الحمد ﷲ کہ ہم اسلام کے ماننے والے ہیں۔ مذہب اسلام نے
اپنے پیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں زندگی گزارنے کا شعور بخشا اور بے
شمار نعمتوں سے مالا مال فرمایا۔ زندگی گزارنے کی جو بنیادی ضروریات بتائی
جاتی ہیں ان میں روٹی، کپڑا اور مکان اول درجہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسلام
نے جو احکام ہم پر عائد کئے ہیں ان میں سے پانچ اہم شعبے ہیں۔ (۱) عقائد(۲)
عبادات(۳) معاملات(۴) معاشرت (۵) اخلاق۔دین ان پانچ شعبوں سے مکمل ہوتا ہے۔
اگر ان میں سے ایک کو بھی چھوڑ دیا جائے گا تو پھر دین مکمل نہیں ہوگا۔
عقائد بھی درست ہوں، عبادات بھی صحیح طریقے سے انجام دینا چاہئے۔ لوگوں کے
ساتھ لین دین ، معاملات بھی اسلامی طریقہ یعنی شریعت (جو اسلامی قانون ہے)
کے مطابق ہونا چاہئے۔ اخلاق بھی صحیح ہونا چاہئے اور زندگی گزارنے کا طریقہ
بھی درست ہونا چاہئے،جس کو معاشرت کہا جاتاہے۔ مشہور امام نووی علیہ
الرحمتہ نے ایک باب ہی قائم فرمایا ہے۔ اس میں دین کے جس شعبے کے بارے میں
احادیث مبارکہ سے ذکر فرمایا ہے وہ ہے معاشرت۔ معاشرت کا مطلب ہے دوسروں کے
ساتھ زندگی گزارنا۔ زندگی گزارنے کے صحیح طریقے کیا ہیں؟ یعنی کھانا کس طرح
کھایا جائے ، پانی کس طرح پیا جائے؟گھر میں کس طرح رہا جائے۔ سماج میں کس
طرح رہے۔ یہ سب باتیں معاشرت سے تعلق رکھتی ہیں۔ آج کل لوگوں نے معاشرت کو
دین سے نکال دیا ہے۔ اسی وجہ کر اچھے لوگوں کی معاشرت بھی خراب ہے۔ دین کے
مطابق نہیں ہے۔ اس لئے معاشرت کے بارے میں جو احکام اور تعلیمات اﷲ اور اس
کے رسول ﷺ نے عطا فرمائی ہیں ان کو جاننا اور ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہے۔
معاشرت کے بارے میں علامہ امام نووی رحمتہ اﷲ علیہ نے پہلا باب :کھانے پینے
کے آداب سے شروع فرمایا ہے۔ آپ ﷺ نے جس طرح زندگی کے ہر شعبے میں تعلیمات
ارشاد فرمائی ہیں اسی طرح کھانے پینے کے بارے میں بھی اہم تعلیمات ہمیں عطا
فرمائی ہیں۔ پہلا ادب: بسم اﷲ پڑھنا۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی
ہیں کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی کھانا شروع کرے تو اﷲ
کا نام لے۔اور اگر کوئی شخص شروع میں بسم اﷲ پڑھنا بھول گیا تو اس کو چاہئے
کہ کھانا کھانے کے دوران جب بھی بسم اﷲ پڑھنا یاد آجائے، اس وقت یہ الفاظ
کہے: بسم اﷲ اولہ و آخرہ(اﷲ کے نام کے ساتھ شروع کرتاہوں، اول میں بھی اﷲ
کا نام اور آخر میں بھی اﷲ کا نام)ایک اور حدیث میں حضرت عمر بن ابی سلمہ
رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور ﷺ نے مجھ سے فرمایا کہ کھانے کے وقت اﷲ کا
نام لو، یعنی بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر کھانا شروع کرو اور اپنے دائیں
ہاتھ سے کھاؤ اور برتن کے اس حصے سے کھاؤ جو تم سے قریب تر ہے۔آگے ہاتھ
بڑھا کر دوسری جگہ سے مت کھاؤ ۔اس حدیث پاک میں تین آداب بیان فرمائے ہیں۔(۱)
بسم اﷲ پڑھ کر کھاؤ(۲) اپنے سامنے سے کھاؤ(۳) سیدھے ہاتھ سے کھاؤ(ابو داؤد
، کتاب الاطعمہ ، باب التسمیہ علی الطعام، حدیث نمبر ۳۷۶۷) کھانے سے پہلے
بسم اﷲ زور سے پڑھیں تاکہ دوسروں کو بھی یاد آجائے ۔کھانے کے بعد کم از کم
الحمد ﷲ ضرور کہیں یا پھر یہ دعا پڑھیں : اَلْحَمْدُلِلّٰہِ الَّذِی
اَطْعَمْنَا وَسَقَانَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمُسْلِمِیْن۔
