پلیٹ فارم

ازقلم : ارم فاطمہ( لاہور)
’’ تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ اس نے چائے کا گلاس اور بسکٹ کی پلیٹ رکھتے ہوئے اس تیرہ سالہ بچے سے پوچھا۔
’’جی مجھے سب چھوٹا کہہ کر بلاتے ہیں ۔‘‘ اس نے سادگی سے جواب دیا۔
’’ میں تمہارا اصلی نام پوچھ رہا ہوں جو تمہارے ماں باپ نے رکھا۔ جیسے میرا نام سعد ہے سعد سلمان۔‘‘ اب کے اس نے وضاحت سے پوچھا۔
’’ماں باپ کو تو دیکھا نہیں مگر چاچا مجھے ریحان کہہ کر بلاتا ہے اورباقی لوگ چھوٹا کہتے ہیں۔ یہ نام مجھے یہیں پلیٹ فارم پہ ملا ہے ۔‘‘اس نے ہاتھ سے ٹی سٹال پر بیٹھے ادھیڑ عمر آدمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ’’ اسی نے مجھے پالا ہے ۔‘‘
’’ تم رہتے کہاں ہو ؟ ‘‘ اسے جانے کیوں اس بچے میں دلچسپی محسوس ہورہی تھی یا پھر اپنے اندر کی بے نام اداسی کوپل بھر کے لئے بھول جانا چاہتا تھا۔
’’میں یہیں کہیں پلیٹ فارم پر ہی چادر بچھا کر سو جاتا ہوں یا پھرکسی خالی بنچ پر۔ ویسے تو جی مشکل سے چند گھنٹے ملتے ہیں سونے کے لیے کیونکہ رات بھرٹرینیں جو آتی رہتیں ہیں۔ سب کو جی چائے کی ضرورت ہوتی ہے ۔‘‘
’’ ایک بات پوچھوں آپ سے صاب جی ۔‘‘ اس نے ہمت کرتے ہوئے کہا۔
’’ آپ کو میں کتنے ہی سالوں سے دیکھ رہا ہوں۔ آپ آج کے دن یعنی 21 اگست کوصبح سے اس بنچ پرآ کر بیٹھتے ہیں اور شام تک خاموشی سے آتی جاتی ٹرینوں کودیکھتے ہیں۔ اور پھر خاموشی سے چلے جاتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے ؟‘‘وہ اس بچے کے مشاہدے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ نو عمر لڑکا بہت اپنائیت سے پوچھ رہا تھا۔
’’پلیٹ فارم کی دنیا باہر کی دنیا سے بہت مختلف ہوتی ہے۔یہاں لوگ پل بھر کے رشتوں میں بندھتے ہیں ، ملتے ہیں اور پھر بچھڑ جاتے ہیں۔ کچھ یادیں بہت انمول ہوتیں ہیں اور بعض یادیں روح کو زخمی کردیتیں ہیں ۔‘‘اس کی سوچیں جانے کہاں بھٹک رہیں تھیں اور نظریں پلیٹ فارم کی خالی پٹڑیوں پر جمی تھیں جن پر کسی ٹرین کی آمد کے باعث زندگی دوڑنے لگی تھی۔پلیٹ فارم پر ہلچل سی مچ گئی تھی۔ ادھرادھر بھاگتے لوگ اپنے سامان سنبھالتے کبھی کسی قلی کو آوازیں دیتے ایک الگ ہی منظرنظر آتا تھا۔کتنی بے چینی ہوتی تھی ان کے انداز میں جیسے ٹرین کی آمد کے ساتھ ہی ان کا انتظار ختم ہونے کو ہے اور پھربس ایک ہی لگن رہ جاتی تھی منزل پر پہنچنے کی لگن۔۔۔
سب کی زندگی میں مختلف سٹیشن آتے ہیں۔کبھی انسان خود اپنی منتخب کی ہوئی ٹرین میں سوار ہوتا ہے اور کبھی اسے قسمت کی منتخب کی ہوئی ٹرین پر ہی اپنا سفر جاری رکھنا ہوتا ہے اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کسی ایک سٹیشن پر آکر رک جاتی ہے۔وقت جیسے منجمد سا ہوجاتا ہے اور زندگی ٹھہرجاتی ہے۔۔۔ جیسا کہ آج سے 35 سال پہلے میرے ساتھ ہوا تھا۔
