چھاپ تلک سب چھینی رے
مجھے سے نینا ملائی کے
نینا ملائی کے نینا ملائی کے
پیروں میں گھنگرو پہنے وہ اس گانے کی لے پر تھرک رہا تھا ۔۔۔۔۔ گرو اور اس
کے ساتھی اس کے گرد گھیرا ڈالے اسے ناچتا دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ گرو جی اور اس
کے دو خاص جھولا ٹائیپ پلنگ پر بیٹھے تھے ۔۔۔ باقی سارے نیچے بچھی سستی سی
قالین پر بیٹھے اسے گانے پر خوبصورتی سے تھرکتا دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔۔ یہ
خواجہ سراؤں کے گرو کا گھر تھا ۔۔۔۔ آس پاس جتنے گھر تھے وہ بھی سب انہی
تیسری صنف سے تعلق رکھنے والوں کے تھے ۔۔۔۔ یہ پوری گلی ہی خواجہ سراؤں کی
تھی ۔۔
واہ شیلا کیا ناچی ہے توُ ۔۔۔۔۔ کمال کردیا ۔۔۔۔
گانا ختم ہوتے ہی جیسے ہی اس کا ناچ ختم ہوا تو گرو جی بول اٹھی ۔۔۔۔
شکریہ گرو جی ۔۔۔ سب آپ ہی کا سکھایا ہوا ہے ۔۔۔۔ کریڈٹ تو آپ کو جاتا ہے
۔۔۔۔۔
وہ آہستہ سے بولا تھا ۔۔۔۔
ہاں مگر سکھایا تو میں نے ان نکمیوں کو بھی بہت کچھ ہے ۔۔۔۔
یہ کہتے ہوئے نیچے بیٹھی ریما نامی بجڑے کو ایک دھموکا دیا تھا ۔۔۔۔۔
ہائے گرو جی ۔۔۔ مرگئی میں ۔۔۔۔ اب ذرا سا ناچوں تو سانس پھولجاتی ہے میری
تو اس میں میرا کیا قصور ۔۔۔۔۔
اس لئے تو کہتی ہوں کے بھینسے کی طرح چرنا چھوڑ دے ۔۔۔۔ جُسا دیکھا ہے ۔۔۔۔
کھا کھا کر بھینس بن گئی ہے پوری کی پوری ۔۔۔
گرو جی کی بات پر سب ہی کھی کھی کرنے لگیں تھیں ۔۔۔۔ مگر شیلا سپاٹ چہرا
لئے سر جھکائے کھڑی تھی ۔۔۔۔۔
اچھا جاؤ شیلا ۔۔۔ تم تھک گئی ہوگی ۔۔۔ مگر کل اچھے سے تیار ہونا ۔۔۔۔ میں
تمہارے لئے بہت خوبصورت بوتک کا سوٹ لائی ہوں وہ پہنا ہے ۔۔۔ چودھری صاحب
کی حویلی جانا ہے یاد ہے نا ۔۔۔۔۔
جی !