مل کر کھانے کی فضیلت اور برکت:حضرت عبد اﷲ ابن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے
روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا اکٹھے ہو کر کھاؤ۔ الگ الگ نہ کھاؤ کہ برکت
جماعت کے ساتھ ہے۔ دوسری حدیث پاک میں آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اﷲ کو یہ بات سب
سے زیادہ پسند ہے کہ وہ اپنے کسی مومن بندہ کو بیوی اور بچوں کے ساتھ دستر
خوان پر بیٹھے اور جب سب کھاتے ہیں تو اﷲ ان کو رحمت کی نظر سے دیکھتا ہے
اور قبل الگ ہونے سے ان کو بخش دیتا ہے۔(ابن ماجہ، نزھتہ المجالس)
شیطان کے رہنے اور کھانے کا انتظام نہ کرو:کھانے سے پہلے بسم اﷲ نہ پڑھنے
سے کھانے میں بے برکتی ہوتی ہے۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ فرماتے
ہیں:ہم حضور کی بارگاہ میں حاضر تھے ،کھانا پیش کیا گیا ۔شروع میں اتنی
برکت ہم نے کسی کھانے میں نہیں دیکھی مگر اخیر میں بے برکتی دیکھی۔ ہم نے
عرض کیا یا رسول اﷲ ایسا کیوں ہوا؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ہم سب نے کھانا
کھاتے وقت بسم اﷲ پڑھی تھی،پھر ایک شخص بغیر بسم اﷲ پڑھے کھانے کو بیٹھ گیا
اس کے ساتھ شیطان نے کھانا کھا لیا۔ دوسری حدیث پاک میں حضرت جابر رضی اﷲ
عنہ سے مروی ہے۔فرماتے ہیں:حضور ﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنے گھر میں
داخل ہوتے وقت اﷲ کا نام لیتا ہے اور کھانے کے وقت بھی اﷲ کا نام لیتاہے تو
شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ اس گھر میں نہ تو تمھارے لئے رات کو رہنے
کی گنجائش ہے اور نہ ہی کھانے کے لئے گنجائش ہے۔ اس لئے کہ اس گھر میں داخل
ہوتے وقت بھی اﷲ کا نام لے لیا اور کھانا کھاتے وقت بھی اﷲ کا نام لے لیا۔
اس لئے نہ تو یہاں قیام کا انتظام ہے اور نہ طعام کا۔ اور اگر کسی شخص نے
گھر میں داخل ہوتے وقت اﷲ کانام نہیں لیا اور ایسے ہی گھر میں داخل ہوگیا
تو شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتاہے کہ لو بھائی تمہارے لئے قیام کا انتظام ہو
گیا ، تم یہاں رات گزارسکتے ہوکیونکہ یہاں پر اﷲ کانام نہیں لیا گیا اور جب
وہ شخص کھاناکھاتے وقت بھی اﷲ کا نام نہیں لیتا تواس وقت شیطان اپنے
ساتھیوں سے کہتا ہے تمہارے طعام کا بھی انتظام ہوگیا۔(ابو داؤد کتاب
الاطعمۃ،باب التسمیۃ علی الطعام ، حدیث نمبر۳۷۶۵)
کھانے میں بے برکتی:حضرت حذیفہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ کھانے
کے وقت ہم حضور ﷺ کے ساتھ حاضر تھے اتنے میں ایک نوعمر بچی بھاگتی ہوئی آئی
اور ایسا معلوم ہورہاتھا کہ وہ بھوک سے بیتا ب ہے۔ اور ابھی تک کسی نے
کھانا شروع نہیں کیا تھا۔ اس لئے کہ حضور ﷺ نے اب تک کھانا شروع نہیں
فرمایا تھا۔ مگر اس بچی نے آکر جلدی سے کھانے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو حضور ﷺ
نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو کھانے سے روک دیا۔ پھر تھوڑی دیر بعد ایک
دیہاتی آیا اور ایسا معلوم ہورہا تھا کہ وہ بھی بھوک سے بہت بیتاب ہے اور
کھانے کی طرف لپک رہا ہے ۔ اس نے بھی آکر کھانے کی طرف ہاتھ بڑھانے کا
ارادہ کیا تو حضور ﷺ نے اس کا بھی ہاتھ پکڑ لیا اور اس کو بھی کھانے سے روک
دیا۔ اس کے بعد پھر اپنے تمام صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا
:(ترجمہ)شیطان اس کھانے کو اس لئے اپنے لئے حلال کرنا چاہتا تھا کہ اس کے