جانے کس یاد نے ذہن پر دستک دی کہ وہ چونک سا گیا اور آنکھوں میں نمکین پانی کی نمی گھل گئی اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور سر بنچ کی پشت سے ٹکا دیا۔
صبح سے شام تک مختلف اوقات میں چھوٹے کی آواز پر ادھر ادھر بھاگتے دوڑتے کام نبٹاتے ریحان کو پتا نہ چلا کب بنچ خالی ہو گیا۔
اسے لگا پورا پلیٹ فارم ویران ہو گیا ہے۔ اب اسے شدت سے 21 اگست کا انتظار رہنے لگا۔مگر اس کا سوال ادھورا ہی رہا۔ماہ وسال گزرتے رہے۔ وہ نوعمری سے نکل کرجوانی کی سٹیج پر قدم رکھ چکا تھا۔ سعد نے اس کی تعلیم کا بار اٹھا لیا تھا۔ اسے خوشی تھی کہ ریحان نے اسے مایوس نہیں کیا تھا۔ اب اپنی ذہانت پہ وہ انجئنرنگ پڑھ رہا تھا۔
مگر وہ 21 اگست کوپلیٹ فارم نمبر 5 پہ آنا نہیں بھولتا تھا۔اب جب وہ سعد کو دیکھتا توکنپٹیوں پر اترتے سفید بال اسے احساس دیتے کہ وقت کتنی تیزی سے گزر رہا ہے۔ ہر گزرتے سال کے ساتھ اس کے اندر شدت سے خواہش پیدا ہوتی کہ وہ جان سکے پلٹ فارم نمبر 5 سے سعد کی ذہنی وابستگی کا سبب کیا ہے ؟ ایسا نہ ہو کہ بہت دیر ہو جائے۔۔۔ اسے سعد کا انتظار تھا۔ جیسے ہی اس نے سعد کو آتے دیکھا دوڑ کر اس کے ہاتھ سے بریف کیس پکڑ لیا۔ بنچ پر بیٹھتے ہوئے سعد نے پوچھا :’’کیا تم میرا انتظار کر رہے تھے؟‘‘
’’ جی آج میں آپ سے سب کچھ جاننا چاہتا ہوں پتا نہیں زندگی پھر کبھی موقعہ دے نہ دے ۔‘‘سعد ہولے سے مسکرایا جیسے اسے توقع تھی کہ وہ ایک دن اس سے ضرور اس بارے میں سوال کرے گا۔اسے اپنے ساتھ بنچ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ جانے کتنے ہی لمحے چپ چاپ سرک گئے۔۔ لبوں کی خاموشی اور نگاہوں کا ایک مرکز پر جمے رہنا بتا رہا تھا کہ وہ ماضی میں سفرکررہا تھا اور مناسب الفاظ کی تلاش میں تھا۔ تبھی سعد کہنے لگا ـ:
’’ میرے والد سلمان احمد سٹیٹ بنک میں آپریشن مینیجرکے عہدے پر تھے جب انہوں نے ریٹائرمنٹ لے لی اور ہم کراچی سے لاہور شفٹ ہوگئے۔ انہیں لاہور سے بہت وابستگی تھی۔ جب میں قریباََ6 سال کا تھا تووہ مجھے دو تین ہفتوں میں ایک بار ضرورریلوے اسٹیشن لے کر آتے اور پلیٹ فارم نمبر 5 کے اس بنچ پر بیٹھ کر مجھے اپنی گزری زندگی کے واقعات سناتے تھے۔ ا ن کی جنون کی حد تک خواہش تھی کہ ان کا بیٹا آرمی آفیسر بنے۔ ان کی اس خواہش کے پیچھے کون سا خواب تھا کیسا جذبہ تھا میں نہیں جانتا تھا۔پھر جب میں نے میٹرک میں اچھی پوزیشن کے ساتھ پاس کیا تو انہوں نے میرا ایڈمیشن حسن ابدال کیڈٹ کالج میں کروادیا۔
اسی بنچ پر بیٹھتے ہوئے انہوں نے مجھے کہا تھا :’’ تمہیں آرمی میں کمیشن مل جائے یہ میرا سب سے بڑا خواب ہے اور تمہیں میرے خواب کو سچ کر دکھانا ہے۔‘‘ اس دن پہلی بار میں نے ان کی آنکھوں میں نمی دیکھی اور میں پوچھے بغیر نہ رہ سکا : ’’ ابو مجھے بتائیں آپ کی ایسی کون سی یادیں لاہور اسٹیشن کے اس پلیٹ فارم سے جڑی ہیں جن کی اذیت کو برداشت کرنے کی کوشش میں آپ کی آنکھیں شدت جذبات سے سرخ ہو جاتیں ہیں۔ ‘‘