وہ اتنا ہی بولا تھا اور اجازت ملتے ہی تیزی سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔۔ گرو جی
کے گھر سے نکل کر دو گھر چھوڑ کر اس کا مکان تھا جہاں وہ شبنم نامی ایک
ہجڑے کے ساتھ رہتا تھا ۔۔۔۔ جو اس کے لئے ماں بھی تھا اور باپ بھی ۔۔۔۔۔
دروازہ کھلا تھا ۔۔۔ وہ کھلے دروازے سے اندر داخل ہوا تھا تو سامنے پڑی
چارپائی پر شبنم کو تین چار تکیوں سے ٹیک لگائے حقہ پیتے دیکھا ۔۔۔۔۔۔
تم پھر شروع ہوگئے ابا ۔۔۔ ڈاکٹر نے منع کیا ہے نا تمہیں ۔۔۔۔
وہ نکڑ والا ڈاکٹر ۔۔۔۔ جالی ہے سالا ۔۔۔۔۔ تم اس کی باتوں میں آگئیں ۔۔۔۔۔
وہ کھوُ کھوُ کرتے ہوئے بولی تھی ۔۔۔
کھانسی تمہاری رک نہیں رہی اور جو تمہارے حقے کے خلاف بولے تم اسے اپنا
دشمن سمجھ لیتے ہو ۔۔۔۔۔
تمہیں کبھی کچھ بولا ہے ۔۔۔ تم سے زیادہ تو کوئی پیچھے نہیں پڑا میرے حقے
کے ۔۔۔۔
پھر بھی کمبخت منہ کو ایسی لگی ہے کہ چھوٹتی ہی نہیں ۔۔۔ ایسی ہی بات ہے نا
۔۔۔۔
وہ شبنم کو چھیڑتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔ اور شبنم نے اس کی بات کے جواب میں
برا سا منہ بنا یا تھا ۔۔۔۔۔ اور پھر دوبارہ سے حقہ گُڑ گڑانے لگا ۔۔۔۔۔۔
وہ اسے وہیں صحن میں چھوڑ کر اندر اپنے کمرے میں آگیا اور ڈریسنگ ٹیبل جس
پر پرفیومز کی دو تین بوٹلز اور خواتین کے میک اپ کا سامان قرینے سے رکھا
ہوا تھا ۔۔۔ اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا تھا اور خود کو آئینے میں دیکھنے
لگا ۔۔۔۔۔ سرخ لپسٹک سے لتھڑے ہونٹ ۔۔۔۔ اور کاجل سے مزین بڑی بڑی نیلی
آنکھیں ۔۔۔ اور خوبصورت نین نقش ۔۔۔۔ وہ چپ چاپ خود کو دیکھتا رہا زنانہ
کپڑوں میں وہ بالکل عورت لگ رہا تھا ۔۔۔۔ پھر آہستہ سے سر پر پہنی وک اتاری
تھی اس نے ۔۔۔۔۔ اور پھر چپ چاپ کمرے سے ملحق باتھروم میں گھس گیا ۔۔۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ غسلخانے سے باہر نکلا تو میک اپ سے عاری چہرہ اب ایک
نوجوان مرد کا چہرہ لگ رہا تھا اس نے الماری سے مردانی کرتا شلوار نکالا
تھا اور پھر تھوڑی ہی دیر میں مردانہ لباس پہن کر وہ ایک مکمل مرد د لگ رہا
تھا ۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں وہ اپنے پلنگ پر اپنے کورس سے متعلق درسی کتاب
کھولے اس کا مطالعہ کرنے لگا تھا ۔۔۔۔ کچھ دنوں بعد اس کے سمسٹرز اسٹارٹ
ہونے والے تھے ۔۔۔۔ وہ ذہین تھا اور شبنم کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر
ایک اچھا انسان بنے ۔۔۔۔ اور گرو جی کو بھی کوئی اعتراض نہیں تھا وہ خود
بھی ایم اے پاس تھی ۔۔۔۔۔
××××××××××××××××××××××××
سر ابرار جب کلاس روم میں داخل ہوئے تو سارے لڑکے لڑکیوں کو آپس میں چٹ چاٹ
شورو غل کرتے پایا ۔۔۔۔ سوائے اس کے ۔۔۔۔ وہ سر جھکائے بیٹھا بزنس اینڈ
مینیجمنٹ کی کتاب کھولے اسے پڑھنے میں محو تھا ہمیشہ کی طرح ۔۔۔۔وہ کلاس کا
سب سے ذہین اسٹوڈنٹ تھا ۔۔۔۔ اور تمام اساتذہ کا پسندیدہ اسٹوڈنٹ بھی۔۔۔۔۔
کورس سے ریلیٹڈ گفتگو ہو یا جرنل نولیج سے ریلیٹڈ ادبی گفتگو وہ ہر موضوع
پر با آسانی بات کر لیتا تھا ۔۔۔ بس صرف کلاس کی حد تک ورنہ اسے انہوں نے
کسی دوسری قسم کی ایکٹیویٹیز میں دلچسپی لیتے نہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔
میں نے جو ایک ہفتہ پہلے اسائینمنٹ دیا تھا آج اسے سبمٹ کرانے کی آخری ڈیٹ
ہے ۔۔۔۔ پلیز اپنے اپنے اسائینمنٹس نکال لیں ۔۔۔۔۔
یہ کہہ کر پھر وہ باری باری سب کے پاس آکر اسائینمنٹس کلیکٹ کرنے لگے ۔۔۔۔
جب اس کے قریب پہنچے تو اس نے بھی ایک خوبصورت سی فائیل انکی طرف بڑھا دی
۔۔۔۔ سب کو پتا تھا کہ اس کا اسائینمنٹ اس بار بھی بازی لے جائے گا ۔۔۔۔
×××××××××××××××××××
اکسکیوزمی سر !
