’’صحیح معنوں میں یہ ہستی نوبل پرائز کی مستحق ہے‘‘(ڈاکٹرسر ضیاء الدین مرحوم)
(Ghulam Mustafa Rizvi, India)
(عرس اعلیٰ حضرت پر خصوصی تحریر)
|
|
شہ سرخی میں مرقوم قول کسی عام آدمی کا
نہیں جسے عقیدت کیشی سے تعبیر کیا جائے، بلکہ سائنٹفک اور واقعی بنیادوں
پرایک نکھراہوا نقطۂ نظر ہے۔ یہ قول مسلم یونی ورسٹی علی گڑھ کے وائس
چانسلر پروفیسر ڈاکٹر سر ضیاء الدین احمد مرحوم(۱۸۷۳ء۱۹۴۷-ء) کا ہے، جب وہ
ریاضی کے ایک مشکل ترین مسئلے کے حل کے لیے بارگاہِ اعلیٰ حضرت امام احمد
رضا میں حاضر ہوئے اور پیش آمدہ مسئلے کا علمی حل پایا تو بے ساختہ زباں
پریہ تاثر آیا کہ ’’صحیح معنوں میں یہ ہستی نوبل پرائز کی مستحق ہے۔‘‘ (اکرام
امام احمد رضا، مفتی برہان الحق جبل پوری،ادارۂ مسعودیہ کراچی۲۰۰۴ء، ص۶۰)
شبیر احمد غوری علی گڑھ جو ریاضی و ہیئت میں محققانہ نگاہ رکھتے ہیں، انھوں
نے اپنے ایک مقالے کا عنوان ’’اسلامی ریاضی و ہیئت کا آخری داناے راز
مولانا احمد رضاخاں‘‘ رکھا۔ موصوف امام احمد رضا کی ریاضی سے متعلق ایک
تصنیف ’’التعلیقات علی الزیج الایلخانی‘‘ (۱۳۱۱ھ) کے بارے میں اپنے تبصرے
میں لکھتے ہیں:
’’میں اس کا مطالعہ کر رہا ہوں جس سے اندازا ہوتا ہے کہ اعلیٰ حضرت کے
عقیدت مندان کی جامعیت اور فضل و کمال کی جو تعریف کرتے ہیں وہ عقیدت
مندانہ مبالغہ آرائی پر موقوف نہیں ہے بلکہ واقعہ نفس الامری ہے۔‘‘ (خیابانِ
رضا، مکتبۂ نبویہ لاہور۲۰۰۹ء، ص۲۹۸)
حقائق کی روشنی میں مطالعہ کی ضرورت:منفی پروپیگنڈے کی بنیاد پر کوئی رائے
قائم کر لینا اہلِ علم کا شیوہ نہیں۔ علم دوست افراد مطالعہ کی بنیاد پر
کسی بات کو تسلیم کرتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد تحریر فرماتے
ہیں:’’مطالعہ و مشاہدہ،نیک و بد اور خیر و شر کی پہچان کا بہترین ذریعہ ہے……پروپیگنڈے
سے کچھ وقت کے لیے خیر کو شر اور نیک کو بد بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔مگر
ہمیشہ کے لیے نہیں،مطالعہ کے بعد جب جہل و لا علمی کے پردے اُٹھتے ہیں تو
مطلع صاف نظر آنے لگتا ہے……‘‘ (آئینہ رضویات،ج۴،ادارۂ تحقیقات امام احمد
رضا، کراچی ۲۰۰۴ء، ص۹)
یہی معاملہ امام احمد رضا سے متعلق ہوا۔ حفظِ ناموسِ رسالت مآب صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ وسلم کے لیے امام احمد رضا نے تحقیقی بنیادوں پر جو کارہائے
نمایاں انجام دیے، اور گستاخانِ بارگاہ رسالت پر شرعی حکم واضح فرمایا، اس
سے خائف ہو کر مخالفین نے غیر علمی انداز اختیار کرتے ہوئے آپ سے متعلق
منفی پروپیگنڈے کا سہارا لیا، الزامات و تہمت لگائی، ایسی متعدد کتابیں خود
راقم کے مطالعہ میں آئی ہیں، حسبِ عادت جب حوالوں کا جائزہ لیاگیا اور اصل
کتابوں کا مطالعہ کیا تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ سچ ہے غلط بیانی اور
کذب سے کام لے کر جو کام کیا جاتا ہے وہ ہباءً منثوراً ہوجاتا ہے اور جب حق
و صداقت کے شفاف آئینے میں شخصیت کو دیکھا اور پرکھا جاتا ہے اور مطالعہ کی
روشنی میں سمجھا جاتا ہے تو زبان کہہ اٹھتی ہے کہ ع
خورشید علم ان کا درخشاں ہے آج بھی
مخالفت کاسبب:کئی دہائی قبل پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد نقش بندی
(م۲۰۰۸ء)نے غور وفکر کے بعد یہ نتیجہ اخذکیا تھا کہ مخالفت کیوں کی گئی؟وہ
لکھتے ہیں:
’’اصل میں بات یہ ہے کہ گزشتہ تیرہ برس میں امام احمد رضا کا شہرہ پاک و
ہند سے گزر کر دیارِ مشر ق و مغرب میں پھیل چکا ہے۔ظاہر ہے یہ بات ان حضرات
کو پسند نہیں جو امام احمد رضا کو بہ قول خود دفن کر چکے تھے اب امام احمد
رضا کے آفتاب فکرکے سامنے ان کا چراغِ فکر ٹمٹمانے لگا……‘‘ (آئینہ رضویات،ج۴،
ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا، کراچی۲۰۰۴ء،ص ۱۹)
تحقیق کا مرحلۂ شوق جاری ہے:حق بیں وحق پسند نگاہوں نے جب امام احمد رضا کی
دینی خدمات اور شرعی فیصلوں کا مطالعہ کیا تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکیں۔
سرزمینِ پٹنہ جہاں سے امام احمد رضا کو اجماعی طور پر مجدد تسلیم کیا گیا
اسی کو یہ شرف ملا کہ پہلی پی۔ ایچ۔ ڈی امام احمدرضا کی فقاہت پر پٹنہ سے
ہوئی۔ یہ آغاز تھا یونی ورسٹی میں تحقیقاتِ رضویہ پر علمی انداز میں عملی
کام کا-پھر سیلِ رواں بڑھتا رہا،ہندوپاک کی درجنوں دانش گاہوں میں متعدد
جہات سے باوقار انداز میں تحقیقی کام انجام دیے گئے، پی۔ایچ۔ڈی؛ ایم۔فل؛ ڈی
۔لیٹ؛ ایم۔ایڈ وغیرہ کے لیے مقالات لکھے گئے، کئی شائع بھی ہوئے، دائرہ
پھیلتا گیا، مصر وشام تک پہنچا، یورپ و افریقہ تک پہنچا، علم و تحقیق کا
مرحلۂ شوق بڑھتا ہی جاتا ہے، اصحابِ تحقیق نے مختلف حیثیات سے امام احمد
رضا کا مطالعہ کیا اور پھر ایسے ایسے تاثرات دیے جن کے مطالعہ سے معلوم
ہوتا ہے کہ علم و تحقیق کی کس بلندی اور فکرو خیال کی کس عظیم چوٹی پر امام
احمد رضا فائز ہیں اور مختلف النوع اعتبارات سے آپ کی تحقیقات و تدقیقات کی
کیا اہمیت وافادیت ہے۔مطالعہ وتحقیق کے متلاشیان نے جب پڑھا تو اس حقیقت کا
اظہار بھی کیا:’’ اس کا ذہن برق رفتار تھا…… اس کی آنکھ عرش نگاہ تھی…… اس
کا سینہ بحرِ ناپیدا کنار تھا…… اس کا ہاتھ صبا رفتار تھا……وہ کیا تھا؟……
وہ کون تھا؟…… اس نے کیا کیا،کِیا ع
سفینہ چاہیے اس بحرِ بے کراں کے لیے‘‘ (آئینہ رضویات،ج۴،ادارۂ تحقیقات امام
احمد رضا،کراچی۲۰۰۴ء ،ص ۷۴)
تاریخ کی اس جہت کو کیا نام دیا جائے کہ بے اعتنائی و اغماض نے کیسی کیسی
عظیم شخصیات کی خدمات کو دھندلانے کی کوشش کی۔ امام احمد رضا کی حیات میں
ان کی کتابوں کی چہار جانب اشاعت ہوتی تھی، دور ونزدیک مستفیض ہوتے تھے،بہر
کیف جمود وتعطل کا دور آیا۔ اسباب جو بھی رہے ہوں۔ نگاہیں متلاشی تھیں۔
علمی کام کا آغاز ہوا۔ اہلِ تحقیق متوجہ ہوئے-گویا دبستاں کھل گیا- بریلی
وممبئی، لاہور وکراچی، پٹنہ و دہلی، افریقہ و یورپ، شام ومصر میں علمی
انداز میں ’’رضویات‘‘ بہ حیثیت فرع علم کے مرکزِ تحقیق و محورِ نگاہ بنی۔
درجنوں کتابیں لکھی گئیں۔ سیکڑوں مقالات شائع ہوئے اور فکر ونظر کو تب وتاب
وتوانائی ملی۔ منزل بہ منزل رضویات پر کام انجام پارہے ہیں۔اشاعتی ادارے
چہار جانب رضویات پر مواد کی اشاعت کر رہے ہیں، بِلا قیمت تقسیم کا عمل بھی
جاری ہے، انھیں چاہیے کہ وہ اعلیٰ حضرت پر کتابوں کی اشاعت کے ساتھ ہی کتبِ
رضا کی اشاعت کو بھی مطمح نظر بنائیں، اس لیے کہ کسی بھی شخصیت کی اصل
تحریر کا مطالعہ اس کی خدمات کا آئینہ ہوتا ہے۔سائنٹفک طرزِ فکر نے شخصی
مطالعہ میں یہ آسانی مہیا کردی کہ اگر شخصیت کی اصل تحریر پیش کردی جائے تو
’’آفتاب آمد دلیل آفتاب‘‘ کا جلوہ سامنے آئے۔ |
|