تب انہوں نے مجھے بتایا۔۔۔
’’ان کے آباء واجداد کا تعلق بھارت کے شہر جونپورسے تھا۔1947ء میں پاکستان بنا توملک بھر میں مسلم کش فسادات کے باعث مسلمان بہت غیرمحفوظ ہو گئے تھے۔ تب تمہارے دادا اورچچا جان نے فیصلہ کیا کہ پاکستان چلے جانا چاہیے۔جبکہ قریبی لوگوں اور دوستوں کا کہنا تھا کہ ابھی فسادات زوروں پر ہیں ایک دو سال بعد چلے جانا۔ مگر اپنی مٹی یعنی پاکستان کی محبت میں اب نہیں پاکستان سے دور رہنا گوارا نہ تھا۔ پھر ابو نے بتایا کہ میرے دادا جان انگریز فوج کی عملداری میں کام کرتے رہے تھے اوران کے تعلقات اتنے تھے انہیں یقین تھا کہ وہ بحفاظت پاکستان پہنچ جائیں گے۔
مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ دلوں میں اس قدر نفرت بڑھ چکی تھی کہ ن کے بعض ہندو دوستوں نے خود بلوائیوں کوٹرین کے اس ڈبے کا بتایا جس میں ہمارا پورا خاندان سوار تھا۔ ویسے تو حملہ پوری ٹرین پر ہوا مگر ہمارے ڈبے میں سکھ اور ہندوفوجی گارڈ کے ہونے کی وجہ سے امید تھی کہ ہم بچ جائیں گے مگر اس کے باوجود ہمارے خاندان کے ایک ایک فرد کو خون میں نہلا دیا گیا۔ میری عمر اس وقت چودہ برس تھی۔ میں نے لاشوں کے درمیان خود کو اس طرح لٹا لیا کہ جیسے میں بھی مردہ ہوں۔۔مگر میں زندہ کہاں تھا ؟اپنے خونی رشتوں کی لاشوں کو دیکھ کربھی میں حواسوں میں تھا تویہ اﷲ کی مشیت اور مرضی تھی۔ میں نے اس زمانے میں کرسچن مشنری سکول سے پڑھا تھا میری انگلش بہت اچھی تھی۔ یہاں پاکستان میں کئی محکموں میں پڑھے لکھے افراد کی ضرورت تھی۔ جاب کے ساتھ میں اپنی تعلیم بھی حاصل کرتا رہا۔ اب مجھے تنہا ہی جینا تھا۔
آپ محنت کرو تو قدرت خود راستے کھولتی چلی جاتی ہے۔ا سٹیٹ بنک میں جاب کے دوران ہی میں نے اپنی کولیگ سے شادی کرلی۔ جبھی سے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں اپنے بیٹے کو آرمی آفیسربناؤں گا تا کہ وہ قربانیوں سے بنے پاکستان کی حفاظت اور خدمت کر سکے۔۔‘‘
ریحان کی آنکھوں میں آنسو آگئے کہانی سن کر چند لمحے تو اس سے بولا نہیں گیا۔ تبھی سعد کہنے لگا :’’ انسان کی زندگی میں کئی طرح کے موسم آتے ہیں۔ کہیں خزاؤں سی تلخ یادیں اسے اداس کر دیتیں ہیں تو کبھی بہار میں کھلتے نئے پھولوں کی تازگی لئے خوشگوار یادیں لبوں کو مسکراہٹ دے جاتیں ہیں۔۔
ایک مرتبہ میں چھٹیوں پر گھر آیا۔ واپسی پر مجھے سٹیشن پہنچنے میں دیر ہوگئی۔ جب میں پہنچا تو ٹرین پٹڑی پر رینگ رہی تھی اور آہستہ آہستہ اس کی رفتار تیزہو رہی تھی۔ پلیٹ فارم پر بھاگتے جو ڈبہ میرے سامنے آیا میں اسی پر سوار ہو گیا یہ سوچ کر کہ اگلے سٹیشن پر اتر کر اپنے ڈبے میں چلا جاؤں گا۔
