کسی بھی شے میں بگاڑ تب پیدا
ہوتا ہے جب اس سے اعتدال اور توازن رخصت ہوجاتا ہے یہ حقیقت ہے کہ کائنات
اعتدال اور توازن کی بناء پر ہی چل رہی ہے انسان کا جسمانی نظام اعتدال اور
توازن پر ہی قائم ہے اگر اعتدال اور توازن جسم انسانی سے رخصت ہوجائے تو
پھر وہ صحت مند نہیں بلکہ بیمار کہلائے گا۔اعتدال اور توازن کی رعایت دین
اسلام نے بھی رکھی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا حسن ہی اعتدال اور توازن
ہے کیونکہ دیگر محرفہ مذاہب اعتدال اور توازن سے پرے ہوکر افراط اور تفریط
میں مبتلا ہیں۔ کسی نے روحانیت پر اتنا زور دیا کہ دنیا کی ضرورتیں اور
تقاضوں سے غافل ہوگئے اور کسی نے مادیت کو ہی اپنا سب کچھ مان لیا۔
دین اسلام چونکہ تمام سابقہ آسمانی مذاہب کا تصحیح شدہ ایڈیشن ہے لہٰذا اس
میں اعتدال اور توازن کا بہت زیادہ خیال رکھا گیا ہے یہاں روح کے تقاضوں کو
بھی دیکھا گیا ہے اور مادیت کی ضرورتوں کو بھی سمجھا گیا ہے۔ چنانچہ اسلام
نے رہبانوں کو دنیادار اور دنیاداروں کو رہبان بنایا ہے۔ یہی اسلام کا حسن
ہے اور یہی اس کی جاذبیت ہے۔چنانچہ حافظ ذہبی نے ایک مومن اور مسلم کی صفت
بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ بکاء بالیل اور بسام بالنھار ہو یعنی راتوں کو
خوف خدا سے رونے والا ہو کیونکہ حدیث پاک میں جو آنکھ خوف خدا سے تر ہوئی
اللہ اس پر جہنم کو حرام کردیں گے اور رسول پاکۖ کا ہی ارشاد ہے کہ مسکرانا
بھی صدقہ ہے۔
یہ انسانی فطرت اور کمزوری ہے کہ وہ بار بار توازن شاہراہ اعتدال سے ہٹ
جاتی ہے چنانچہ جب کبھی دور رسالت میں ایسا ہوا تو رسول پاکۖ نے اس پر نکیر
فرمائی اور تاقیامت امت کیلئے ایک سوہ اور نمونہ قائم کردیا کہ دین اور
دنیا میں اعتدال اور توازن رکھنا ہی اسلام کا پسندیدہ عمل ہے۔ چنانچہ جب
کچھ صحابہ کرام نے دنیاوی تقاضوں کو پس پشت ڈال کر شادی نہ کرنے اور ہمیشہ
عبادت میں لگے رہنے کا ارادہ کرلیا تو آپ نے ان کو سمجھایا کہ میں تم سے
زیادہ اللہ سے ڈرنے والا،اس کا تقویٰ اختیار کرنے والا ہوں۔لیکن میں قیام
اللیل بھی کرتا ہوں اور سوتا بھی ہوں، روزہ رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا
ہوں،عورتوں سے شادی کرتا ہوں ، جو کوئی میرے طریقہ کو ناپسند کرے گا اس کا
مجھ سے کوئی تعلق نہیں،اسی طرح ایک دوسرے موقع سے رسول پاکۖ نے ایک بار
قرات ،قیام اور روزہ میں مبالغہ کرنے والوں کو میانہ روی اور اعتدال کی
نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔''بلاشبہ تمہارے بدن کا تم پر حق ہے ،تمہارے گھر
والوں کا تم پر حق ہے اور تمہارے ملاقاتیوں کا تم پر حق
ہے''۔(رواہماالبخاری)
نبی پاکۖ کی سنت اور طریقہ یہی ہے کہ مادیت اور روحانیت کے درمیان اعتدال
اور توسط کی راہ اپنائی جائے۔ لذت نفس اور رب کے حقوق کے درمیان میانہ روی
کو راہ دیا جائے۔ چنانچہ جب حضرت حنظلہ نے خود کو اس بناء پر منافق سمجھنا
شروع کیا کہ رسول پاک کی صحبت اور مجلس میں جو کیفیت ہوتی ہے وہ گھر آنے پر
اور گھر والوں سے میل جول میں نہیں ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے
فرمایا 'اے حنظلہ اگر تم لوگ اس حالت پر باقی رہو جو میری مجلس میں ہوتی ہے
تو تم سے فرشتے راستوں میں مصافحہ کریں لیکن اے حنظلہ وقفہ وقفہ سے'۔(رواہ
مسلم )
یہی وجہ ہے کہ ہم اکابر صحابہ کو دیکھتے ہیں کہ ان کی زندگی اعتدال اور
توازن کا بہترین نمونہ تھی ۔جہاں وہ ایک طرف عابد وزاہد اور دنیا سے کنارہ
کش تھے وہیں وہ ایک شفیق والد اور نیک شوہر بھی تھے جو اپنے گھر والوں کی
تمام ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔
دنیا چھوڑ کر جنگلوں میں جا بسنا کوئی مشکل کام نہیں ۔مشکل یہ ہے کہ آدمی
دنیا میں رہے اور دنیا سے کنارہ کش رہے۔ اسی کو اکبرآلہ آبادی نے خوبصورت
پیرائے میں بیان کیا ہے کہ
دنیا میں ہوں دنیا کا طلبگار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں
حافظ ذہبی نے بھی سیراعلام النبلاء میں حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے اس
قول پر کہ'' اسلام سے قبل میں تجارت کیا کرتا تھا اسلام لانے کے بعد میں نے
تجارت اور عبادت کو جمع کرنا چاہا لیکن یہ ممکن نہ ہوا تو میں نے تجارت
چھوڑدی''۔ اس پر حافظ ذہبی نے تعلیق لکھی ہے کہ ''افضل اور بہتر طریقہ ہے
کہ تجارت اور عبادت کے ساتھ ساتھ جہاد کو بھی جمع کیا جائے جیسا کہ حضرت
ابوبکر صدیق ،حضرت عبدالرحمن بن عوف اور حضرت عبداللہ بن مبارک کا طریقہ
تھا۔لیکن جو طرز عمل حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے اسلاف
اور صوفیہ کی ایک جماعت کا وہی طرز عمل رہا ہے۔ بات یہ ہے کہ اس سلسلے میں
انسانی طبعیت اور مزاج مختلف ہوتے ہیں کوئی تجارت عبادت کو جمع کر لیتا ہے
کوئی نہیں کرسکتا۔ کوئی شروع اور ابتدائے حال میں تو تجارت اور عبادت کے
مابین توازن رکھتا ہے لیکن آخر میں اس سے یہ ممکن نہیں ہوتا اور کچھ لوگ اس
کے برعکس ہوتے ہیں,ان سب کی دین میں گنجائش ہے لیکن اہم اور ضروری یہ ہے کہ
بیوی اور بچوں کے حقوق کا خیال رکھا جائے''۔
روی الاعمش عن خیثمہ ،قابل ابوالدردائ،''کنت تاجرا قبل المبعث ،فلماجاء
الاسلام ،جمعت التجارة والعبادة ،فلم یجتمعا،فترکت التجارة ولزمت العبادۃ۔
قلت:الافضل جمع الامرین مع الجھاد،وھذاالذی قالہ،ھوطریق جماعۃ من السلف
والصوفیۃ ،ولاریب ان امزجۃالناس تختلف فی ذلک،فبعضھم یقوی علی الجمع
کاالصدیق،وعبدالرھمن بن عوف،وکمان کان ابن المبارک،وبعضھم یعجز ویقتصر علی
العبادۃ ،وبعضھم یقوی فی بدایتہ ،ثم یعجز،وبالعکس،وکل سائغ ،ولکن لابد میں
النھضۃ بحقوق الزوجۃ والعیال۔(سیراعلام النبلاء 333/2))
اس سلسلے میں اگر ہم رسول پاکۖ کے طرز عمل پر غور کریں تو یہ بات واضح ہوکر
آئے گی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں کتنا اعتدال اور توازن ہے۔ایک
جانب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبر و استقامت کے پہاڑ ہیں تو دوسری جانب اپنے
صاحبزادے حضرت ابراہیم کے انتقال پر آنکھیں بھر آتی ہیں اور آنسو بہنے لگتے
ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرز عمل سے ان لوگوں کی نفی ہوتی ہے جو
بچوں کے غم میں رونے کو خلاف مروت اور مردانگی خیال کرتے ہیں۔آپ صلی اللہ
کے وقار سکینت اور رعب وہیبت کا ذکر احادیث کی کتابوں میں موجود ہے مگر اس
کے ساتھ ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہا کے ساتھ دوڑ کا مقابلہ کرتے ہیں اور کبھی ہارتے ہیں اور کبھی جیتتے
ہیں۔ اب میں اپنی بات امام اصمعی کے بیان کردہ واقعہ پر ختم کرتا ہوں۔
امام اصمعی جو لغت کے امام ہیں اور لغت عرب کی تحقیق کیلئے وہ گاؤں اور
دیہاتوں کی خاک چھانتے پھرتے تھے الفاظ کی تحقیق کیلئے۔ وہ کہتے ہیں۔ میں
نے ایک دیہات میں ایک عورت کو دیکھا اس کے ہاتھ میں تسبیح ہے اوروہ کھڑی
سرمہ لگا رہی ہے اور بناؤ سنگھار کررہی ہے۔ اس پر میں نے اس سے پوچھا کہ ان
دونوں چیزوں میں کیا ربط ہے۔یعنی مجھے یہ بات عجیب معلوم ہوئی کہ ایک عورت
ذکر وتسبیح کرنے والی ہے اور ساتھ ہی اپنی آرائش وزیبائش میں لگی ہوئی
ہے۔اس کے سوال پر اس عورت نے جواب میں یہ شعر کہا
وللہ منی جانب لااضیعہ
وللھومنی والبطالۃ جانب
میرے معمولات میں سے اللہ کیلئے ایک خاص حصہ ہے جس کو میں ضائع اور برباد
نہیں کرتی اور اسی طرح تفریح اور فراغ کیلئے بھی کچھ اوقات کار ہیں۔ اصمعی
کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا کہ یہ کوئی نیک خاتون ہے اور شوہر والی ہے جس کے
لئے بناؤ سنگھار کر رہی ہے۔
مذکورہ خاتون کا جو طرز عمل اپنے خدا اور شوہر کیلئے تھا وہ طرز عمل ایک
شوہر کا دین اور اپنے بیوی بچوں کے بارے میں ہونا چاہئے ۔
|