محکمہ تعلیم میں این ٹی ایس، بائیو میٹرک نظام ناکامی کا شکار۔۔۔!!

آج سے تقریباً بیس سے تیس سال پہلے کی بات ہے جب محکمہ تعلیم میں تقرریوں پر تحریری ٹیسٹ اور انٹرویو ہوا کرتے تھے ، ٹیسٹ کے دوران انویجیلیٹرز(Invegilators) ممتحن تمام شریک امیدواروں پر ایسی نگاہ رکھتے تھے کہ کسی کی مجال نہ تھی کہ برابر والے سے پین پینسل طلب کرلیتا، امتحانی ہال کو واقعی امتحانی ہال بنایا جاتا تھا کسی غیر متعلقہ افراد کا داخلہ اور شفارش قطعی برداشت نہ تھی گویا مکمل میرٹ پر امتحان لیا جاتا تھا ، رنگ ،نسل ،قوم، قبیلہ ،ذات پات، مسلک گویا تمام امیدوار صرف امیدوار ہی تصور کیئے جاتے تھے ، نقل یاکسی اور طرح کی مدد قطعی قابل قبول نہیں ہوتی تھیں،ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر، ڈائریکٹر اسکول، سیکریٹری تعلیمات اور وزیر تعلیم بھی ایسی شخصیات تھیں جو مکمل قانون کی پاسداری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کسی بھی قسم کی غیر قانونی اور اختیارات کا نا جائز استعمال نہیں کرتے تھے، سندھ سمیت پاکستان کے تمام صوبوں میں شفافیت اور قانون کی پاسداریاں موجود تھیں ، رشوت، شفارش کو عیب سمجھا جاتا تھا ، اپنے منصب فرائض کو ایمان کی طرح محفوظ اور شفاف رکھا جاتا تھا، عزت نفس کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھیں، یہی وجہ ہے کہ بیس سے تیس سال پہلے کے طالبعلم اور استاد قابل ،ذہین، اہل اور باوقار شخصیت کے مالک ہوا کرتے تھے،یہی وجہ ہے کہ نجی شعبوں میں اسکولوں میں وہی داخلہ لیتے تھے جنھیں سرکاری مدارس میں داخلہ نہیں ملتا تھا گویا نجی اسکول میں داخلہ شرم کا مقام سمجھا جاتا تھا، ملک پاکستان میں مسلسل سیاسی مداخلت ،بے جا رکاوٹ، اختیارات کےسلب ہونے سے محکمہ تعلیم پاش پاش ہوکر رہ گیا ہے،کڑوروں ہر سال بجٹ حاصل کرنے کے با وجود محکمہ تعلیم بد سے بدتر ی کی جانب ہے، مانا کہ اُن وقتوں میں بھارت سے ہجرت کرنے والے انتہائی قابل اور ذہین لوگ موجود تھے لیکن انھوں نے جن کو بھی درس دیا وہ تعلیم کا تاج آج بھی سجائے بیٹھے ہیں، ان کے طالبعلم آج جتنے بھی ہیں وہ اہل و قابلیت کی معراج پر فائز ہیں مگر افسوس در افسوس کہ نا اہل افسران، نا اہل استادوں کی بھرتیوں کے سبب محکمہ تعلیم تباہ و برباد ہوکر رہ گیا ہے ، پاکستان بلعموم اور بلخصوص صوبہ سندھ اس کرپشن اور بد نظمی کا سب سے زیادہ شکار ہوا،سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاںلینگویج اساتذہ کے پروموشن سب سے تیز اور کم وقت میں دیئے جاتے ہیں جبکہ سائنس ٹیچر یعنی ایچ ایس ٹی اور جونئر اسکول ٹیچر یعنی جے ایس ٹی کی تعداد سب سے زیادہ ہونے کے باوجود سب سے سست اور طویل سالوں پر محیط پروموشن کا سلسلہ نا انصافی کے مترادف ہے، میں نے کئی سالوں تحقیق اور مشاہدے کے یہ حقیقت آشنا کی کہ ہزاروں کی تعداد میں اساتذہ کے سرٹیفکٹس، ڈگریاںجعلی ہیں اور کئی سو کی تعداد ایسی ہیں جنکے پروموشن بھی جعلی ہیں ان تمام معاملات میں پی پی پی اور ایم کیو ایم شامل رہی، محکمہ تعلیم کے سابقہ وزیر تعلیم پیر مظہر الحق سے آج تک کرپشن ، لوٹ ماراور بدعنوانی کا سلسلہ جاری ہے ، اب ان سلسلے کی شکل تبدیل کردی گئیں ہیں مگر پس پردہ وہی غیر قانونی عوامل شامل کیئے ہوئے ہیں، اس بابت میں نے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر ، ڈائریکٹر اسکول کراچی سمیت سیکریٹری تعلیم کو بار ہا بار پیٹیشن دائر کیں لیکن سب جگہ سے خاموشی ملی، اینٹی کرپشن کو بھی پیٹیشن دی تو انھوں نے یہ کہ کر رد کردی کہ محکمہ تعلیم کا معاملہ ہے جبکہ اینٹی کرپشن نے جعلی کاغذات کی مد میں لاکھوں روپے اساتذہ سے ہتھیائے ہیںجس کی ثبوت موجود ہیں، ٹائم اسکیل اور ٹیچنگ الاؤنس میںڈائریکٹر یٹ اسکول سمیت تمام ڈسٹرکٹ اور کلرک صاحبان نے خوب لکشمی کمائی، اب تو حال یہ ہے کہ تخلق ہاؤس یعنی وزیر تعلیم اور سیکریٹری تعلیم نے سندھ بھر کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن، ڈاریکٹر اسکول و کالج کے بیشتر اختیار سلب کرکےاپنے ذمہ لے لیئے ہیں جن سے نظام اسکول و کالج بری طرح متاثر ہوکر رہ گیا ہے ، تقرر نامے سے لیکر تبادلہ تک کے تمام امور تخلق ہاؤس کے بغیر نا ممکن ہوگئےہیں ،اس وقت ایسے اسکول و کالج بھی ہیں جہاں طلبا و طالبات کی تعداد ہزاروں تک موجود ہے لیکن استاداور لیکچرار چند ہیں اور ایسے بھی اسکول و کالج جہاں استاد اور لیکچرار کی تعداد بہت ہیں مگر طلبہ و طالبات کی تعداد نہ ہونے کے برابرہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جہاں کمی واقع ہے وہاں پر تبادلہ اب آسان نہیں رہا جب تک بائیو میٹرک شعبہ تمام ڈیٹا از سر نو تبدیل نہ کرے اس وقت تک ممکن نہیں گویا کام کو مشکل سے مشکل بنانا کوئی وزیر رتعلیم اور سیکریٹری تعلیم سے سیکھ لے، ہاں البتہ لوٹ گھسوٹ، بجٹ میں ہیرا پھیری کیلئے تمام راستوں کو آسان قانونی شکل دیدی گئی ہے، اسکول و کالج کی تعمیرات کے ٹھیکے ہوں یا درستگی ان تمام جن میں دولت کمانے کا راستہ موجود ہے انتہائی سادہ اور آسان بنادیا گیا ہے جبکہ خدمات کے شعبہ یعنی درس و تدریس کے تمام پہلوؤں کو مشکل در مشکل بناکر مزید سرکاری اسکولوں کو تباہ حالی کی جانب جھونگ دیا گیا ہے کیونکہ نجی اسکولوں سے پس پردہ مال بھی تو سمیٹنا ہے، رہی بات میڈیا کی تو کیا کہنے بلاول بھٹو، آصف علی زرداری سے لیکر وزیر اعلیٰ سندھ سب بہتر ہے سب بہتر ہے گاتے پھرتے نظر آتے ہیں جبکہ پنجاب کی طرح سندھ مکمل طور پر مدارس اور درس و تدریس میں تباہی کی شکل بنا ہوا ہے، کوئی نیا تجربہ کرنے کی ضرورت نہیں بس اپنا ایمان درست کریں جیسے ہمارے سابقہ اساتذہ کرام سمیت سابقہ ایجوکیشن آفیسر گزرے ہیں کم از کم اگر ہم ان کی اطبا کرلیں تو حالات بہت بہتر ہوسکتے ہیں لیکن اس کیلئے سیاسی مداخلت ، رشوت و شفارش کے بندھن کو ہمیشہ کیلئے ٹوڑنا پڑیگاورگرنہ یہ سیاسی جماعتیں یونہی عوام کو بے وقوف بناتی رہیں گے۔ اب میں ذکر کرتا ہوں مانیٹرنگ شعبہ کا جس کو بائیو میٹرک کی ذمہ داری عائد کی ہوئی ہیں، سیکریٹری تعلیم کو اس مد میں ،میں نے اگست کے ماہ میں ایک پیٹیشن دائر کی کہ مانیٹرنگ کے شعبہ بائیو میٹرک کا اسٹاف ایسے اسکول نہیں جارہا جہاں کی ہیڈ مسٹریس کئی کئی دن ناغہ کرتی ہیں اور آگر کزشتہ دنوں پر دستخط کربیٹھتی ہیں، ایک پیٹیشن متعلقہ ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کو بھی دی لیکن ان کی جانب سے بھی نرم رویہ رکھا گیا اور بار بار میرے کہنے پر ٹی او نے دورہ کیا تو میری ہر بار بات درست ثابت ہوئی مگر انھوں نے یہ کہ کر معافی مانگ لی کہ ڈی ای او صاحب ہی کچھ نہیں کررہے ہیں، ڈائریکٹر صاحب کو آگاہ کیا تو انھوں نے کہا کہ ڈی ای او اس پر ایکشن لیں گے لیکن کچھ نہ ہوا، چیف سینئرٹی آفیسر سے اس بابت ملاقات ہوئی تو انھوںنے بتایا کہ ہم نے ان کے خلاف لکھا ہے ڈائریکٹر کو لیکن ان کی جانب سے خاموشی ہے گویا یوں لگتا ہے کہ کرپشن ،بد عنوانی ،لوٹ مارکا ایسا خاموش بازار گرم ہے جس کو جڑ سے ختم کئے بغیر سندھ بلخصوص کراچی میں سرکاری تعلیمی اداروں کو بہتر نہیں بناسکیں گے ، آئے روز کلرک اور ٹیچنگ و نان ٹیچنگ اس بات پر احتجاج کرتا پھرتا ہے کہ مراعات میں اضافہ کیا جائے، تنخواہیں بڑھائی جائیں، پروموشن دیا جائے،میری یہاں عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ سندھ بھر کے تعلیمی حالات اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ ان کی تمام پروموشن، مراعات، تنخواہیں بڑھانے سے روکی جائیں اور سب سے پہلے تمام سندھ بشمول کراچی کے تعلیمی اداروے سے منسلک ملازمین کی از سر نوجے آئی ٹی کے ذریعے تعلیمی اسناد اور پروموشن کی تحقیق کرائی جائیں جو درست ہوں ان سے پروموشن سے قبل ٹیسٹ لیا جائے کامیاب ہونے کی صورت میں پروموشن اور تنخواہ میں اضافہ کیا جائے کیونکہ لاکھوں سرکاری ملازمین قومی خذانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں، یہی نہیں بیس سال کے دوران جو جو ریٹائرڈ ہوئے ہیں ان کے بھی تعلیمی اسناد اور پروموشن کی تحقیق کیلئے جے آئی ٹی بنائی جائے، اس عمل سے یہ ہوگا کہ تمام کرپٹ افسران اور ذمہ داران اپنا قبلہ درست کرلیں گے ،جے آئی ٹی رپورٹ میں جو جو جعلی تعلیمی اسناد اور پروموشن سامنے آئیں انہیں نوکری سے برخاست کردیا جائے اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کے بھی اگر جعلی تعلیمی اسناد اور پروموشن سامنے آئیں تو ان سے ری کور کیا جائے یا ان کی املاک کو سرکاری خذانے میں جمع کردیا جائے، جب تک احتساب سزا و جزا کا عمل نہیں ہوگا اس وقت تک پاکستان اور بلخصوص سندھ نہ ترقی کرسکتا ہے نہ امن و سلامتی کی نشانی بن سکتا ہے، اے جی سندھ کے ادارے میں نچلی سطح پر جس قدر رشوت کا بازار گرم ہے اس پر بھی پابندی عائد کی جانی چاہئے خاص کر ریٹائرمنٹ کے کیس ایجنٹ اسی سے نوے ہزار روپے لیکر کررہے ہیں اور اندرون خانہ اے جی سندھ کے کلرک اور نچلی سطح کے آدیٹرز حضرات ان لوگوں کیلئے مشکل در شکل بناکر رکھتے ہیں جو خود اپنا کیس کررہا ہوتاہے ،اس کیلئے بھی لائحہ عمل کی ضرورت ہے جو اے جی سندھ کو خود کرنی ہوگی تاکہ عمر کے آخری حصہ میں آنے والے ریٹائرڈ لوگ پریشان نہ ہوں، اسی لیئے اب وقت کی ضرورت اس بات کی ہے کہ عدالت عظمیٰ اس بابت فی الفور از خود نوٹس لیتے ہوئے نوٹیفیکیشن جاری کرے،اللہ پاکستان کو کرپشن، لوٹ مار، بد عنوانی، حق تلفی، رشوت ستانی سے ہمیشہ محفوظ بنائےآمین ثما آمین۔۔پاکستان کی حفاظت فرمائے، پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔۔۔

جاوید صدیقی‎
About the Author: جاوید صدیقی‎ Read More Articles by جاوید صدیقی‎: 310 Articles with 273576 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.