شتر بے مہار

ایک طبقہ مسلسل اس کوشش میں ہے کہ ریاست پاکستان میں کسی قسم کا استحکام نہ بننے پائے۔جب بھی کوئی چار دن خاموشی اور سکون ہوا۔یہ طبقہ متحرک ہوگیا۔کوئی نہ کوئی ایسا شوشہ تیار کرلیا گیا۔جس نے وقت کے پہیے کی پرسکون رفتار کو لرزا دیا۔ایسی افراتفری پیدا ہوگئی کہ سبھی آپا دھاپی کے شکار ہوگئے۔یہ طبقہ اس وقت اونگھتارہتاہے۔جب تک حالات میں ابتری او رخرابی رہے۔جوں ہی ابتر ی او خرابی ذر ادھیمی ہونے لگی۔یہ جاگ اٹھا۔جیسے جیسے حالات نارمل اور پرسکون ہوتے چلے گئے۔یہ طبقہ ہلکان ہوتادکھائی دیا۔جب تک حالات میں کوئی نئی خرابی نہ آگئی۔اسے چین نہیں آیا۔زرداری دور پاکستان کی تاریخ کا بد ترین جمہوری دور شمارکیا جائے گا۔ تب ملک کو خالہ جی کے گھر کی طرح چلایا گیا۔محترم عہدوں پر غیر محترم لوگوں کو بٹھا کر جانے دنیا کو کیوں پیغام دیا گیا۔کچھ لوگ جناب زردار ی کو مفاہمت کا بادشاہ قراردیتے ہیں۔وہ زرداری حکومت کے پانچ سال پورے کرنے کو ان کی عظیم سیاسی فتح تصور کرتے ہیں۔اس فتح کو زرداری مفاہمت کا کمال قراردیا جاتاہے۔درحقیقیت ایسا کچھ نہیں۔پانچ سالہ مدت پوری کرنا دراصل کسی اور سبب تھا۔یہ تخلیق کچھ تیز دماغوں کی تھی۔یہ وہی بد نیت او ر مکار طبقہ ہے جو عدم استحکام کا داعی ہے۔مشرف دور کی لٹی پٹی ریاست کو بحال کرنے کی بجائے جان بوجھ کر ایسے تیسے لوگوں کے حوالے کردیا گیا۔ایسے لوگ جو ملک کو تماشہ بنادیں۔اتنا گند ڈالیں کہ مشرف دور کے جرائم کو فراموش کرنے میں مدد کریں۔جمہوریت کا ایک ایسا گھناؤنا روپ متعارف کروانے کی تمنا تھی۔ جو آمریت کے مکروہ چہرے سے بھی ڈراؤنا ہوا۔ زرداری صاحب نے کمال ہنر مندی سے یہ خواب پور ا کردکھایا۔

چیئرمین نیب کا کہنا ہے کہ ریفرنسز کی نگرانی خود کروں گا۔سپریم کورٹ کے احکامات تمام اداروں پر لاگو ہوتے ہیں۔وزیر اعلی پنجاب کو کرپشن اب نظر آئی۔میں نے چارچ سنبھالا تو نیب کو کرپٹ کہنے کا کیا مطلب ہے۔فیصلے میرٹ پر ہونگے۔ نیب کو ٹھیک کروں گا۔ا ب جہاں کرپشن کا سرا نظرآئے گا۔نیب وہاں جائے گا۔نیب کے نئے چیئرمین کا یہ بیان وزیر اعلی پنجاب کی طرف سے نیب کو کرپٹ کہنے کا بیان دینے کے بعد سامنے آیا ہے۔انہوں نے کہاتھاکہ نیب کرپٹ ترین ادارہ بن چکا،کرپشن نے ہمار ی جڑوں کو کھوکھلا کردیا ہے۔ ستر سال سے چوروں کا احتساب نہیں ہوا۔

نیب کے چیئرمین نے اس استقبالی بیان پر وزیر اعلی پنجاب کو جواب دیناضروری خیال کیا۔اب جانے اب جواب الجواب کیا آتاہے۔مسئلہ یہ ہے کہ عد م استحکام کے داعی دھڑے کی یہ کوشش ہے کہ اداروں میں مضبوطی نہ آسکے۔یہ لوگ ہر ادارے میں اتھل پتھل کے متلاشی رہتے ہیں۔کسی بھی ادارے میں بہتری انہیں وارا نہی کھاتی۔نیب بھی ایک ایساہی بد قسمت ادارہ ہے۔جس کی ساکھ ہمیشہ خراب رہی۔اس سے بڑھ کربدقسمتی کیا ہوگی کہ نیب سے نہ اپوزیشن خوش رہی نہ حکومت کی طرف سے اسے تسلی بخش کارکردگی کا سرٹیفکیٹ مل پایا۔شہبازشریف کو غالبا حدیبیہ ملز کا کیس دوبارہ کھولے جانے پر تحفظات ہیں۔عمران خاں اس کیس کے کھولنے پر بضد ہیں۔شیخ رشید جس طرح حدیبیہ ملز کیس کے نتیجے میں شہباز شریف کی چھٹی ہوجانے کادعوی کررہے ہیں۔بظاہر یوں لگ رہاہے جیسے نئے چئیر مین نیب اپوزیشن کے مطالبے پر حدیبیہ ملز کیس ری اوپن کرنے جارہے ہیں۔یہ کیس وزیر اعلی پنجاب کے لیے کسی پریشانی کا باعث بن سکتاہے۔شریف فیملی میں ابھی تک صرف نوازشریف اور ان کے بچے متاثر ہوئے ہیں۔شہباز شریف فیملی ابھی تک نہاتی دھوتی نظر آئی۔اب شیخ رشید اور عمران خاں اس دیوار کو بھی اپنے راستے سے ڈھانے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔یاد رہے ماضی میں یہ کیس شریف فیملی کے خلاف کسی ڈراوے کے طور پر استعمال ہوتا رہاہے۔پچاس بار یہ کیس چلا او رپچاس بار اسے سمیٹ لیا گیا۔

نیب سمیت سبھی ادارے اپنی ساکھ بنانے میں ناکام ہورہے ہیں۔اصل مسئلہ یہ ادارے یا ان میں بیٹھے لوگ نہیں۔وہی بد نیت اور بد کردار طبقہ ہے جو اداروں کے مضبوط ہونے کی راہ میں رکاوٹ بن رہاہے۔یہ طبقہ اس مرکزیت کو قائم نہیں ہونے دے رہا۔جوبعد میں اداروں کے درمیان کوارڈینیشن قائم کرتی ہے۔اسے بحال رکھتی ہے۔اس عدم مرکزیت کے سبب اداروں میں آپا دھاپی کا منظر نامہ بنا ہواہے۔ریاست ایک شتر بے مہار کی طرح بن رہی ہے۔جس کی کوئی سمت نہیں۔کوئی پلاننگ نہیں۔اور کوئی منزل نہیں۔جو جدھر چاہے لڑھک جائے۔جہاں چاہے بیٹھ جائے۔جب تک عدم استحکام کے داعی کیفرکردار تک نہیں پہنچادیے جاتے۔یہ شتر بے مہاراپنی بے ڈھنگی چال نہ بدل پائے گا۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123938 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.