نیشنل لائف انشورنس کارپوریشن کے چیرمین کے نام ایک کھلا خط

لائف انشورنس کروانا ایک اچھا فیصلہ ہے کیونکہ جس طرح ننگے سر چلنے والا شخص گرمیوں کی دھوپ برداشت نہیں کرسکتا اور چکرا کر زمین پر گرا جاتاہے ۔ جس طرح لکھنے والا پین ، کیپ کے بغیر ناقابل استعمال ہوجاتا ہے اسی طرح انسان بھی انشورنس کے بغیر معاشی تحفظ سے باہر نکل آتاہے۔زندگی تو ویسے ہی ناپائیدار ہے ٗپیدا ہوتے ہی موت اس کے تعاقب میں لگ جاتی ہے ۔موت کا فرشتہ کب سر پر آکھڑا ہو کسی کو کچھ پتہ نہیں ۔ ان تمام حقیقتوں کے باوجود ہم انشورنس مائنڈ نہیں ہیں ۔ہم فوری فائدے کے طالبگار ہیں ۔ہم یہ نہیں سوچتے کہ بیس سال بعد جب زندگی کے آخری حصے میں ہوں گے اور کام کرنے صلاحیت بھی نہ ہونے کے برابر رہ جائے گی ۔ بیماریوں کی یلغارجسمانی اعضاکو نڈھال کردے گی ۔اس وقت سگی اولاد بھی ہاتھ پیچھے کھینچ لیتی ہے ۔مقولہ مشہور ہے کہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ۔ اسوقت چند سو روپے بھی آکسیجن کا کام دیتے ہیں ۔ پنشن کی سہولت تو صرف سرکاری ملازمین کو حاصل ہے۔ 80 فیصد عوام پنشن کے بغیر ہی زندہ رہنے پر مجبور ہیں ۔یہی وہ لمحہ ہوتاہے جب پالیسی میچور ہونے پر چار پانچ لاکھ روپے مل جاتے ہیں۔اگر خدانخواستہ پالیسی میچور ہونے سے پہلے موت واقع ہوجائے تو یہی پالیسی لواحقین کو معاشی تحفظ فراہم کرتی ہے ۔ جہاں انشورنس پالیسی کے بے پناہ فائدے ہیں وہاں ایجنٹوں کا کردار انتہائی تکلیف دہ اور ناقابل بھروسہ ہوکر رہ گیا ہے ۔ ادارہ نیا پریمیم حاصل کرنے کے لیے بے شمار ترغیبات اور انعامات کا اعلان کرتا ہے۔ انشورنس ایجنٹ جنہیں سیلز آفیسر ، ایریا منیجر ، سیلز منیجر کے ناموں سے بھی پکارا جاتاہے وہ سادہ لوح عوام کو سبز باغ دکھاکرلامحدود مالی فائدے کا لالچ دے کر پالیسی کرلیتے ہیں ۔بعدمیں سالانہ قسطوں کے پیسے( جو ہزاروں میں ہوتے ہیں) خود وصول کر کے اپنی پرنٹ شدہ رسیدیں پالیسی ہولڈر کو فراہم کرتے ہیں ۔پالیسی ہولڈر یہ سمجھتاہے کہ اس کی قسط ادارے میں جمع ہوچکی ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہوتابلکہ وہ رقم متعلقہ سیلز سٹاف اپنی جیب میں ڈال لیتا ہے ۔ بیس سال پہلے کی بات ہے ایک ایسے ہی سیلز آفیسر سے میرا واسطہ پڑا اس نے مجھے بھی شیشے میں اتارا اور میرے قریبی دوستوں اور عزیزوں سے آٹھ دس پالیسیاں وصول کرلیں ۔ایک مرتبہ سٹیٹ لائف انشورنس کے ہیڈآفس میں گیا ۔میں نے اپنے ذریعے ہونے والی پالیسیوں کا سٹیٹس نکلوایا ۔ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ہر پالیسی ہولڈر کے کھاتے سے آٹھ آٹھ ہزار روپے کی پانچ چھ قسطیں غائب ہیں۔ جب متعلقہ سیلز آفیسر سے باز پرس کی تو وہ مکان چھوڑ کر ہی رفو چکر ہو چکا تھا۔سٹیٹ لائف انشورنس کے دفتر میں شکایت کی تو وہاں کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں تھا ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ سالانہ پریمیم جمع کروانے کا طریقہ کاراس قدر تکلیف اورپریشان کن ہے کہ ہیڈآفس لٹن روڈ کے علاوہ کہیں پریمیم جمع ہی نہیں ہوسکتا ۔ جہاں صبح سے شام تک عورتیں اور مرد لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر پریمیم جمع کرواتے ہیں ہم جیسے بوڑھے لوگ تو قطار میں کھڑے ہونے کی ہمت ہی نہیں رکھتے ۔ اگر بجلی ،پانی ، گیس ، فون سمیت تمام یوٹیلٹی بلز شہر کے تمام بنکوں کی تمام برانچوں میں جمع ہوسکتے ہیں تو سالانہ پریمیم کی قسطیں کیوں جمع نہیں ہوسکتیں ۔ شوکت خانم میموریل ہسپتال ، سہارا ٹرسٹ جیسے ادارے قومی بنکوں میں کولیکشن اکاؤنٹ کھلوا کر آن لائن سارے پاکستان سے عطیات وصول کرسکتے ہیں۔پھر نیشنل لائف انشورنس کارپوریشن پالیسی ہولڈرز کا سالانہ پریمیم آسانی سے جمع کروانے کے لیے کیوں تمام قومی بنکوں میں کوالیکشن اکاؤنٹ نہیں کھلواتا۔پالیسی ہولڈرز کی رقوم سے تنخواہیں اور مراعات حاصل کرنے والوں کو خدا کا خوف کرنا چاہیئے اور پالیسی ہولڈر کے لیے آسانیاں اور زیادہ مراعات دینی چاہیئں تاکہ مزید لوگ پالیسی خریدیں ۔نہ کہ جن لوگوں نے خریدی ہے وہ بھی توبہ توبہ کرتے پھریں ۔ اگر ایسا ہوجائے تو ا س سے سٹیٹ لائف انشورنس کو بھی فائدہ ہوجائے گا اور لوگ سیلز اور مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے دھوکے بازی سے بھی بچ جائیں گے ۔میں دو سال پہلے عمرہ کے لیے ارض مقدس گیا تھا میں نے اپنے ایجنٹ کو انشورنس قسط دیکر بروقت جمع کروانے کی درخواست کی ۔ اس نے قسط بروقت جمع بھی کروا دی لیکن ادارے نے وصول شدہ رقم پالیسی میں شامل کرنے کی بجائے وہ رقم جانب واجب الادا قرض میں ڈال لیے اور مجھے اس کی کوئی تحریری اطلاع بھی نہیں دی ۔ جب میں نئی قسط جمع کروانے ہیڈ آفس پہنچا تو ریکارڈ نے دو قسطیں واجب الادا بتائیں۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ وہاں کوئی شخص کسی کی مدد کرنے کو تیار نہیں تھا ۔یہ تو اﷲ کاکرم ہوا کہ مجھے ایک اچھے افسر نعیم صاحب مل گئے جنہوں نے آدھا دن بھاگ دوڑ کرکے میری پالیسی کو اپ ٹو ڈیٹ کیا ۔وگرنہ میں پورا سال انشورنس کوریج کے بغیر ہی رہا ۔اگر خدانخواستہ اس دوران میں میری موت واقع ہوجاتی تو انشورنس کلیم یہ کہہ کر روک لیاجاتا کہ پالیسی اپ ٹو ڈیٹ نہیں ہے ۔ کیا سٹیٹ لائف انشورنس کے ویسٹرن زون کی یہ ذمہ داری نہیں تھی کہ قسط جمع نہ ہونے پر وہ متعلقہ کلائنٹ کو بذریعہ خط اور موبائل فون اطلا ع دیتے اور قسط جمع نہ کروانے کی وجہ پوچھتے ۔ افسوس تواس بات کا ہے کہ قسط جمع کروانے اورنہ کروانے والے دونوں افراد کو سال کے آخری مہینے یاددہانی کاایک خط جاری کردیاجاتاہے جس کانہ سر ہوتا ہے اور نہ پیر۔ یہ نیشنل لائف انشورنس کارپوریشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پالیسی ہولڈر ز کے مفادات کا خیال رکھے اور انہیں وقتا فوقتا پالیسی مکمل ہونے کا تحریری اطلاع نامہ بھی بھجواتے رہیں ۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784519 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.