موجودہ عالمی حالات میں اس وقت سعودی عرب میں آنے والی
بڑی تبدیلیاں ہر فورم اور ہر جگہ موضوع بحث بنی ہوئی ہیں مکتب دیوبند سے
منسلک لوگ بھی اس حوالے سے اپنی رائے پیش کرتے نظر آتے ہیں لیکن بعض اوقات
اپنی رائے پیش کرتے وقت اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں اور شدت
پسندانہ رائے اختیار کرتے نظر آتے ہیں ان حالات میں علمائے دیوبند کا فرض
ہے کہ وہ ہر فورم پر عوام کو صحیح صورحال سے آگاہ رکھیں ورنہ قوم پہلے ہی
چھوٹے موٹے اختلافات کی بنا پر مختلف گروہوں میں بٹی ہوئی ہے اس بات میں
کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان کا ہر دیوبندی بلکہ ہر سچا مسلمان سعودی عرب
میں خانہ خدا اور رسول اللہ کے روضہ اقدس کی موجودگی کی وجہ سے سعودی
فرمانرواؤں کو ایک خاص تقدس دیتا ہے اس کا عملی مظاہرہ اپ تب دیکھتے ہیں
جب سعودی عرب کا کوئی بھی اہم سیاسی یا مذہبی عہدے دار پاکستان تشریف لاتا
ہے تو مسلمان ان پر جان تک چھڑکنے کے لئے تیار ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی کہیئے
کہ سعودی حکمرانوں کو اس عقیدت کا یا تو علم نہیں اگر علم ہے تو وہ طاقت کے
نشے میں یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ سادہ مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھیل رہے
ہیں میرا ذاتی خیال ہے کہ موجودہ دنیا میں سب سے خوش قسمت لوگ ال سعود ہیں
جن کو باری تعالی نے اپنے گھر اور اپنے حبیب کے روضہ کی رکھوالی سونپی ہے
لیکن اس سعادت سے فیض یابی کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ آپ دنیا بھر کے
مسلمانوں کے لئے شرمندگی کا باعث بن جائیں۔
آل سعودکی اسلام اور پاکستان کے خدمات سے کسی کو انکار نہیں ہے لیکن جب سے
شاہ سلمان نے جذبہ پدری سے مجبور ہو کر سعودی امور کی باگ دوڑ اپنے بیٹے
محمد کے ہاتھ میں دی ہے تب سے سعودی عرب خطرناک راستے پر چلنے کی کوشش کر
رہا ہے کون نہیں جانتا کہ امریکہ نے جس بھی ملک کے ساتھ دوستی کی اس ملک کا
بیڑا غرق کر دیا اس سے بڑھ کر یہ کہ ڈونلڈ ٹرمپ جیسا احمق شخص محمد بن
سلمان کو اپنے اشاروں پر نچا رہا ہے سعودی عرب کے ماضی کے حکمرانوں نے
امریکہ کے ساتھ تعلقات ضرور رکھے لیکن ان تعلقات میں وہ اس حد تک کبھی بھی
نہیں گئے کہ سب کچھ اٹھا کر امریکہ کی جھولی میں ڈال دیا جائے اور اس کے
اشاروں پر ناچا جائے ان حالات میں شاہ سلمان کو گیری سوچ و بچار کا مظاہر
کرنا چاہئے اور ان کے بیٹے نے سعودی عرب کو جس راستے پر ڈال دیا اس راستے
سے ہٹانے کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔
محمد بن سلمان کے گزشتہ چند دنوں کے اقدامات نے سعودی عرب کے دوستوں خاص
طور پر دنیا بھر میں بسنے والے دیوبندیوں کو پریشانی اور حیرت سے دوچار کر
دیا ہے ایک بڑی تعداد میں اپنے ہی خاندان کے لوگوں کو جھوٹے الزامات کے تحت
قید میں ڈالنا کہاں کی عقلمندی ہے شاید محمد بن سلمان کو یہ معلوم نہیں ہے
کہ جن لوگوں کو قید میں ڈالا گیا ہے ان لوگوں کی جڑیں سعودی معاشرے میں
پیوستہ ہیں ان لوگوں کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگ چاہنے والے ہیں ان
حالات میں خدانخواستہ سعودی عرب میں داخلی جنگ چھر سکتی ہے جو سب کچھ بہا
کر لے جائے گی اور اس امر کے حصول کے لئے بی بی سی اردو جیسے مفاد پرست
میڈیا نے واویلا مچانا شروع کر دیا ہے کہ جن شہزادوں کو پکڑا گیا ہے ان پر
کوئی الزام ثابت نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کا پکڑا جانا آل سعود کے داخلی
اختلافات کا شاخصانہ ہے یہ بیانیہ بی بی سی کے ذریعے پھیلایا جا رہا ہے
جیسے ہی یہ بیانیہ رسوخ کر گیا سعودی عرب میں داخلی جنگ شروع کروا دی جائے
گی اور ٹرمپ ایک طرف محمد بن سلمان تو دوسری طرف مخالفین کی مدد کر رہا ہو
گا اور درمیان میں نقصان صرف اسلام اور مسلمانوں کا ہو گا لہذا ضرورت اس
امر کی ہے کہ سعودی عرب نے بعض اقدامات سے جس خطرناک راستے کا انتخاب کیا
ہے اس راستے کے نتائج پر غور کرتے ہوئے اسی رفتار سے اس راستے سے واپسی
اختیار کرے تا کہ مسلمانوں اور اسلام کو نقصان پہنچانے کی دشمن کی سازشیں
ناکام ہو سکیں۔ |