وہ جو کلاس سے نکل کر اسٹاف روم کی طرف قدم بڑھا چکے تھے ۔۔۔ اس آواز پر رک
کر پلٹ کر دیکھا تھا ۔۔۔۔
یس !
سر میں کل یونیورسٹی نہیں آسکونگا ۔۔۔۔ میرے بابا کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے
۔۔۔۔
وہ ان کی طرف چھٹی کی درخواست والا لفافہ بڑھاتے ہوئے بولا تھا ۔۔۔۔۔
یہ آپ آفس میں جمع کرادیں ۔۔۔۔ اللہ آپ کے والد کو صحت دے آمین ۔۔۔
یہ کہہ کر وہ آگے بڑھ گئے تھے ۔۔۔
××××××××××××××××
ارے واہ ۔۔۔۔ آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں بھئی ۔۔۔۔۔۔
ابراہیم انہیں اپنی حویلی کے اندر داخل ہوتے دیکھ کر چہکے تھے ۔۔۔۔
اس خوشی کے موقع پر تو آنا ہی تھا ۔۔۔۔۔ ویسے بہت مبارک ہو تمہیں ۔۔۔۔
ارے خیر مبارک بھئی آؤ تمہیں ابا جی سے ملاؤں ۔۔۔ وہ تو بڑے خوش ہوجائینگے
۔۔۔۔۔
ہاں یہ بتاؤ چاچا کی طبیعت کیسی ہے ۔۔۔۔۔۔
آج کل تو بالکل چنگی ہوگئی ہے پوتے کی خوشی میں ۔۔۔۔۔
وہ سن کر مسکرا دئے تھے ۔۔۔۔۔ بولے کچھ نہیں ۔۔۔ ابراہیم ان کے چچا زاد
بھائی تھے ۔۔۔۔ چاچا دلاور کی طرح جاہلانہ روایات کو سینے سے لگائے ہوئے
تھے ۔۔۔۔۔ تین بیٹیوں کے بعد اللہ نے انہیں اولادِ نرینہ سے نوازا تھا
۔۔۔۔۔ اور ان کی کزن پر بس سوت آتے آتے رہ گئی تھی ۔۔۔۔۔ ورنہ چچی نے تو
ابراہیم کے لئے خاندان سے باہر لڑکی تلاش کرنا بھی شروع کردی تھی ۔۔۔۔۔
××××××××××××××××××××
کھانا لگنے سے پہلے سارے مرد خواص بیٹھک میں جمع ہوچکے تھے ۔۔۔۔۔ اور اب
خواص مجرا شروع ہونے والا تھا ۔۔۔۔۔ مگر پروفیسر ابرار کہاں ان چیزوں کو
پسند کرتے تھے ۔۔۔۔ لیکن ابراہیم کی بضد اسرار پر وہ بھی ناچار بڑی بیٹھک
میںآخری نشست پر آکر بیٹھ گئے تھے ۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ ٹولا اندر داخل
ہوا تھا ان کے آنے پر عجیب عجیب فقرے کسنے اور سیٹیاں لوگوں نے مارنی شروع
کردی تھیں ۔۔۔۔۔ وہ سر جھکائے بےزار سے بیٹھے تھے ۔۔۔۔۔ اب بے ہودہ گانے کی
آواز بڑے بڑے اسپیکرز پر گونجنے لگی اور ساتھ میں بے ہودہ فقرے بازی میں
بھی شدت آگئی تھی ۔۔۔۔۔ اچانک ان میں سے جو سب سے کم عمر اور حسین خواجہ
سرا تھا وہ ناچتے ہوئے آخری نشستوں کی طرف آگیا تھا ۔۔۔۔ انہوں نے اسی وقت
نگاہ اٹھائی تھی اور اسے بڑی ناپسندیدہ نظروں سے گھورا تھا ۔۔۔۔۔۔ پھر ایک
دم چونکے تھے ۔۔۔۔ وہ بھی انہیں دیکھ کر ٹھٹک کر وہیں رک گیا تھا ۔۔۔۔
شہباز !
