حق تعالیٰ نافرمان بندوں سے انتقام لیتے ہیں

اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو پیدا فرمایا اور اسے طرح طرح کی نعمتوں سے نوازا صحت تندرستی، انواع و اقسام کے کھانے، پھل میوہ جات،فراخ روزی گھربار بیوی بچے وغیرہ ،غرض زندگی بسر کرنے کیلئے بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ اگر تم اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو ہرگز نہ کرسکو گے‘‘(القرآن)

لہٰذا حق تو یہ بنتا تھا کہ جس خالق و مالک حقیقی نے ا تنی نعمتوں سے نوازا ہے اسکا شکریہ ادا کیا جائے اور اسکے احکامات پر دل و جان سے عمل کیا جائے مگر عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ انسان نعمتیں تو اپنے مالک کی استعمال کرتا ہے مگر تابعداری شیطان کی کرتا ہے، اسکے حکموں پر چلتا ہے اور اسے خوش کرنے میں مصروف رہتا ہے۔

غور طلب امر یہ ہے کہ دنیا میں رحمٰن کے بندے کتنے ہیں اور شیطان کے بندے کتنے ہیں؟ مشاہدہ کی بات یہ ہے کہ شیطان کے بندوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لہٰذا جب انسان حق تعالیٰ کے حکموں سے بغاوت کرے گا اور شیطان کی اطاعت میں اپنا وقت گزارے گا تو پھرحق اس سے انتقام لے گا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور ہم نے تم کو پیدا کیاپھر تمھاری صورتیں بنائیں پھر حکم کیا فرشتوں کو کہ سجدہ کرو آدم کو پس سجدہ کیا سب نے مگر اابلیس کہ نہ تھا سجدہ کرنے والوں میں، اللہ نے فرمایا کہ تجھ کو کیا امر مانع تھا کہ تو نے سجدہ نہ کیا جب میں نے حکم دیا اس نے کہا کہ میں اس سے بہتر ہوں کہ مجھ کو بنایا تو نے آگ سے اور اس کو بنایا مٹی سے، فرمایا اللہ تعالیٰ نے تو اتر یہاں سے تو اس لائق نہیں کہ تکبّر کرے یہاں پس باہر نکل تو ذلیل ہے۔ شیطان نے کہا کہ مجھے مہلت دے اس دن تک کہ لوگ قبروں سے اٹھائے جائیں، فرمایا تجھ کو مہلت دی گئی۔ ا س نے کہا کہ جیسا تونے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی انکی تاک میں بیٹھوں گا تیری سیدہی راہ پر پھر ان پر آؤں گا انکے آگے سے اور پیچھے سے اور دائیں سے اور بائیں سے اور نہ پائے گا تو اکژ لوگوں کو شکر گزار، اللہ تعالیٰ نے فرمایا نکل یہاں سے برے حال سے مردود ہوکر جو کوئی ان میں سے تیری راہ پر چلے گا تو میں ضرور بھر دوں گا دوزخ کو تم سب سے‘‘(الااعراف:۸۱)

اس بنا پر اب شیطان و انسان کی آپس میں دشمنی ہے اس کی ہرلمحہ یہ کو شش ہوتی ہے کہ انسان کو سیدہی راہ سے بھٹکادے۔ جو شخص دین اسلام کو قبول کرنے کی کوشش کرتاہے اوراسکی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو شیطان اسکی راہ میں رکاوٹ بن جاتا ہے اور اسے اس راہ سے باز رکھنے کی پوری پوری کوشش کرتا ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ شیطان انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے اور اسکے دل میں طرح طرح سے وسوسہ اندازی کرتاہے اور اسکے ان کاموں کو جو خلاف شریعت ہوتے ہیں انھیں وہ اسکی نظروں میں صحیح کرکے دکھا دیتا ہے اور اسے اسکا احساس بھی نہیں ہونے دیتا کہ انکا انجام غلط ہے۔

