علی انٹرپرائزز بلدیہ ٹاؤن کراچی کے مالکان سے 20 کروڑ کا
بھتہ مانگا گیا۔مالکان نے کہا بھائی ہم تو صرف ایک کروڑ دے سکتے ہیں۔پھر
کیا ہوا کہ فیکٹری کے تمام دروازوں کو باہر سے تالے لگا کر 260 سے زیادہ
ملازمین مرد عورتوں اور بچوں کو 11 ستمبر 2012 کو زندہ جلا کر مار دیا گیا۔
یہ جلنے والے اپنی چیخوں اور آہ و پکار کے ساتھ جان بچانے کبھی پہلی منزل
پر بھاگتے کبھی دوسری اور کبھی تیسری منزل کی طرف دوڑتے لیکن جلانے والے
باہر بیٹھے تماشہ دیکھتے رہے اور بعد میں الٹا فیکٹری مالکان کے خلاف پرچہ
کٹوا دیا کہ انہوں نے انشورنس کے چکر میں اپنی ہی فیکٹری کو آگ لگائی ہے ۔
اور تو اور یہ درندے مرنے والوں کو ملنے والی کروڑوں روپے کی امداد بھی خود
کھا گئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس واقعہ کو پانچ سال گزر چکے ہیں۔میرا سوال یہ ہے کہ :-
اس وقت کی سندھ حکومت نے کیا ایکشن لیا ؟؟؟؟؟
اس وقت کی مرکزی حکومت نے کیوں کچھ نہ کیا ؟؟؟؟؟؟
اس کے بعد آنے والی حکومت نے ایسے درندوں کا احتساب کیوں نہ کیا ؟؟؟؟
اپنے لیے تو قانون بھی بدلوا دیے جاتے ہیں۔اسمبلیوں میں ساری پارٹیاں ایک
ہو جاتی ہیں۔اس خاموشی یا محض کاغذی کاروائی تک محدود رہنے والے یہ سب کیا
ایک جیسے نہیں ہیں ؟؟؟؟
سب یہ اہم اور بڑا سوال میرا اپنے آپ سے ہے۔آپ سے ہے۔تم سے ہے۔اس سے ہے اُس
سے ہے۔سب سے ہے کہ ایسے درندوں کو ہم بار بار ووٹ دیتے ہیں۔
کیوں آخر کیوں ؟؟؟؟؟
ہم اپنی اپنی پارٹی کی جیت پر کس بات پر خوش ہوتے ہیں۔ ہمیں آخرت کا کوئی
خوف ہے کہ نہیں ہے ؟؟؟؟؟
ہم کیوں نہیں سوچتے کہ ہم نے ان کو جو ووٹ دیا ہے وہ ووٹ نہیں جہنم کی ٹکٹ
ہے جو ہم بار بار کٹواتے ہیں لیکن ہمیں عقل نہیں آتی۔ مجھے یقین ہے قدرت کا
جلال ظاہر ہو کر رہے گا۔ عذاب آ کر رہے گا۔ایک ایک ذمہ دار اسی طرح جلے گا
جس طرح وہ بے قصور جلتے رہے اور کوئی ان کی مدد کو نہ آیا۔
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا |