ارباب اختیار خاموش ۔۔۔وحشی درندے آزاد

میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان تھانہ چودہوان کی حدود میں گرہ مٹ کے 5 مسلح افراد نے ذاتی دشمنی کے باعث مخالف خاندان کی 16 سالہ بچی شریفاں کو اس وقت ننگا کر کے گاؤں میں گھومنے پر مجبور کر دیا جب وہ جوہڑ سے پانی بھر کے گھر واپس آ رہی تھی۔ عینی شاہدین کے مطابق، مسلح افراد نے اس چیختی چلاتی اور مدد کے لئے پکارتی برہنہ بچی کو کسی سے چادر تک نہ لینے دی، کسی کے گھر میں پناہ لینے دی، مظلوم لڑکی جب بھی کسی گھر میں داخل ہوتی تو مسلح حملہ آوروں کے ڈر سے لوگ اسے باہر نکال دیتے، گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ بربریت کا یہ رقص 1 گھنٹہ جاری رہا، کسی نے مظلوم بچی کی مدد نہ کی، بچی کے ورثاء تھانے رپوٹ درج کرانے گئے تو پہلے پولیس ٹرخاتی رہی لیکن جب خبر میڈیا تک پہنچی تو چودہوان تھانہ کی پولیس نے 5 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا تاہم پولیس ابھی تک ملزمان کو گرفتار نہیں کر سکی دوسری جانب، پولیس نے باثر ملزمان کے ساتھ مل کر لڑکی کے بھائی پر بھی ایک مقدمہ درج کرا دیا ہے تاکہ اس کے خاندان کو دباؤ میں لایا جا سکے،یہ ظلم وبربریت پوری قوم ،ریاستی اداروں اربابِ اقتدار کے منہ پر طمانچہ ہے روح کانپ اٹھی ہے اتنا بھیانک جرم کرنے والے آزاد کیسے ہیں ؟ انہیں تلاش کیوں نہیں کیا جارہا ہے ؟ یہ درندصفت حیوان کہاں چھپ گئے ہیں انہیں آسمان کھا گیا ہے یا زمین نگل گئی ہے ایسے وحشی درندوں کو نشانِ عبرت بنایا جانا چاہیے تاکہ کبھی کوئی دوبارہ ایسا کرنے کی جسارت نہ کرے آئے روز ماؤں بہنوں کی تذلیل کے واقعات منظرعام پر آتے رہتے ہیں سیاسی شعبدہ باز تصویری سیشن کرواکے اپنے معمول کی مستیوں میں مگن ہوجاتے ہیں چندروز بعد پھر اس سے زیادہ سنگین واقع رونما ہوجاتاہے ،عورت ہمارے معاشرے کا بنیادی جز ہے جس کے بغیر یہ معاشرہ نامکمل ہے یہ عظمت کا استعارہ ہے ،اس کے قدموں کے نیچے جنت ہے ،یہ ماں کے مقدس روپ میں عورت ہی تو ہے جسے نظررحمت سے دیکھیں تواﷲ تعالیٰ حج مبرور کا اجر عطافرماتاہے ،حسن سلوک کی سب سے زیادہ مستحق عورت ہی توہے ،ذرا سوچیے ہم کیسے معاشرے کی تشکیل نو کررہے ہیں جہاں عورت کے سے اجتماعی زیادتی کی جاتی ہے ،جہاں بھائی کے جرم کی سزا بہن کو بھگتنا پڑتی ہے ،جہاں ذاتی دشمنوں کی بھینٹ معصوم عورت بنتی ہے ایسی ریاست میں جو کہنے کو ایٹمی پاور ہے ،ایسی ریاست جس کی فوج دنیا کی سب بہترین فوج ہے ،ایسی ریاست جو ایشیاء کی ٹائیگر بننا چاہتی ہے ،ایسی ریاست کیسی ریاست جہاں آئے دن عورتوں پر مظالم ڈھائے جاتے ہوں اورظالم قانون شکنجے میں نہ آسکیں اگر آجائیں تودھونس دھانس دے کر عدالتوں سے بری ہوجائیں یہ بہت ضروری ہوگیا ہے کہ ظالم ایسی قرار واقعی سزا دی جائے کہ وہ نشانِ عبرت بن جائے انصاف ریاست سے یہی تقاضا کرتاہے عورت کی عظمت کے فروغ کے لیے مثالی کاجائے تاکہ جہالت کے بدل چھٹ جائیں اسلام واحد دین ہے جس نے عورت کو ذلت وپستی سے نکال کر اسے شرف انسانیت بخشا جبکہ اسلام سے پہلے دیگر مذاہب میں عورت کو ذلت، رسوائی وتحقیر کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ ہندو مت میں خاوند کی موت کے ساتھ عورت کو بھی ستی کردیا جاتا تھا یعنی اسے بھی زندہ جلادیا جاتا تھا جبکہ عرب معاشرے میں اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں لڑکی پیدا ہونے پر اسے زندہ درگورکردیا جاتا تھا قرآن پاک میں اس بہیمانہ ظلم کا ذکر موجود ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خبر دی جاتی تواس کا چہرہ سیاہ پڑجاتا ہے اور وہ غم سے گھلنے لگتا ہے اس بُری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چُھپا چُھپا پھرتا ہے سوچتا ہے کہ کیا اس کو ذلت کے ساتھ لیے ہوئے ہی رہے یا اسے مٹی میں دبادے آہ ! کیا ہی برا فیصلہ کرتے ہیں،حضرت عمرؓ فاروق اس دور جاہلیت کے معاشرے میں گواہی دیتے ہیں کہ قسم بخدا ہم دور جاہلیت میں عورتوں کو کوئی حیثیت ہی نہیں دیتے تھے یہاں تک کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے بارے میں اپنی ہدایت نازل کی اور ان کے لیے جو کچھ حصہ مقرر کرنا تھا مقرر کیا(صحیح مسلم شریف)اسلام نے اُس ذلت اور رسوائی سے عورت کو نجات دلائی اور اسے زندہ رہنے کا حق دیا بلکہ زندہ درگور کرنے والوں کو آگاہ کیا کہ اس جرم کا ضرور ان سے سوال ہوگا اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب کہ زندہ درگور لڑکی کے بارے میں پوچھا جائیگا کہ کس گناہ میں وہ ماری گئی،اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان کے عورت کو مرد کے یکساں درجہ دیا، اسلام کے علاوہ باقی تمام تہذیبوں نے خصوصاً مغرب جو آج عورت کی آزادی، عظمت اور معاشرے میں اس کو مقام و منصب دلوانے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتاہے۔ لیکن اس معاشرے نے ہمیشہ عورت کے حقوق کو سبوتاژ کیا، اور عورت کو اپنی محکومہ اور مملوکہ بنا کر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مختلف تہذیبوں اور اقوام نے عورت کے لئے سینکڑوں قانون بنائے مگر یہ قدر ت کا کرشمہ ہے کہ عورت نے اسلام کے سوا اپنے حقوق کی کہیں داد نہ پائی عصر حاضر کی جدید علمی تہذیب نے اسے ایک اٹل حقیقت تسلیم کر لیا ہے۔لیکن جہاں عورت کا وجود مرد کی زندگی کے نشو و ارتقاء میں ایک حسین اور موثر محرک تھا، وہاں مردوں نے عورت کو ہمیشہ اپنی عیش کوشی اور عشرت پرستی کا ادنیٰ حربہ اور ذریعہ تصور کیا اور یوں معاشرے میں اس کی حیثیت ایک زر خرید کنیز کی سی بن کر رہ گئی، اقوام عالم کی تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی تہذیب کی تباہی ایسے حالات میں ہوئی جب عورت اپنی صحیح حیثیت کھو بیٹھی اور مرد کے ہاتھوں میں آلہ کار بن گئی۔اسلام کی آمد عورت کے لئے غلامی، ذلت اور ظلم و استحصال کے بندھنوں سے آزادی کاپیغام تھی۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کردیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں، اور عورت کو وہ حیثیت عطا کی جس سے وہ معاشرے میں اس عزت و تکریم کی مستحق قرار پائی جس کے مستحق مرد ہیں-

Rashid Sudais
About the Author: Rashid Sudais Read More Articles by Rashid Sudais: 56 Articles with 73644 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.