افغان پالیسی کا ردعمل

ری پبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر منتخب ہوئے تقریباً نو ماہ ہونے والے ہیں۔ اس کی صدارت سے قبل اوربعداز کے بیانات سے یہ تاثر مل رہا تھا کہ امریکہ کی افغانستان بارے پالیسی مختلف ہوگی کیوں کہ اس نے اس بات کا کئی بار برملا اظہار کیا تھا کہ وہ مزید فوج افغانستان نہیں بھیجے گا اور موجودہ فوج کا انخلاء بھی کیا جائے گا۔ یعنی صدر بش اور بارک اوبامامہ کی طرح جارحانہ اور مکارانہ پالیسی نہیں ہوگی اور اُمید کی جارہی تھی کہ سولہ سال سے جاری بے معنی اور لاحاصل جنگ کی طوالت کو لگام مل جائے گا لیکن ماہ اگست میں نئی افغان پالیسی کوئی اور کہانی نویدسنا رہی ہے۔ٹرمپ کی ترجیحات تبدیل ہوگئی ہیں اور اب وہ یہ نہیں چاہتا کہ امریکہ اس خطے سے نکلے ۔ کیوں کہ چین اور روس کی بڑھتی ہوئی معیشت اور تزویراتی سرگرمیوں کے خلاف اس کو بھارت اور افغانستان کی اشد ضرورت ہے ۔اس کے علاوہ خود افغانستان میں موجود بیش بہا معدنیات ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ نے مزید فوجی افغانستان بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے۔نئی افغان پالیسی پر طالبان کا شدید ردعمل سامنے آرہا ہے۔جس کے اثرات ستمبر اور اکتوبر کے مہینوں میں طالبان کے تابڑ توڑ حملوں سے ظاہر ہیں۔ حال ہی میں طالبان نے صوبہ لوگر میں امریکہ کا ایک چنیوک ہیلی کاپٹر مار گرایاجس میں سوار تیراہ امریکی کمانڈوز ہلاک ہوئے جوضلع خروار میں طالبان کے خلاف کاروائی میں حصہ لے رہاتھا۔ اس واقعے کے فوراً بعد افغان طالبان اور فوج کے درمیان شدید جھڑپ ہوئی جن میں تیس افغان فوجی مارے گئے۔ پینٹاگون ذرائع نے ہیلی کاپٹر کو مار گرانے کو ’’حادثہ ‘‘ قرار دیا اور ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اس واقعے کے ذمہ دار وں کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ اس بیان سے ٹرمپ انتظامیہ کی بوکھلاہٹ صاف ظاہر ہوتی ہے۔ 19 اور 21 اکتوبر کو قندھار اور کابل میں بالترتیب دو خود کش حملے ہوئے جن میں 65 کے قریب افغان فوجی ہلاک ہوئے۔ صوبہ قندھار میں چشمہ آرمی کیمپ پر حملے میں بارود سے بھری گاڑی استعمال ہوئی جس کے نتیجے میں کیمپ کا صفایا ہوگیا۔جب کہ دارالحکومت کابل میں ایک خود کش حملہ آور نے ملٹری اکیڈمی کے گیٹ سے باہر نکلتی ہوئی بس کو نشانہ بنایا جس میں 15 کیڈٹس ہلاک ہوئے۔نیز بلخ اور فراہ کے صوبوں میں طالبان کی کاروائیوں میں متعدد پویس اہل کار بھی ہلاک ہوئے۔یاد رہے کہ جس روز پکتیا میں امریکی ڈرون حملے میں جماعت الاحرار کے سربراہ عمر خالد خراسانی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا اسی روز پکتیا اور غزنی میں طالبان کے خودکش حملوں میں صوبائی پولیس چیف طوری علی عہدیانی سمیت 71 افراد ہلاک اور 300 کے لگ بھگ زخمی ہوئے۔ پکتیا کے دارالحکومت گردیز میں پولیس ہیڈکوارٹر پر دو خود کش کار بم حملے کئے گئے جس کے بعد مسلح حملہ آورفائرنگ کرتے ہوئے ہیڈکوارٹر میں اندر داخل ہوئے اور پانچ گھنٹے جاری رہنے والی جھڑپ میں صوبائی پویس چیف سمیت 41 افراد ہلاک اور 150 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس بات میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں ہے کہ امریکہ کی نئی افغان پالیسی آنے کے بعد سے طالبان کی کاروائیوں میں حد درجہ اضافہ ہوا ہے اور طالبان کی امریکیوں اور ان کے آلہ کاروں کے خلاف کاروائیاں نئی پالیسی کا رد عمل ہیں۔طالبان کے مذکورہ حملوں کے حوالے سے ان کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حالیہ حملے امریکہ اور کابل حکومت کے لئے واضح پیغام ہیں کہ وہ اپنی نام نہاد نئی پالیسی سے ہمیں نہیں ڈراسکتے اور ہم ہر محاذ پر جیت رہے ہیں۔

طالبان کی کاروائیوں میں شدت کا اندازہ اس امر سے بخوبی ہوتا ہے کہ جب امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن مشرقی وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کے دورے میں افغانستان پہنچے تو انہوں نے دارالحکومت کابل میں راکٹ اور خودکش حملوں کے ڈر سے صدر اشرف غنی سے ملاقات بگرام بیس میں زیر زمین ایک فوجی بنکر میں کی۔یاد رہے کہ جب ماہ ستمبر میں امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس کا طیارہ کابل پہنچا تو طالبان کی جانب سے اس کے استقبال کے لئے راکٹ داغے گئے۔پس ان تمام کاروائیوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نئی پالیسی کے تحت افغانستان میں مزید امریکی فوجی بھیجنا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مزید مشکلات میں دوچار کرسکتا ہے۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 264608 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.