کھانے پر اﷲ کا نام نہ لیا جائے ۔ چنانچہ اس نے اس لڑکی کے ذریعہ کھانا
حلال کرنا چاہا۔ مگر میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا ۔ اﷲ کی قسم شیطان کا ہاتھ
اس لڑکی کے ساتھ میرے ہاتھ میں ہے۔(صحیح مسلم، کتاب الاشربتہ،باب آداب
اطعام و اشراب و احکامہا۔ حدیث نمبر ۲۰۱۷)کھانے کے پہلے وضو کرنے سے برکت
حاصل ہوتی ہے اور محتاجی دور کرتا ہے۔حضرت عبد اﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ
عنہما سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:کھانے سے پہلے اور بعد میں وضو کرنا
محتاجی کو دور کرتا ہے اور یہ مرسلین علیہم السلام کی سنتوں میں ہے۔ حضرت
انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جو یہ پسند کرے کہ اﷲ
تعالیٰ اس کے گھر میں خیر وبرکت زیادہ کرے تو جب کھانا حاضر کیا جائے ، وضو
کرے اور جب اٹھایاجائے اس وقت بھی وضو کرے یعنی منھ دھوئے۔
پانی پینے کے آداب:حضرت انس رضی اﷲ عنہ کی روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ
حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا : پینے کی چیز کو خواہ پانی ہو یا مشروب اس کو تین
سانس میں پیا کرو ۔آپ پھر سانس لینے کی وضاحت آگے فرماتے ہیں کہ پینے کے
دوران برتن منھ سے ہٹاکر سانس لیا کرو ۔آپ نے بھی ایسا ہی کیا ہے۔ دوسری
حدیث میں حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ
حضور نے ارشاد فرمایا:پینے کی کسی بھی چیز کو اونٹ کی طرح ایک ہی مرتبہ نہ
پیا کرو یعنی ایک ہی سانس میں ایک ہی مرتبہ نہ پیا کرو۔ یعنی ایک ہی سانس
میں غٹ غٹ کرکے پورا گلاس حلق میں انڈیل دے یہ صحیح نہیں ہے۔ اور اس عمل کو
آپ نے اونٹ کے پینے سے تشبیہ دی۔ اس لئے کہ اونٹ کی عاد ت یہ ہے کہ وہ ایک
ہی مرتبہ میں سارا پانی پی جاتا ہے۔ تم اس کی طرح مت پیو۔ بلکہ جب پانی پیو
تو دو سانس میں پیو یا تین سانس میں پیو۔ او ر جب پانی پینا شروع کرو تو اﷲ
کا نام لے کر بسم اﷲ پڑھ کر شروع کرو ۔ یہ نہیں کہ محض غٹ غٹ کرکے پانی حلق
میں اتار لو۔(مسلم کتاب الا شربتہ، باب کراہتہ النفس فی نفیس الا ناء)
کھانے پینے کے آداب و احکام میں حلال کی اہمیت:اسلام میں رزق حلال کی زبر
دست تاکید آئی ہے ۔ بندے کو حلال و حرام میں تمیز کی سخت ضرورت ہے۔ حلال و
حرام کے احکام قرآن و احادیٹ میں وضاحت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں۔ قرآن و
احادیث سے یہ حکم واضح ہے کہ حرام کھانے پینے والے کی دعا قبول نہیں ہوتی ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: یَا اَ یُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْ مِنَ الطَّیِّبٰتِ
وَعْمَلُوْ صَالِحًا اِنِّیْ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلَیْمُٗ(ترجمہ: اے
پیغمبرو!پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور اچھا کام کرو ۔میں تمہارے کاموں کو جانتا
ہوں(القرآن سورہ مومنون ۲۳،آیت۵۱: کنز الایمان)
اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو طیبات کا حکم دیا ہے اور عمل صالح
اور عبادت کو اس پر موقوف فرمایا ہے ۔ کیونکہ حلال کے استعمال سے عبادات
میں ذوق پیدا ہوتا ہے اور بارگاہ خداوندی میں شرف قبولیت عطا ہوتا ہے ۔
انبیاء کرام تو معصوم ہوتے ہیں پھر بھی ان کو حلال و طیب کی تاکید کا مطلب
غالباً یہ ہے کہ عام مومنین سبق لیں۔ جب انبیا کو رب العالمین نے طیبات کا