سوال یہ ہے کہ جو لوگ حق تعالیٰ کے احکامات کی نا فرمانی کرتے ہیں ان سے کیسے انتقام لیا جاتا ہے ؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اور جس نے منہ پھیرا میری یاد سے تو اس کو ملنی ہے گذران تنگی کی اور لائیں گے ہم اس کو روز قیامت اندھا، وہ کہے گا اے رب کیوں اٹھا لایا تو مجھ کو اندھا اور میں تو تھا دیکھنے والا، فرمایا یونہیں پہونچی تھیں تجھ کو ہماری آیتیں پھر تونے انکو بھلادیا سو اسی طرح ہم آج تجھ کو بھلا دیں گے‘‘ (طہٰ:126)۔

مفسّرین کے مطابق ’’تنگی گذران‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ زندگی جس میں خیر داخل نہ ہو سکے گویا ایسی زندگی جو خیر کو اپنے اندر لینے سے تنگ ہو گئی اور بعض مفسّرین نے اس سے قبر کی برزخی زندگی مراد لی ہے یعنی قیامت سے پہلے اس پر سخت زندگی کا ایک دور آئے گا یعنی قبر کی زندگی بھی اس پر تنگ کر دی جائے گی اور ایک قول یہ ہے کہ اگرچہ اسکے پاس مال و دولت اور دنیاوی ساز و سامان بہت ہو گا مگر وہ سکون و اطمینان کو ترسے گا اور بیماری اور پریشانیاں اسکو گھیر لیں گی۔

بہرحال تنگی گذران میں یہ سب چیزیں داخل ہیں۔

سورۃ الحاقہ میں مجرموں کو سزا دینے کی کیفیّت بیان کی گئی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے’’ اور جس کو ملا اسکا اعمال نامہ اس کے بائیں ہاتھ میں تو وہ کہے گا کہ کاش مجھے میری کتاب دی ہی نہ جاتی اور میں جانتا ہی نہ کہ میرا حساب کیا ہے کاش کہ موت میرا کام تمام کر دیتی میرے مال نے بھی مجھے کچھ نفع نہ دیا اور میر غلبہ بھی مجھ سے جاتارہا (حکم ہوگا) اسے پکڑ لو پھر اسے طوق پہنا دو پھر اسے دوزخ میں ڈال دو پھر اسے ایسی زنجیر میں کہ جسکی پیمائش ستّر ہاتھ کی ہے جکڑدو بیشک یہ اللہ عظمت والے پر ایمان نہ لاتا تھا اور مسکین کے کھانے پر رغبت نہ دلاتا تھا پس آج اسکا نہ کوئی دوست ہے اور نہ سوائے پیپ کے اسکی کوئی غذا ہے جسے گناہگاروں کے سوا کوئی نہ کھائے گا‘‘(الحاقہ:۳۶)۔

سورۃ الرّحمٰن میں بیان کیا گیا ہے کہ’’ مجرم صر ف حلیے سے ہی پہچان لئے جائیں گے انکی پیشانیوں کے بال اور قدم پکڑ لئے جائیں گے پس تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے یہ ہے وہ جہنّم جسے مجرم جھوٹا جانتے تھے وہ اسکے اور کھولتے پانی کے درمیان چکر لگائیں گے‘‘(الرّحمن:۴۴)۔

بہرحال حق تعالیٰ کے انتقام سے ڈرنا چاہئیے اور اسکے حکموں پر عمل کرنا چاہئے کیونکہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل پیرا ہونے کی استطاعت رکھتا ہے اور پھر ایسا نہیں کرتا اور شیطان کی فرمانبرداری میں اپنا وقت گذارتا ہے تو پھر وہ سزا سے بچ نہیں سکتا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اچھے اعمال کرنے کی توفیق عطافرمائے آمین!

Muhammad Rafique Etesame
About the Author: Muhammad Rafique Etesame Read More Articles by Muhammad Rafique Etesame: 196 Articles with 320860 views
بندہ دینی اور اصلاحی موضوعات پر لکھتا ہے مقصد یہ ہے کہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کے فریضہ کی ادایئگی کیلئے ایسے اسلامی مضامین کو عام کیا جائے جو
.. View More