اب پھر سے موسم ہے تنہائی کا،،،رات ہو یا دن اب ساتھ ہے
تنہائی کا،،،اس کی
خاموشی سنتے ہیں،،،بات کرتے ہیں اس کی اسی سی،،،کچھ بھول پائیں گے،،،یاپھر
آنسو اس کی نظر کر آئیں گے،،،
سلمان یہاں آ کر رک گیا،،،
‘‘ خزاں کے دوست‘‘،،،مکمل کرکے میگزین کو اس امید پر بھیج دیا،،،کہ اس بار
وہ
ٹال مٹول کے بجائے کچھ روپے ہی دے دیں گے،،،
چلو اچھا ہے کچھ لفظ میرے پیٹ کا ایندھن بن جائیں گے،،،
سلمان بس سے اترا،،،فیکٹری کا ایڈریس غور سے دیکھا،،،اک رکشے والے سے
ایڈریس
پوچھا،،،
سلمان ایڈریس سمجھ کے جونہی آگے بڑھا،،،بابو ،،،بہت دور ہے،،،گھنٹا لگ جائے
گا،،،ایک سو بیس روپے دے دو،،،میں چھوڑ آؤں گا،،،
سلمان رک گیا،،،بھائی میں بابو نہیں ہوں،،،اور مجھے پیدل چلنےکی عادت برسوں
پرانی ہے،،،
رکشے والے نے ایسے سر ہلایا،،،جیسے سمجھ گیا ہو کہ بابو جی تقریباَ پاگل
ہیں،،
سلمان نے دائیں بائیں ٹریفک دیکھ کر جونہی قدم آگے بڑھائے،،،اک جانی پہچانی
کار سامنے آ کر رک گئی،،،اندر پچھلی سیٹ پر کریم صاحب نے تیزی سے سلمان
کو پکارا،،،
میاں کہاں مٹر گشت کررہے ہو،،،وہاں گھر میں سب تمہارا انتظار کر رہے ہیں،،،
ٹریفک کی وجہ سے سلمان کو جلدی سے آگے امجد کے برابر سیٹ پر بیٹھنے کو
کہا،،،،
عجیب آدمی ہو بھائی تم تو،،،
میں لیب اسسٹنٹ کی جاب کے لیے ٹیکسٹائل مل جا رہا ہوں،،،اب میں اور آپکی
خدمت نہیں کرسکتا،،،
اچھا یار،،،جیسے آپ کی مرضی،،،ہم نے آپ کو کبھی ملازم نہیں سمجھا تھا،،،
ویسے بھی میری روزی اگر کسی کی تعریف کر دے،،،تو سمجھو اس میں کچھ
خاص ہے ہی،،،ویسے وہ ٹیکسٹائل میرے دوست کی ہی ہے،،،مجھ سے کہہ
دینا،،،میں فون کر دوں گا اسے،،،
جیسے آپ چاہو،،،ویسے ہی جاب کرو،،،بس اک بار گھر آکر بتا جانا،،،وہ کسی اور
کا بندوبست کرلیں،،،
امجد فیکٹری میں کسی سے کہہ دینا،،،اسے بائیک پر وہاں چھوڑ آئے،،،مجھے
یاد کروانا،،،میں اس کے لیے فون پر کہہ دیتا ہوں،،،
سلمان نے بڑے ہی عاجزانہ انداز میں کہا،،،نو سر،،،پلیز تھینکس،،،اگر ضرورت
پڑی تو میں خود آپ سے کہہ دوں گا،،،
کریم صاحب نے اثبات میں سر ہلادیا،،،
ارے بھائی! خواہ مخواہ اتنی دور آئے ہو،،،یہ سیٹ تو یونین لیڈر کےرشتہ دار
کو پہلے
ہی مل چکی ہے،،،ٹیکسٹائل مل کے گیٹ کیپر نے سلمان کے ارمان پہلے ہی
ٹھنڈے کر دئیے،،،
مگر میں ضرور انٹرویو دے کر ہی جاؤں گا،،،سلمان نے خود کو فیصلہ سنا
دیا،،،(جاری)
|