طالبہ سے اجتماعی ذیادتی کے حقائق!

اولاد اﷲ پاک کی طرف سے ایک انمول تحفہ بھی ہے اور آزمائش بھی۔کہتے ہیں کہ بیٹیاں اﷲ پاک کی طرف سے عطا کی جانے والی کسی بڑی نعمت سے کم نہیں۔مگر اس بے رحم سماج میں چند ایک والدین ایسے بھی ہیں جو اپنے ذاتی فوائد کی خاطر نہ اپنی عزت کا خیال کرتے ہیں اور نہ ہی اپنے بچوں کی۔چند روز قبل تھانہ جناح روڈ کے علاقے عباس کالونی کی رہائشی 16 سالہ لڑکی کوبیماری کی حالت میں سرکاری اسپتال میں لایا گیا جہاں پہنچتے ہی ایک معمر خاتون نے ڈاکٹرز کو بتایا کہ اسکی بیٹی کو 5 افراد نے اجتماعی ذیادتی کا نشانہ بنایا ہے۔ڈاکٹرز نے لڑکی کا علاج شروع کیا ہی تھا کہ یہ خبر میڈیا کے نمائندوں تک جا پہنچی جس کے بعد تمام ٹی وی چینلز مظلوم کی آواز بنے اور یہ خبر گوجرانوالہ سے ایسی چلی کہ پورے پاکستان میں جنگل کی آگ بن کر پھیل گئی۔پولیس افسران بھی لڑکی سے اجتماعی ذیادتی کی انتہائی افسوس اور شرمناک خبر سن کر دوڑ کھڑے ہوئے،سی پی او اشفاق خان پہلے موقع پر گئے اور پھر اسپتال میں متاثرہ لڑکی کی عیادت کی جہاں اسکی ماں نے پولیس کو دیکھتے ہی چیخ و پکار کرتے ہوئے انتہائی ڈرامائی انداز میں بتایا کہ اسکی بیٹی دسویں جماعت کی طالبہ ہے اور گھر میں اکیلی ہونے پر قدر قدیر نامی شخص اور اسکے 4 ساتھیوں نے اسے اجتماعی ذیادتی کا نشانہ بنایا ہے متاثرہ لڑکی کی ماں کا انداز بیاں دیکھ کر سٹی پولیس کمانڈر کے دل میں کہیں نہ کہیں وقوعہ کے متعلق شک پیدا ہوگیا جوکہ بعدازاں یقین میں بدل گیا۔ سی پی او اشفاق خان کے حکم پر پولیس نے متاثرہ لڑکی کی ماں شاہدہ بی بی کے بیان پرمقدمہ درج کرلیا۔16 سالہ طالبہ سے اجتماعی ذیادتی کی خبر وزیراعلی پنجاب میاں محمد شہباز شریف کے کانوں تک بھی جا پہنچی جنہوں نے فوری نوٹس لیتے ہوئے آئی جی پنجاب سے واقعہ کی رپورٹ طلب کر لی۔آئی جی صاحب نے فون لگایا اور سی پی او گوجرانوالہ کو 24 گھنٹے میں طالبہ کے ساتھ اجتماعی ذیادتی کرنے والے ملزمان کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔سی پی اور اشفاق خان نے دیر کیے بغیر واقع کی مکمل تحقیقات اور ملزمان کی گرفتاری کا ٹاسک سی آئی اے پولیس کو سونپ دیا۔ڈی ایس پی سی آئی اے عمران عباس چدھڑ نے متاثرہ لڑکی کی ماں کے پولیس کو دیئے گئے بیان پر رات گئے لاہور میں کارروائی کے دوران پولیس کانسٹیبل قدر قدیر کو گرفتار کر کے تفتیش شروع کردی۔ملزم نے پولیس کو بتایا کہ متاثرہ لڑکی اور اسکے اہلخانہ سے اسکی قریبی رشتہ داری ہے طالبہ سے ذیادتی میں اسکا کوئی ہاتھ نہیں۔بلکہ پچھلے کئی سالوں سے سیالکوٹ کے علاقہ اوٹھیاں میں واقع ایک زمین کو لیکر ہمارے دونوں خاندانوں میں دشمنی اور تنازعہ چلا آرہا ہے جس کے باعث متعدد مقدمات کے بعد کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔قدر قدیر کے اس بیان کے بعد پولیس چکرا گئی اور سی آئی اے نے اپنی تحقیقات کا رخ متاثرہ لڑکی کے اہلخانہ کی طرف موڑ دیا۔حقائق تک پہنچنے اور اجتماعی ذیادتی کے واقع کی گتھی سلجھانے کے لیے طالبہ کی ماں کا موبائل فون پولیس کے ہتھے چڑھ گیاجس سے اصل کہانی کھل کر سامنے آگئی۔موبائل ریکارڈ سے پولیس کی نظر ایک ایسے نمبر پر پڑی جو پچھلے 6 ماہ سے مسلسل رابطے میں تھا۔پولیس نے اس نمبر کے مالک کا پتہ لگایا تو معلوم ہوا کہ وہ نمبر کوہلو والا کے رہائشی اور گیارھویں جماعت کے طالبعلم ماجد منور کا ہے اور وہ لڑکی سے ہونے والی ذیادتی کے بعد لیہ میں چھپا بیٹھا ہے جسے سی آئی اے کی ٹیم نے کچھ ہی گھنٹوں میں گرفتار کر لیا جس نے پولیس کے سامنے ساری حقیقت بیان کردی۔ماجد نے بتایا کہ 16 سالہ طالبہ اسکی قریبی عزیزہ ہے اور 6 ماہ قبل ہمارے خاندان میں ہونے والی ایک شادی کی تقریب میں ان دونوں کی ملاقات ہوئی جہاں دونوں میں دوستی ہوگئی اور پھر وہ دوستی چند ہی دنوں میں پیار کی شکل اختیار کر گئی اور اسی پیار میں دونوں تمام حدیں پار کر گئے۔نوجوان نے پولیس کو بتایا کہ طالبہ اور اسکے پیار بارے دونوں گھرانوں کے تمام افراد کو بھی معلوم تھا۔اجتماعی ذیادتی کا سن کر میں بھی رات ایک بجے سرکاری اسپتال میں پہنچا جہاں میں نے دیکھا کہ نوجوان ایس پی محمد افضل رات گئے اس کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں متاثرہ لڑکی کے اہلخانہ سے پوچھ گچھ کر رہے تھے پولیس نے اس کیس اپنی راتوں کی نیند حرام کردی مگر حقیقت کچھ اور نکلی۔ گذشتہ روز میں اپنے ایک دوست سے ملنے عباس کالونی گیا جہاں اچانک مجھے 16 سالہ طالبہ سے ہونے والی اجتماعی ذیادتی کا کیس یاد آگیا میرے دوست نے مجھے وہاں ایک 40 سالہ نامعلوم شخص سے ملوایاجو متاثرہ لڑکی کا انتہائی قریبی عزیز تھا باتوں باتوں میں اس نے مجھے بتایا کہ لڑکی کی ماں ایک تیر سے تین شکار کرنا چاہتی تھی۔ایک یہ کہ اجتماعی ذیادتی کی خبر پھیلا کر لوگوں کی ہمدردی اور وزیر اعلی پنجاب سے لاکھوں کی امداد لے سکے،دوسرا پولیس کانسٹیبل قدر قدیر سے کئی سالوں سے تنازعے میں پھنسی زمین چھڑوائی جائے،جبکہ تیسری کوشش ماجد سے بیٹی کی شادی انکا ہدف تھا۔یہ بات سنتے ہی میرے پیروں تلے زمین نکل گئی کیا والدین اپنے ذاتی مفادات اور پیسوں کے لیے اس حد تک جاسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟؟؟

Sardar Zeeshan Tahir
About the Author: Sardar Zeeshan Tahir Read More Articles by Sardar Zeeshan Tahir: 3 Articles with 2284 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.