکی آمیز پیغامات کے ساتھ اسلام آباد
کا مختصر ترین دورہ کیا تھا ہمیں معلوم تھا کہ یہ افغانستان سے پاکستان
اپنے اور کس کے لئے کیوں ؟ اور کیا ؟ اور کیسے پیغامات لے کر آئے ہیں؟واضح
رہے کہ اِن کا یوں پاکستان آنا اور جانا اپنے پیچھے بہت سے سوالات اور
ابہام چھوڑگیا ہے ہمیں جس کا باریک بینی سے جا ئزہ لینا اور آنے والے وقتوں
میں اپنے لئے امریکا ، بھا رت اور افغانستان کے گٹھ جوڑ سے پیدا ہونے والی
سیاسی، معاشی اوراقتصادی مشکلات اور پریشا نیوں سے نبر دآزما نے کے لئے ہمہ
وقت تیار رہنا ہوگا حالیہ ریکس ٹلرسن کے دورہء اسلام آباد سے پاکستان کو
سوا ئے ڈھکے چھپے انداز اور لہجے میں امریکی صدر ٹرمپ کا پیغام ملنے کے اور
کچھ نہیں ملا ہے جبکہ بھا رت کے لئے ٹلر سن بہت کچھ لے کر آئے تھے اور بھا
رتیوں نے بھی بڑھ بڑھ کر سب کچھ اپنی جھولیوں بھرلیا اور لنگیوں کی گانٹھوں
سے باند ھ کر رکھ لیا ہے ۔
اگرچہ ریکس ٹلر سن کے دورئے اسلام آباد سے پاک امریکا تعلقات میں دونوں جا
نب سے جمی برف ایسی نہیں پگھلی ہے اِسے جس طرح پگھلنی چا ہئے تھی یعنی کو
ئی اِس گمان میں نہ رہے کہ پاک امریکا سخت تعلقات میں نرمی آئی ہے تو
اِنہیں باور کرانا ضروری ہے کہ ابھی تک ایسا کچھ نہیں ہے، کیو نکہ نر می کا
عنصر ابھی دونوں سے بہت دور ہے، ایسا اُس وقت تک قا ئم رہے گا جب تک امریکا
افغان پالیسی سے پاکستان کو علیحدہ نہ کرلے ،امریکا کو معلوم ہونا چا ہئے
کہ خطے میں پاکستان کا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے
ایک پاکستان ہی ہے جس نے افغانستان سے خطے اور اپنی سرحدوں کے اندر ہو نے
والی دہشت گردی کا ڈٹ کا مقا بلہ کیا ہے اور کررہا ہے ،اِس پربھی باربار
ڈونلڈٹرمپ کی زبان سے پاکستان پر دہشت گردی کے چلا ئے جا نے والے تیروں کو
بھی کنٹرول کرنا ہوگا۔اَب جب تک فطرت کے عین مطا بق امریکا پاکستان سے
برابری کی سطح پر دوطرفہ تعلقات استوار نہیں کرلیتا ہے تو بے شک اُس وقت تک
پاک امریکا تعلقات کسی بھی صورت میں دائمی طور پر بحال نہیں ہوسکتے ہیں اگر
امریکا پاکستان کی خوا ہش کے مطابق خطے اور پاکستان کے مفادات کے خاطر
پاکستان سے برابری کی سطح پر تعلقات استوار کرنا چا ہتا ہے تو ویکم اور اگر
اِس پر امریکا پاکستان کی خواہش کا احترام کرنے سے کترارہا ہے تو پھر
امریکیوں کو بھی یہ بات ا چھی طرح ذہن نشین رکھنی ہو گی کہ پاکستان بھی
اتنا گراپڑا نہیں ہے کہ اَب یہ امریکا کی خوشا مد کرے گا ۔تاہم یہاں امر
خوش آئند ہے کہ ہماری سِول اور عسکری قیادت نے بھی ریکس ٹلرسن سے ہو نے
والی ملاقات کے دوران پاکستان اور خطے کے مفادات اور بقا ء وسا لمیت سے
متعلق دوٹوک انداز سے اپنا موقف کھل کر بیان کیا اور اپنے تئیں پوری کو شش
کی کہ ٹلر سن خطے سے وابستہ پاکستان کے مفادات سے بھی متفق ہو ں۔
اِس سے بھی انکار نہیں ہے ریکس ٹلر سن کا پاکستان آنے کا مقاصد جو کچھ بھی
تھا مگر یہ بھی ایک مصمم حقیقت ہے کہ پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے
اُسی وقت ٹلرسن کے ہر پوا ئنٹ اور اُٹھا ئے گئے سوالات کے ٹکا ٹکا کر جو ا
ب دیئے اور اِنہیں پاکستا ن سے چلتا کیا اِس کے نتا ئج تواگلے روز ہی اِن
کے بھا رتی دورے کے دوران سا منے آگئے تھے اور سب کچھ واضح ہوگیا تھا کہ یہ
پاکستان سے اپنے کن جذبات اور احساسا ت کے ساتھ پاکستان سے بھا رت کے لئے
روا نہ ہوئے ہیں جب ریکس ٹلر سن نے دورہء بھا رت کے موقع پر دہلی میں اپنی
بھا رتی ہم منصب سشما سوراج کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک مشترکہ پریس کا
نفرنس میں خطا ب کرتے ہوئے کچھ یوں اظہار خیال کیا کہ’’ پاکستانی حکومت کے
استحکام اور سلامتی اور سیکیورٹی کو انتہا پسندگروپوں سے خطرات ہیں،خطے میں
بھا رت کے قائدا نہ کردار کی حمایت کرنا امریکی نصب العین اور امریکی
ترجیحات ہیں‘‘ یہ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ ٹلرسن نے اِس موقع پر بھا
رتی شا نہ تھپ تھپا تے ہوئے انتہا ئی وثوق و یقین کے ساتھ نہ صرف بھا رتیوں
کو بلکہ پاکستان سمیت خطے اور دنیا کے دیگر ممالک کو بھی یہ باور کرادیا
کہ’’ امریکا بھارتی فوج کو جدید ٹیکنا لوجی سے بھی ہمکنا ر کرنے کا
خواہشمند ہے تا کہ خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا بھارت کے ساتھ
کندھے سے کندھا ملا کر کھڑا رہے اور ابھی امریکا کی یہی کو شش ہے کہ امریکا
بھارت کی خطے میں بالادستی کے لئے اِس کی پست پر ہے اور اپنا ہر معا ملے
میں بھا رت کے ساتھ اپنا تعا ون برقرار رکھے ہوئے ہے ‘‘ جبکہ بھا رتی
وزیرخارجہ سشما سوراج نے اپنی پریس کا نفرنس میں عادتاََ اور خصلتاََ موقعے
کا فا ئدہ اُٹھا تے ہوئے ریکس ٹلرسن کو عاشقا نہ انداز سے گھورتے اور تاڑتے
ہوئے پاکستان کے خلاف وہی برسوں پرا نی ہزارہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ ’’
اسلام آباد کی سرزمین پر دہشت گردوں کے ٹھکا نے موجود ہیں‘‘اپنی مخصوص پر
مردوں کو اپنے سحر میں گرفتار کرنے والی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی ساڑھی ٹھیک
کرتے ہوئے اپنی پریس کانفرنس کو ختم کردیا۔خطے میں اپنے جا ئز اور نا جا ئز
مفادات کے حصول کے لئے پاکستان سے پل پل ڈو مور کا مطا لبہ کرتا اور اِدھر
اُدھر سر ٹکراتا امریکا دیوانگی کی انتہا کو پہنچ چکا ہے،آج امریکا یہ بھی
بھول گیا ہے کہ پا کستان نے خطے میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جا نے والی اِس
کی جنگ میں اپنا سب کچھ کھودیا ہے اور اپنا سب کچھ لُٹا کر بھی پاکستان
وہیں کا وہیں کھڑا ہے جہاں یہ برسوں پہلے کھڑا تھامگر اِس کے با وجود بھی
افسوس اِس بات کا ہے کہ دوسری طرف کم بخت امریکا ہے کہ اِس کی پا کستان سے
ڈو مور کی رٹ جو اَب ضد میں بدل چکی ہے سمجھ سے بالا تر ہے اور اِس پر بھی
پاکستان سے زیاتی کی انتہا یہ کہ آج امریکاپاکستان سے اپنی طوطا چشمی اور
ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطے میں بھا رت کے قا ئدا نہ کر دار کی حمایت
بھی کررہا ہے جبکہ آج یہ بات ظاہر و با طنی لحاظ سے کہیں نہ کہیں سے خود
امریکا سمیت بھارت اور دنیا کے بیشتر ممالک بھی خو ب جا نتے ہیں کہ خطے میں
دہشت گردی کے خلاف ا مریکی جنگ میں پاکستان نے فرنٹ لا ئن کا اپنا جا نی
اور ما لی اور سیا سی اور اخلاقی طورپرجیسا کردار ادا کیا ہے آج تک تو
اُتنا امریکا، افغانستان اور بھارت نے بھی ادانہیں کیا ہے۔
یقینا یہ برسوں سے جاری پاکستان سے امریکی طوطا چشمی ،امریکی زیاتیوں اور
مسلسل نا انصافیوں کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ آج پاکستان کو محض امریکی دوستی
نبھا نے کے خاطر امریکا کے سا منے اپنی خودمختاری وسلامتی اوراستحکام اور
اپنے وقار کو مجروح ہو نے سے بچا نے اور اپنی بقاء اور سلامتی کو برقرار
رکھنے کے لئے اپنے لب کھولنے اور زبان ہلا نی پڑگئی ہے اور اَب اِس سے
زیادہ پاکستان کے پاس برداشت کی حد ختم ہو چکی تھی تب ہی پاکستا نی حکومت
نے امریکا پر یہ واضح کردیا ہے کہ ’’ اقتدار امریکا نے نہیں دلوایا
ہے،پاکستان امریکا سے برسوں سے پرا نی دوستی کے ہولناک نتا ئج آج تک بھگت
رہا ہے، اَب بس یہ بات امریکا کو بھی تسلیم کرنی چا ہئے ،اَب یقینا کسی بھی
امریکی دھمکیوں سے معا ملات طے نہیں ہوں گے اور امریکااپنی پاکستان سے
مسلسل روا رکھی گئی طوطا چشمی اور خطے میں بھارتی قائدانہ خواب اور اپنی
بیجا بھا رتی نوازشوں کا ضرور جا ئزہ لے تو پاک امریکادوستا نہ طور پر پھر
سے استوار ہوسکتے ہیں ورنہ امریکا کو بھا رتی قا ئدا نہ حمایت اور نوازشیں
مبارک ہوں اَب ہم امریکی دوستی کی بنا پر اپنا امن اور سلامتی کو کسی بھی
صورت داو پر نہیں لگا سکتے ہیں۔ختم شُد)
|