حکم فرمایا ہے تو دیگر بندوں کے لئے اس کی قدر و اہمیت کتنی ہوگی۔ اس سے وہ
جھوٹے صوفی بھی سبق لیں جو شیطان کے بہکاوے سے اپنے کو احکام شریعت سے آزاد
سمجھتے ہیں اور جو جی میں آتا ہے کرتے ہیں اور جو چاہتے ہیں کھاتے ہیں۔ اگر
حکم شرع سنایا جائے تو جھٹ یہ کہہ دیتے ہیں کہ ہم اہلِ طریقت ہیں،یہ سب
احکام شریعت کے لئے ہیں۔ یہ شیطان کافریب اور کھلی گمراہی ، کفر سے قریب
ترہے۔ العیا ذ باﷲ تعالیٰ۔ ا س آیت کریمہ نے بتایا کہ جب انبیاء و رسل کو
حلال و طیب کے حصول اور عمل صالح کا حکم ہے تو پھر کوئی کسی بھی درجے کا
ولی ہو وہ کیسے ان شرعی احکام سے خود کو الگ قرار دے سکتا ہے۔ حضرت ابو بکر
صدیق رضی اﷲ عنہ نے کہا کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا کہ لا ید خلی الجنۃ جسد غذی
بالحرام (ترجمہ: جس بدن کو حرام غذا دی گئی وہ جنت میں داخل نہ ہوگا)
بخاری کی حدیث میں ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ
نے فرمایا کہ لوگو ں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب کوئی اس بات کی پرواہ
نہ کرے گا کہ اس نے جو مال حاصل کیا ہے ،کھایا ہے وہ حلال ہے یا
حرام۔(بخاری:۲۰۵۹،۲۰۸۳، انوار الحدیث ، کشف القلوب ،جلد۲، صفحہ ۵۵۰۔مشکوٰۃ
شریف)حضرت سہل بن عبد اﷲ تستری رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ بندہ اسی وقت
حقیقی ایمان تک رسائی حاصل کر سکتاہے جبکہ وہ پر ہیز گاری کے ساتھ حلال
کھائے۔ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمۃ اﷲ علیہ اور حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اﷲ
علیہ سے مروی ہے کہ حج کے ساتھ فضل حاصل نہیں ہوگا اور نہ ہی جہاد، روزہ
اور نماز سے فضل، نجات حاصل ہوگی بلکہ ہمارے نزدیک فضل و شرف اس سے ملے گا
جس نے چالیس روز حلال کھایا ۔ اﷲ تعالیٰ اس کا دل منور فرمادیتا ہے اور اس
کے دل سے حکمت کے چشمے جاری فرما دیتا ہے۔ دوسری حدیث پاک میں ہے حضرت جابر
رضی اﷲ عنہ حضور نبی کریم ﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں۔ ترجمہ: فرمایا رسول
اﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے کہ وہ گوشت جو حرام سے بڑھا ہو جنت میں داخل نہیں
ہوگا ۔ توہر وہ گوشت جو حرام سے بڑھا ہو جہنم کی آگ ہی اسے زیادہ لائق ہے۔
(رواۃ احمد مشکوٰۃ:صفحہ ۲۴۲)۔ دور حاضر میں قناعت (تھوڑی چیز پر راضی اور
خوش رہنا) کا جذبہ ختم ہوگیا زیادہ سے زیادہ کی ہوڑ میں حلال و حرام کی
تمیز نہ کے برابر رہ گئی ہے۔حرام کی کمائی سے بے شمار بیماریاں ،پریشانیاں
وجود میں آرہی ہیں لیکن اس جانب دھیان ہی نہیں جاتا۔حلال میں سکون و اطمنان
ہے اور بر کت بھی اﷲ کے رسول نے فرمایا کہ ’’ حلال گرچہ قلیل ہے مگر اس میں
برکت ہے‘‘ دوسری حدیث میں ہے حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص
رسول اﷲ ﷺ کی خدمت حاضر ہوکر عرض کیا کہ اگر میں فرض نماز پڑھتا رہوں اور
حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھتے ہوئے اس سے بچتا رہوں تو کیا آپ ﷺ کی
رائے میں میں جنت میں داخل ہو جاؤں گا؟ آ پ ﷺ نے فرمایا ہاں! اس شخص نے عرض
کیا اﷲ کی قسم میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کروں گا(مسلم شریف،جلد اول،حدیث
نمبر ۱۶،۱۸،باب جنت میں داخل ہونے کے باب میں) اﷲ ہم سب کو حلال کی اہمیت
اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ |