کی محمدؐسے وفاتونے توہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیزہے کیالوح وقلم تیرے ہیں
سرکاردوعالم نورمجسم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سے غیرمشروط محبت ہرمسلمان کے
ایمان کی بنیادہے۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ذات مبارکہ ہمارے ایمان
کامرکزمحوراورحقیقی اساس ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی ذات گرامیِ وجہ
تخلیق کائنات اوردین کی اساس ہے ۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کاحقیقی عشق ہی
مومن کاقیمتی سرمایہ ہے۔ دین اسلام میں منصب رسالت کومرکزی حیثیت حاصل ہے ۔
منصب رسالت کی یہی مرکزیت اس امرکی متقاضی ہے کہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم
کی ذات گرامی ہر مسلمان کے لئے تمام محبتوں اورالفتوں کامرکزومحورقرار پائے
۔ کیونکہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی محبت کے بغیرہماراایمان نامکمل
ہے۔امتِ مسلمہ کی بقاء وسلامتی اورترقی کارازہی اسی امرپرمنحصر ہے۔شاعرمشرق
ڈاکٹرعلامہ محمداقبالؒ نے کیاخوب کہا،
مغزقرآن ،رُوح ایمان، جان دین
ہست حُبِّ رحمۃ للعالمین
حضرت بلال حبشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ صحابی رسول صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم ہیں
جن کوبالکل آغازاسلام میں مشرف بااسلام ہونے کاامتیازحاصل ہے۔کتب سیرمیں
مختلف روایات موجودہیں ۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ
ان پہلے سات اشخاص میں سے تھے جو اسلام کی دولت سے سرفرازہوئے۔آپ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ سے پہلے ام المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اﷲ تعالیٰ
عنہا،حضرت علی المرتضیٰ کرم اﷲ وجہہ الکریم ،حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ ،حضرت زیدبن حارثہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ،حضرت عماررضی اﷲ تعالیٰ عنہ
اورحضرت یاسررضی اﷲ تعالیٰ عنہ قبول اسلام کاشرف حاصل کرچکے تھے۔ آپ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ خادم رسول صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم اور مسجدنبوی کے ہمیشہ مؤذن
رہے ہیں۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ شروع میں ایک کافر کے غلام تھے۔اُمَیَّہ بن
خلف چونکہ مسلمانوں کادشمن تھا۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے قبول اسلام کے
بعدطرح طرح کی تکلیفیں دیتاتھا۔سخت گرمی اورتپتی ہوئی دھو پ میں دوپہرکے
وقت ریت پرسیدھالٹاکر سینہ پرپتھر کی بڑی چٹان رکھ دیتاتاکہ حرکت نہ
کرسکیں۔اورکہتاتھاکہ یااس حال میں مرجاؤیااسلام سے ہٹ جاؤ۔مگرحضرت بلال
حبشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ اس حالت میں بھی اَحَدْاَحَدْپکارتے رہے۔رات
کوزنجیروں میں باندھ کر کوڑھے لگائے جاتے اوراگلے دن ان زخموں کوگرم زمین
پرڈال کراورزیادہ زخمی کیاجاتاتاکہ تنگ آکریاتواسلام چھوڑدیں یایوں ہی تڑپ
تڑپ کرمرجائیں۔عذاب یعنی تکلیفیں دینے والے اکتاجاتے پھربھی زبان پریہی
جاری رہتااَحَدْاَحَدْکبھی ابوجہل توکبھی اُمَیّہ بِنْ خَلْف ،کبھی ان کے
پیروکارظلم کے پہاڑکھڑے کرتے۔تکلیف دینے والاہرشخص یہی کوشش کرتاکہ تکلیف
دینے میں اپناپورازورختم کردے ۔خلیفہ اوّل سیدناابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ نے جب اس حال میں دیکھاتوآپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوخریدکرآزادکردیا۔
حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی صحبت میں
پہنچنے کے بعدآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے لئے اپناچین ،چین نہ سمجھا۔اپنی
راحت،راحت نہ سمجھی،اپنی جان ،جان نہ سمجھی بلکہ سب کچھ بارگاہ رسالت مآب
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم میں قربان کردیا۔ سفروحضر،معرکہ ہویاامن کازمانہ
ہوہروقت خدمت رسول صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کافریضہ انجام دیتے رہے۔دھوپ میں
آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے لئے سایہ کاانتظام،پڑاؤڈالاجاتاتوخیمہ
کاانتظام کرتے ۔معرکوں میں ہوتے توسرکاردوعالم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے
محافظ ہوتے۔
آپ کااسم گرامی بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ،کنیت عبدالکریم اورابوعبداﷲ ہے۔آپ
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے والدماجدکانام رباح اوروالدہ کانام حمامہ تھا۔آپ رضی
اﷲ تعالیٰ نسلاًحبشی تھے۔ ابتداء میں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے
آباؤاجدادحبشہ میں قیام پذیرتھے بعدازاں ہجرت کرکے سرزمین حجازمکہ المکرمہ
میں قیام پذیرہوئے۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی ولادت سرزمین مکہ المکرمہ میں
ہوئی ۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اپنی زندگی کی اٹھائیس سال غلامی میں
بسرکیے۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کارنگ سیاہ اورقدلمبا،جسم کمزوراورآنکھیں سرخی
مائل تھیں۔ رخساروں پرگوشت کی مقدارکم جبکہ سینہ چوڑااورجسم پربال بے
شمارتھے۔داڑھی ہلکی اورپنڈلیوں پرگوشت کم جبکہ آوازبلند،بارعب اوربال
خمدارتھے۔
حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ تمام مشہور غزوات میں شریک ہوئے۔غزوہ بدر میں
آپ نے امیہ بن خلف کو تہِہ تیغ کیا جو اسلام کا بہت بڑا دشمن تھا اورخود ان
کی ایذارسانی میں بھی اس کا ہاتھ سب سے پیش پیش تھا۔حضرت بلال رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کوہرطرح کی تکلیفیں دے کرستایاکرتاتھا۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
کوکبھی مکہ المکرمہ کی سرزمین پررہائشی لڑکوں کے حوالے کردیاجاتاکہ لڑکے آپ
کوگلی کوچوں میں چکردیتے پھریں۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ غزوہ بدرمیں
سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ تھے ۔شام کے وقت جب کفارمکہ
پسپاہوگئے اورہتھیارڈالنے کی تیاری کررہے تھے ان میں اُمیہ بن خلف بھی شامل
تھا۔اُمیہ کے ہاتھ میں تلوارتھی۔اُس نے جب حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
کودیکھاتواُس نے نہایت حقارت کے ساتھ آپ کوغلام کہہ کرپکارااورساتھ ہی
تلوارکاوارکرناچاہا۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے جواباًاس پرتلوارکاوارکردیا۔جس
سے وہ اوندھے منہ گرِپڑااورماراگیا۔سیدناحضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
نے حضرت سیدنابلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا’’اے بلال
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ !اﷲ تمہیں خیروبرکت سے نوازے تم نے دشمن خداکوجہنم واصل
کردیا‘‘
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سب سے پہلے وہ بزرگ ہیں جنہیں اسلام کے پہلے مؤذن
ہونے کاشرف حاصل ہے۔جب آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سرکارِدوعالم نورِمجسم صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم کے دربارمیں مٔوذن بنے توہمیشہ سفروحضرمیں اذان کی خدمت آپ
کے سپردہوتی تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے وصال کے بعدآپ رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ کامدینہ طیبہ میں رہنااورآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی جگہ
کوخالی دیکھنامشکل ہوگیا۔اس لئے ارادہ کیاکہ اپنی زندگی کے باقی دن جہادمیں
گزاروں گااس لئے جہادمیں شرکت کی نیت سے ملک شام کے شہرحلب میں چلے
گئے۔اورایک عرصہ تک مدینہ منورہ واپس لوٹ کرنہ آئے۔ایک مرتبہ سرکارِ مدینہ
راحت قلب وسینہ علیہ الصلوٰۃ والسّلام کی حالت خواب میں زیارت کی آپ صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا’’بلال!یہ کیاظلم ہے ہمارے پاس کبھی نہیں آتے
۔’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری
ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘آنکھ کھلتے ہی مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے۔ جب
سرکاردوعالم نورمجسم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے شہر مدینہ منورہ میں داخل
ہوئے تو سب سے پہلے مسجدِ نبوی میں پہنچ کر حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کی نگاہوں
نے عالمِ وارفتگی میں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کبھی
مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں میں، جب کہیں نہ پایا تو آپ صلی اﷲ علیہ
وآلہٖ وسلم کی قبر انورمبارک پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا اوربارگاہ
رسالت مآب صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم میں عرض کرنے لگے’’ یا رسول اﷲ صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم ! آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جاؤ، غلام حلب سے بہرِ
ملاقات حاضر ہوا ہے۔ یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پْر انوار کے پاس گر
پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ
مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے،
جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے کہ بلال! ایک دفعہ وہ
اذان سنا دو جو سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سناتے تھے۔
آپ رضی اﷲ عنہ نے معذرت کی اورکہاکہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو اشہد ان
محمداً رسول اللّٰہ کہتے وقت آپ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت سے مشرف
ہوتاتھا ۔سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو
ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کسے دیکھوں گا؟بعض صحابہ
کرام علیہم الرضوان نے مشورہ دیا کہ حسنین کریمین رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے
سفارش کروائی جائے۔ جب وہ حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو اذان کے لیے کہیں
گے تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ امام عالی مقام سیدناحضر امام حسین
رضی اﷲ عنہ نے حضرت بلال رضی اﷲ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا ’’اے بلال! ہم
آج آپ سے وہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ (ہمارے ناناجان) اﷲ کے رسول صلی اﷲ
علیہ وآلہ وسلم کو اس مسجد میں سناتے تھے۔‘‘نواسہ رسول کی فرمائش ایسی نہیں
تھی کہ انکارکی گنجائش ہوتی، لہٰذا اسی مقام پر کھڑے ہوکر اذان دی جہاں
حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات مبارکہ میں دیا کرتے تھے۔’’جب آپ
رضی اﷲ عنہ نے (بآوازِ بلند) اﷲ اکبراﷲ اکبر کہا، مدینہ منورہ گونج اٹھا
(آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جذبات میں اضافہ ہوتا چلا
گیا) جب اشھد ان لا الہ الا اللّٰہ کے کلمات ادا کئے گونج میں مزید اضافہ
ہو گیا، جب اشھد ان محمداً رسول اللّٰہ کے کلمات پر پہنچے تو تمام لوگ حتی
کہ پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں (رقت و گریہ زاری کا عجیب
منظر تھا) لوگوں نے کہا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔
آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ منورہ میں اس دن سے زیادہ
رونے والے مرد و زن نہیں دیکھے گئے۔اذان کے دوران جب سرکارمدینہ صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم کی زیارت نہ ہوئی۔توآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے غم
وہجرمیں بے ہوش ہوکرگرگئے اوربہت دیرکے بعدہوش میں آکراُٹھے اورروتے ہوئے
پھردوبارہ ملک شام چلے گئے۔ (مدارج النبوۃ ص۲۳۶ جلد۲،اسدالغابہ،سیرۃ
الحلبیہ،الجواہرالمنظم )علامہ اقبال رحمۃاﷲ علیہ اذانِ بلال رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ کو ترانہ عشق قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں ۔
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اْس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
جنت کی سیرکے دوران سرکارِمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے کسی کے قدموں کی