انہوں نے اس کا نام حیرت سے لیا تھا ۔۔۔ اپنا نام سن کر شہباز نے ایک نظر
انہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔ شرمندگی ، کرب ناجانے کیا کیا تھا اس کی نیلی آنکھوں
میں اس وقت ۔۔۔۔ وہ تیزی سے بھاگتے ہوئے باہر نکل گیا تھا بیٹھک سے ۔۔۔۔۔
اور وہ وہیں بیٹھے رہ گئے تھے ۔۔۔۔
×××××××××××××××××××××
میں کیا ہوں ؟ کون ہوں ؟ کہنے کو تو انسان ہوں مگر ایک ادھورا انسان جس کے
پیدا ہوتے ہی اس کے ماں باپ نے اسے خواجہ سراؤں کے حوالے کردیا ۔۔۔۔ میں نے
کبھی اپنے والدین کی شکل ہی نہیں دیکھی ۔۔۔۔ اور انہوں نے بھی پلٹ کر میری
خبر تک نہ لی ۔۔۔۔۔ جیسے میں گھر کا کوڑا تھا اور انہوں نے اپنے گھر کی گند
اٹھا کر باہر پھینک دی تھی ۔۔۔۔ اور اپنے گھر کو پاک کر لیا تھا ۔۔۔۔ میں
شہباز خان عرف شیلا ایک ہونہار اور زہین مورت ایک ہیجڑا ۔۔۔۔ جس کی دنیا
شبنم نامی خواجہ سرا سے شروع ہو کر اسی پر ختم ہوتی تھی ۔۔۔۔۔ جو اس کی ماں
اس کا باپ دونوں کا کردار بڑی خوبی سے اب تک نباہ تا چلا آرہا ہے ۔۔۔۔۔ میں
ذہین تھا شروع سے بابا نے میری ذہانت کو دیکھتے ہوئے مجھے اسکول میں داخل
کروادیا مگر میری شناخت چھپا کر ۔۔۔۔ شیلا سے میں شہباز خان بن گیا ۔۔۔۔
اسکول سے کالج تک گرو جی اور بابا نے میری تعلیمی اخراجات اٹھائے ۔۔۔ پھر
میں بھی کام کرنے لگا ٹیوشن کے ساتھ ساتھ ایک خواجہ سرا کا کردار بھی نباہ
نے لگا ۔۔۔۔ ٹیوشن سے ایم بی اے اور دیگر سرٹیفائیڈ کورسز کے اخراجات کہاں
پورے ہوسکتے تھے ۔۔۔۔۔ میں بھی بحالتِ مجبوری دیگر خواجہ سراؤں کی طرح
محفلوں میں جانے لگا ۔۔۔۔ اور ان نام نہاد شرفاء میں میری شہرت ہوگئی ۔۔۔
ہر کوئی میری ڈمانڈ کرنے لگا ