يَٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟
لَا تَقْرَبُوا۟ ٱلصَّلَوٰةَ وَأَنتُمْ سُكَرَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا۟ مَا
تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِى سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا۟ ۚ
وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰٓ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَآءَ أَحَدٌۭ مِّنكُم
مِّنَ ٱلْغَآئِطِ أَوْ لَمَسْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوا۟ مَآءًۭ
فَتَيَمَّمُوا۟ صَعِيدًۭا طَيِّبًۭا فَٱمْسَحُوا۟ بِوُجُوهِكُمْ
وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا ۔ سورہ نسا آیت 43
ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ (126)
جب تک اتنا ہوش نہ ہو کہ جو کہو اسے سمجھو اور نہ ناپاکی کی حالت میں بے
نہائے مگر مسافری میں (127)اور اگر تم بیمار ہو (128) یا سفر میں یا تم میں
سے کوئی قضائے حاجت سے آیا (129) یا تم نے عورتوں کو چھوا (130) اور پانی
نہ پایا (131) تو پاک مٹی سے تیمم کرو (132) تو اپنے منھ اور ہاتھوں کا مسح
کرو (133) بے شک اللہ معاف فرمانے والا بخشنے والا ہے
تفسیر :
(126 )
شانِ نزول: حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ایک جماعتِ صحابہ کی دعوت کی اِس میں
کھانے کے بعد شراب پیش کی گئی بعضوں نے پی کیونکہ اس وقت تک شراب حرام نہ
ہوئی تھی پھر مغرب کی نماز پڑھی امام نشہ میں '' قَلْ
یَٰایُّھَاالْکَافِرُوْنَ اَعْبُدُ مَاتَعْبُدوْنَ وَانْتُمْ عَابِدُوْنَ
مَا اَعْبُدُ '' پڑھ گئے اور دونوں جگہ لَا ترک کردیا اور نشہ میں خبر نہ
ہوئی اور معنی فاسد ہوگئے اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور انہیں نشہ کی حالت
میں نماز پڑھنے سے منع فرما دیا گیا تو مسلمانوں نے نماز کے اوقات میں شراب
ترک کردی اس کے بعد شراب بالکل حرام کردی گئی
مسئلہ: اس سے ثابت ہوا کہ آدمی نشہ کی حالت میں کلمہء کفر زبان پر لانے سے
کافر نہیں ہوتا اس لئے کہ قُلْ یٰاَۤ یُّھَا الْکَافِرُوْنَ میں دونوں جگہ
لاَ کا ترک کُفر ہے لیکن اس حالت میں حضور نے اس پر کفر کا حکم نہ فرمایا
بلکہ قرآن پاک میں اُن کو یٰاَۤیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْ سے خطاب فرمایا
گیا۔
(127 )
جبکہ پانی نہ پاؤ تیمم کرلو ۔
(128 )
اور پانی کا استعمال ضرر کرتا ہو ۔
(129 )
یہ کنایہ ہے بے وضو ہونے سے
(130 )
یعنی جماع کیا۔
(131 )
اس کے استعمال پر قادر نہ ہونے خواہ پانی موجود نہ ہونے کے باعث یا دور
ہونے کے سبب یا اس کے حاصل کرنے کا آلہ نہ ہونے کے سبب یا سانپ،درندہ،دُشمن
وغیرہ کوئی ہونے کے باعث۔
(132 )
یہ حکم مریضوں، مسافروں ، جنابت اور حَدث والوں کو شامل ہے جو پانی نہ
پائیں یا اس کے استعمال سے عاجز ہوں( مدارک) مسئلہ : حیض و نفاس سے طہارت
کے لئے بھی پانی سے عاجز ہونے کی صورت میں تیمّم جائز ہے جیسا کہ حدیث شریف
میں آیا ہے۔
(133 )
طریقہء تیمّم تیمّم کرنے والا دل سے پاکی حاصل کرنے کی نیت کرے تیمم میں
نیت بالا جماع شرط ہے کیونکہ وہ نصّ سے ثابت ہے جو چیز مٹی کی جنس سے ہو
جیسے گَرد رِیتا پتّھر ان سب پر تیمم جائز ہے خواہ پتّھر پر غبار بھی نہ ہو
لیکن پاک ہونا ان چیزوں کا شرط ہے تیمم میں دو ضربیں ہیں ،ایک مرتبہ ہاتھ
مار کر چہرہ پر پھیرلیں دوسری مرتبہ ہاتھوں پر۔ مسئلہ: پانی کے ساتھ طہارت
اصل ہے اور تیمم پانی سے عاجز ہونے کی حالت میں اُس کا پُورا پُورا قائم
مقام ہے جس طرح حدث پانی سے زائل ہوتا ہے اسی طرح تیمم سے حتّٰی کہ ایک
تیمم سے بہت سے فرائض و نوافل پڑھے جاسکتے ہیں۔ مسئلہ: تیمم کرنے والے کے
پیچھے غُسل اور وضو کرنے والے کی اقتدا صحیح ہے۔شانِ نزول : غزوۂ بنی
المُصْطَلَق میں جب لشکرِ اسلام شب کو ایک بیاباں میں اُترا جہاں پانی نہ
تھا اور صبح وہاں سے کوچ کرنے کا ارادہ تھا وہاں اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ
رضی اللّٰہ عنہا کا ہار گم ہوگیا اس کی تلاش کے لئے سیّدِ عالم صلی اللّٰہ
علیہ وآلہ وسلم نے وہاں اقامت فرمائی صبح ہوئی تو پانی نہ تھا ۔ اللّٰہ
تعالٰی نے آیتِ تیمم نازل فرمائی۔ اُسَیْدْ بن حُضَیْر رضی اللّٰہ تعالٰی
عنہ نے کہا کہ اے آلِ ابوبکر یہ تمہاری پہلی ہی برکت نہیں ہے یعنی تمہاری
برکت سے مسلمانوں کو بہت آسانیاں ہوئیں اور بہت فوائد پہنچے پھر اونٹ
اٹھایا گیا تو اس کے نیچے ہار ملا۔ ہار گم ہونے اور سیّدِ عالَم صلی اللّٰہ
علیہ وآلہ وسلم کے نہ بتانے میں بہت حکمتیں ہیں ۔ حضرت صدیقہ کے ہار کی وجہ
سے قیام اُنکی فضیلت و منزلت کا مُشْعِر ہے۔ صحابہ کا جُستجُو فرمانا اس
میں ہدایت ہے کہ حضور کے ازواج کی خدمت مؤمنین کی سعادت ہے اور پھر حکمِ
تیمم ہونا معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کی
خدمت کا ایسا صلہ ہے جس سے قیامت تک مسلمان منتفع ہوتے رہیں گے سبحان
اللّٰہ ۔
نوٹ : قرآن پاک کے خلاف سازشوں سے آگاھی کیلئے اس لنک پر کلک کریں اور اس
کتاب کا مطالعہ ضرور کریں۔
https://library.faizaneattar.net/Books/index.php?id=49 |