آہٹ سماعت فرمائی جس کے بارے میں سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم
کوبتایاگیاکہ یہ حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ہیں۔(مشکوٰۃ المصابیح،باب
مناقب عمر)
حضرت سیدناابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ سرکارمدینہ
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے فجرکے وقت حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے
فرمایا’’اے بلال!مجھے بتاؤتم نے اسلام میں ایساکون ساعمل کیاہے جس پرثواب
کی امیدسب سے زیادہ ہے۔کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے تمہارے قدموں کی آہٹ
(آواز)سنی ہے۔حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا’’میں نے اپنے نزدیک
اس سے زیادہ کوئی امیدافزاکام نہیں کیا۔ہاں میں دن یارات میں جب بھی
وضو،غسل کرتاہوں توجتنی اﷲ تعالیٰ کومنظورہونمازپڑھ لیتاہوں۔ (صحیح مسلم
،باب فضائل بلال)حکیم الامت حضرت علامہ مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃ اﷲ
تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں’’غالب یہ ہے کہ حضور صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کوکسی
شب خواب میں معراج ہوئی تب اس کے سویرے حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے
سوال کیاکیونکہ جسمانی معراج کے سویرے توفجرجماعت سے پڑھی نہ تھی۔یایہ سب
آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے جسمانی معراج میں ملاحظہ فرمایاتھامگریہ سوال
کسی اوردن فجرکی نمازکے بعدفرمایایہ ہی معنی زیادہ ظاہرہے۔مزیدفرماتے ہیں
کہ حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم سے آگے جنت
میں جاناایساہے۔جیسے نوکرچاکربادشاہوں کے آگے ہٹوبچوکرتے ہوئے چلتے
ہیں۔مطلب یہ کہ اے بلال !تم نے ایسا کون ساکام کیاجس سے تم کومیری یہ خدمت
میسرہوئی ؟خیال رہے معراج کی رات نہ توحضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ ،آپ صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے ساتھ جنت میں گئے نہ آپ کومعراج ہوئی بلکہ
سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے اس رات وہ واقعہ ملاحظہ
فرمایاجوقیامت کے بعدہوگا۔کہ تمام خلق سے پہلے آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم
جنت میں داخل ہوں گے اسطرح حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ خادمانہ حیثیت سے
آگے آگے ہوں گے۔اس سے چندمسئلے معلوم ہوئے ۔ایک یہ کہ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم کولوگوں کے انجام پرخبردارکیاکہ کون جنتی ہے اورکون
دوزخی اورکون کسی درجے کاجنتی ،دوزخی ہے۔یہ عُلوم خمسہ میں سے
ہیں۔اوردوسرایہ کہ آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے کان وآنکھ لاکھوں برس
بعدہونیوالے واقعات کوسن لیتے ہیں دیکھ لیتے ہیں۔یہ واقعہ اس تاریخ سے کئی
لاکھ سال بعدہوگا مگرقربان ان کانوں کے آج ہی سن رہے ہیں۔تیسرے یہ کہ انسان
جس حال میں زندگی گزارے گااسی حال میں وہاں ہوگا۔حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ
عنہ نے اپنی زندگی آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت میں گزاری وہاں بھی
خادم ہوکراُٹھے۔اورحضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے فرمان کہ ’’میں نے دن
رات کی جس گھڑی بھی وضویاغسل کیاتواس قدرنمازپڑھ لی جومیرے مقدرمیں تھی‘‘کی
وضاحت کرتے ہوئے مفتی احمدیارخان نعیمی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں
یعنی دن رات میں جب بھی میں نے وضویاغسل کیاتودونفل تحیۃ الوضوپڑھ
لیے۔مگریہاں اوقات غیرمکروہ میں پڑھنامرادہے۔تاکہ یہ حدیث ممانعت کی احادیث
کے خلاف نہ ہو۔خیال رہے آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کاحضرت بلال رضی اﷲ
تعالیٰ عنہ سے یہ پوچھنااس لئے تھاتاکہ آپ یہ جواب دیں اورامت اس پرعمل کرے
۔(مراۃ المناجیح،نوافل کاباب)
حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ایک مرتبہ ایک شخص نے پوچھاکہ اے بلال رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ یہ توبتاکہ سرکارمدینہ راحت قلب سینہ علیہ الصلوٰۃ والسلام
کے اِخراجات کی کیاصورت ہوتی تھی؟حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایاکہ
سرکارعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے پاس کچھ جمع تورہتاہی نہیں تھا۔اسے میں اچھی
طرح جانتاہوں کیونکہ یہ خدمت میرے سپردتھی۔اگرکوئی بھوکاشخص سرکارمدینہ صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضرہوتاتوسرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم مجھے ارشادفرمادیتے ۔میں کہیں سے قرض لے
کراسکوکھاناکھلادیتا۔اگرکوئی ننگاشخص بارگاہ اقدس میں حاضرہوتاتوسرکارمدینہ
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم مجھے ارشادفرمادیتے میں کہیں سے قرض لیکراس
کوکپڑاپہنادیتا۔زیادہ تریہی صورت ہوتی رہی۔ایک مرتبہ ایک مشرک مجھے ملااس
نے مجھ سے کہاکہ میں صاحب ثروت ہوں توکسی اورسے قرض نہ لیاکربلکہ جب ضرورت
پڑے تومجھ سے قرض لے لیاکر۔میں نے اس مشرک سے کہااس سے بہترکیاہوگا۔میں نے
اس مشرک سے قرض لیناشروع کردیا۔جب سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی
جانب سے ارشادعالی ہوتامیں اس سے قرض لے آتااورسرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم کے ارشادکی تعمیل کردیتا۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ
میں ایک مرتبہ وضوکرکے اذان کہنے کے لئے کھڑاہی تھاکہ وہی مشرک جس سے قرض
لیاکرتاتھاایک جماعت کے ساتھ آیااورکہنے لگا۔اوحبشی!جب میں اس کی طرف متوجہ
ہواتووہ ایک دم مجھے بے تحاشہ گالیاں دینے لگا۔اوربُرابھلاجواس کے منہ میں
آیاکہنے لگا۔اورمجھے مخاطب کرکے کہاکہ مہینہ ختم ہونے میں کتنے دن باقی
ہیں۔میں نے کہاکہ مہینہ ختم ہونیوالاہے۔وہ مشرک شخص کہنے لگاکہ چاردن باقی
ہیں۔اگرمہینہ کے اختتام پرمیراسب قرضہ ادانہ کیاتومیں تجھے اپنے قرضہ میں
غلام بنالوں گااورپہلے کیطرح بکریاں چراتاپھرے گا۔مجھے یہ کہتے ہوئے
چلاگیا۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رنج وصدمہ کیوجہ سے سارادن میں
پریشان رہا۔اکیلے نمازعشاء کے بعدسرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی
خدمت اقدس میں حاضرہوکرساراقصہ سنایااورعرض کیا۔یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم!اسوقت نہ میرے پاس اورنہ ہی آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے پاس
کوئی فوری انتظام ہے ۔کہ جس سے اس کاقرضہ اداکردیں۔وہ شخص دوبارہ مجھے ذلیل
کرے گااگراجازت ہوتومیں قرض کی ادائیگی کابندوبست نہ ہونے تک روپوش
ہوجاؤں۔جب آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کے پاس کہیں سے کچھ آجائے گاتومیں
دوبارہ خدمت اقدس میں حاضرہوجاؤں گا۔حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے
ہیں کہ میں یہ سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی بارگاہ اقدس میں عرض
کرکے گھرآگیا۔تلوارلی،ڈھال اُٹھائی ،جوتہ اٹھایابس یہی میراسامان
سفرتھا۔میں صبح ہونے کاانتظارکرنے لگا۔کہ صبح کے قریب کہیں چلاجاؤں گا۔یہاں
تک کہ صبح قریب ہی تھی کی ایک شخص دوڑے ہوئے میرے پاس آئے اورفرمانے لگے کہ
جلدی سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچو۔میں جب
سرکار مدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضرہواتوچاراونٹنیاں
جن پرسامان لداہواتھابیٹھی ہیں۔سرکارمدینہ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے
فرمایااے بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ!آپ کوخوشی کی بات سناؤں۔اﷲ تعالیٰ نے تیرے
قرضہ کی ادائیگی کاانتظام فرمادیاہے۔یہ اونٹنیاں بھی تیرے حوالے اوران سب
کاسامان بھی ۔یہ فَدَک کے رئیس نے میرے پاس نذرانہ بھیجاہے۔حضرت بلال رضی
اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اﷲ تعالیٰ کاشکراداکیااورخوشی خوشی ان
کولے کرگیا۔ساراقرضہ اداکرکے واپس آیا۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم مسجدمیں
انتظارفرماتے رہے۔میں نے واپسی پرآکرعرض کیایارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم !اﷲ تعالیٰ کاشکرہے حق تعالیٰ نے سارے قرضہ سے آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ
وسلم کوسبکدوش کردیااوراب کوئی چیزقرضہ کی باقی نہ رہی۔آپ صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم نے دریافت فرمایاکہ سامان میں سے بھی کچھ باقی ہے؟میں نے عرض
کیاجی ہاں یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کچھ باقی ہے۔آپ صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم نے فرمایاکہ اے بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ!اس بقیہ مال کوبھی تقسیم
کردوتاکہ مجھے راحت ہوجائے۔میں اس وقت تک گھرنہیں جاؤں گاجب تک یہ تقسیم نہ
ہوجائے۔سارادن گزرنے اورعشاء کی نمازپڑھنے کے بعدآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم
نے دریافت کیاکہ وہ بچاہوامال تقسیم ہوگیاہے یانہیں،میں نے عرض کیایارسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کچھ موجودہے ضرورت مندنہیں آئے۔توآپ صلی اﷲ علیہ
والہٖ وسلم نے مسجدہی میں آرام فرمایادوسرے دن عشاء کی نمازکے بعدآپ صلی اﷲ
علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا۔کیااب بھی کچھ باقی ہے؟میں نے عرض کیااﷲ تعالیٰ
جَلَّ شانہ نے آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کوراحت عطافرمائی کہ وہ سب نمٹ
گیا۔آپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم نے اﷲ جل جلالہ کی حمدوثناء فرمائی ۔آپ صلی
اﷲ علیہ والہٖ وسلم کویہ خوف ہواکہ خدانخواستہ موت آجائے اورکچھ حصہ مال
کاآپ صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی مِلک میں رہے اس کے بعدگھرمیں تشریف لے گئے
اوربیویوں سے ملے۔(فضائل اعمال ،حکایات صحابہ ؓ ،باب سوم،۵۲)
مختلف کتب سیرمیں منقول ہے کہ ایک روزحضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
بازارسے گزررہے تھے اوراُن کے آگے آگے حضرت سیدنا بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
چل رہے تھے اورحضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ انہیں یاسیّدی یاسیّدی کہہ
کرپکاررہے تھے۔
میں فداتجھ پہ بلالؓ کہ اذاں تیری کبھی
آسماں گرنہ سنے دن نکلتانہیں
آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی تاریخ وفات اورعمرکے بارے میں کتب سیرمیں مختلف
آراء موجودہیں۔بعض روایات میں آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کاسن وصال ۱۸ہجری درج
ہے ۔اوربعض روایات میں۲۰سن ہجری تحریرہے۔کئی روایات میں عمرمبارک۶۳سال
اورکئی روایات میں ۷۰سال موجودہے۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے شام کے شہردمشق
میں وصال پایا۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کامزاردمشق شہرکے قبرستان باب
الصغیرمیں مرجع گاہ خلائق خاص عام ہے۔حضرت سیدنابلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ
کاوصال عہدفاروقی میں ہواجس وقت حضرت عمرفاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کوآپ کے
وصال کی خبردی گئی توآپ زاروقطارروپڑے اورفرمایا’’آہ!آج ہمارے سرداربلال
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے‘‘۔آپ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے
وصال کے ساتھ ہی تاریخ اسلام کاایک درخشاں باب ختم ہوگیا۔
اﷲ پاک میری اس کاوش کواپنی بارگاہ لم یزل میں قبول فرمائے اورسیّدی ومرشدی
سیدناحضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی بارگاہ میں عاجزانہ اپیل ہے کہ میری
اس خدمت کوشرف قبولیت بخشیں اورحضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم کی
بارگاہ اقدس (یہ و ہ بارگاہ اقدس ہے جس بارگاہ میں سترہزارفرشتے صبح کو
اورسترہزارفرشتے شام کوحاضرہوکردرودسلام پیش کرتے ہیں جو فرشتہ ایک مرتبہ
آجائے دوبارہ اسے قیامت تک موقع نہیں ملتا)میں میری سفارش فرمائیں تاکہ
قیامت کے دن آقائے دوجہاں سرورکون و مکان سرورکائنات فخرموجودات محمدمصطفی
صلی اﷲ علیہ والہٖ وسلم میرے شفیع ہوں۔آمین بجاہ النبی الامین طہٰ ویٰسین
|