وہ دھیرے دھیرے چل رہا تھا۔ مسکراہٹ اسکے چہرے پر بھلی لگ
رہی تھی۔ وہ یونہی چلتا اسکے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ نائلہ اور شازمہ باہر
بیٹھی تھی ڈاکٹر نے بس ایک کو ملنے کی اجازت دی تھی۔
وہ چلتا ہوا اسکے پاس آکر بیٹھ گیا۔ وہ آنکھیں بند کئے لیٹی تھی۔ اسکا چہرہ
پر سکون تھا، اور معصومیت لئے ہوئے تھا۔ وہ بے حد پیاری لگ رہی تھی آج اسے
جیسے اس سے خوبصورت چہرا اسنے آج تک نہیں دیکھا ہو اسکا دل کر رہا تھا بس
اسے دیکھتا رہے اور یہ لمحے کبھی ختم نہیں ہو۔ پر اسے بس دس منٹ تک ملنے کی
ہی اجاز ت تھی۔اسنے آہستہ سے اسکا ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا۔ حسنہ کسی کا لمس
اپنے ہاتھ پر محسوس کر کے آنکھیں کھول کر اسے دیکھنے لگی۔ اسکی انکھوں میں
آنسو تھے وہ بس اسے دیکھی جا رہا تھا لفظ جیسے کہیں کھو چکے ہو۔ اسے یہ
کوئی اور ہی والی لگ رہا تھا۔ جس کی آنکھوں میں اسکے لئے آنسو تھے۔ یہ لمحہ
اسکو حیران کرنے کے لئے کافی تھا۔ اور جو انسان اسے وجود سے اتنی نفرت کرتا
تھا اب ہاتھ تھامے اسکو دیکھی جا رہا تھا۔ یقیناً دعائیں قبول ہوتی ہے۔
اسکے دل سے آواز آئی تھی۔
“ ٹھیک تو ہو نہ۔ “ والی بمشکل بس اتنا ہی پوچھ پایا۔ اسنے اثبات میں گردن
ہلا دی۔
“جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ ،،،،، پہلے جیسی، “ اسنے ایک گہری سانس لی۔
“ میں تم سے معافی نہیں مانگو گا،،، معافی بہت چھوٹا لفظ ہے ،،،،، جو میں
تمہارے ساتھ کرتا رہا ہوں ،،،، بس اتنا کہوں گا کہ،،،، اب کبھی ان آنکھوں
میں آنسو نہیں آنے دوں گا۔ آئی پرامس یو،،، “ وہ رک رک کر اپنی بات پوری کر
رہا تھا حسنہ بس اسکی جھکے ہوئے چہرے کو دیکھی جا رہی تھی اسے والی کے
الفاظ پر یقین نہیں آ رہا تھا پر ،،،،، اسے ییقین کرنا تھا،،، ٹرسٹ کرنا
تھا اسکے ایک ایک لفظ میں سچائی کی مہک آ رہی تھی ۔ اسے اپنے رب پر بہت
پیار آ رہا تھا جس نے اسکی دعائیں اتنی جلدی قبول کر لی تھی۔ والی اور کیا
کہہ رہا تھا اسے کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اسکا دل ،،،،، اسکا دل تو اللہ
کے شکر ادا کرنے میں مصروف تھا۔
وہ جا رہا تھا ،،، اپنی بات پوری کر کے وہ اب جا رہا تھا۔ وہ اسے جاتا دیکھ
رہی تھی۔ جب تک وہ کمرے سے باہر نہیں چلا گیا وہ اسے دیکھتی رہی پھر آنکھیں
بند کر کے ایک بار پھر اللہ سے باتیں کرنے لگ گئی۔
وہ بچپن سے ہی اس عادت کی مالک تھی کہ اللہ سے باتیں کرتی رہتی تھی اپنے سب
مسئلے اللہ سے بانٹ کر پر سکون ہو جایا کرتی تھی۔
آج حسنہ کو ہسپتال سے ڈسچارج ملنے والا تھا۔ وہ بہت خوش تھی شازمہ بھی اپنے
کئے کی معافی مانگ چکی تھی۔ سب کچھ نارمل ہو گیا تھا ان دنوں والی نے حسنہ
کا بہت خیال رکھا وہ اپنا سب کچھ یہی لے آیا تھا۔ اور یہی سے آفس جاتا تھا
اسنے گھر جانا ہی چھوڑ دیا تھا پر کل سے وہ گھر جا رہا تھا کیونکہ حسنہ جو
واپس آنے والی تھی وہ اسکا اچھے سے استقبال کرنا چاہتا تھا۔ حسنہ کے
استقبال میں شازمہ والی کا اچھے سے ہاتھ بٹا رہی تھی تب نائلہ کو حسنہ کے
پاس ہسپتال چھوڑ دیا تھا۔
جس نے حسنہ پر گولی چلائی تھی وہ اب جیل کی سلاخوں کے پیچھے چکی پیس رہا
تھا۔ حسنہ کو ہوش آتے ہی اسنے اپنے بیان میں پولیس کو جو ہوا سب سچ بتا دیا
تھا۔ جس کی بناہ پر اس آدمی کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔ (جاری ہے)
|