ڈبے میں پہلے ہی جگہ نہ تھی میں دروازے کے پاس کھڑا کھڑکی سے باہر دیکھ رہا تھا تبھی میرے کانوں میں اونچے قہقہوں کی آواز اورکچھ نازیبا الفاظ سنائی دیے۔میں نے دیکھا توایک صاحب اپنی بیوی اور دو بیٹیوں کے ساتھ بیٹھے تھے اور پریشان تھے۔ کھڑکی کے ساتھ سنگل سیٹوں پردولڑکے بیٹھے ان پر مسلسل نظریں گاڑھے اور آپس میں معنی خیز جملے بول رہے تھے۔
وہ لوگ بہت پریشان تھے۔ ڈبے میں بیٹھے باقی لوگ ان لڑکوں کو کچھ نہیں کہہ رہے تھے۔میں نے ان لڑکوں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ انہیں پریشان نہ کریں۔ مگر جب وہ باز نہ آئے تو میں نے انہیں کالرسے پکڑ کر ایک جھٹکے سے کھڑا کیا اور زور سے ایک ایک ہاتھ گدی پر مارا تو انہیں دن میں تارے نظر اگئے۔اتنے میں ٹکٹ چیکر آگیا۔ڈبے میں موجود سبھی لوگوں نے میرا ساتھ دیا۔ میں نے انہیں اپنا کیڈٹ کالج کارڈ بھی دکھایا۔ وہ صاحب جن کی بیٹیاں تھیں میرا شکر ادا کرتے نہ تھکتے تھے۔ میں نے انہیں کہا جس طرح اس ملک کی حفاظت کرنا فوجیوں کا فرض ہے اسی طرح اس ملک کی ماؤں بیٹیوں کی حفاظت بھی ہمارا اولین فریضہ ہے۔
پنڈی پہنچنے تک انہوں نے میرا بہت خیال رکھا۔اس سارے وقت میں یوں محسوس ہوتا رہا جیسے دو نگاہوں نے مجھے مسلسل حصارمیں لیا ہوا ہے جب کہ میں نے دانستہ بھی ان لڑکیوں سے بات کرنے کی کوشش نہیں کی۔اسٹیشن پر انہوں نے مجھ سے میرا مکمل تعارف اور فون نمبر لے لیا۔ جب میں کمیشنڈ آفیسر بن گیا ایک دن میرے موبائل پہ فون آیا۔ آواز انجان تھی۔
جب میں نے پوچھا :’’آپ کون بات کر رہی ہیں ؟‘‘ تو انہوں نے کہا : ’’ وہ خیام احمد کی چھوٹی بیٹی سامیہ ہے ۔ ‘‘ میں بہت حیران ہوا کہ وہ مجھے اب تک نہ بھولیں تھیں جب کہ میں انہیں کب کا بھول چکا تھا۔اور پھر خاندانوں کی باہمی رضامندی سے میری اورسامیہ کی شادی ہو گئی۔شادی کے بعد ہم ہر سال اس خاص دن یعنی 21 اگست کو جب ہماری پہلی ملاقات ہوئی تھی یہیں پلیٹ فارم نمبر5 پر آتے ہیں ۔ اپنی بیتی یادیں دہراتے ہیں۔سارا دن یہیں گزارتے ہیں۔اس پلیٹ فارم سے جڑی ایک تلخ اور ایک خوشگوار یاد میری زندگی کا اثاثہ ہے۔
ریحان جو اب تک محویت سے سن رہا تھا سعد کے خاموش ہونے پر ایک سحر سے باہر نکلا۔ایک سوال ابھی تشنہ تھا۔ سو کہنے لگا :’’میں نے تو آپ کو ہمیشہ تنہا ہی دیکھا ہے۔۔۔؟‘‘اس نے سوال ادھورا چھوڑ دیا۔سعد کا جواب اسے دکھ کی گہری دلدل میں اتار گیا۔۔۔۔
’’ہماری کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ شادی کے دو سال بعد ہی مجھ سے اور اس زندگی سے اس کا رشتہ ہمیشہ کے لئے ٹوٹ گیا۔۔۔۔مگر وہ آج بھی میری یادوں میں میرے ساتھ ہے۔۔۔پلیٹ فارم نمبر5 کے اس بنچ پرمجھے آج بھی اس کی خوشبو محسوس ہوتی ہے۔۔۔ ‘‘سعد کے لب خاموش تھے اور ریحان کو لگا زندگی کے ا سٹیشن کی تمام ٹرینیں اپنی جگہ رک گئیں ہیں۔
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142279 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.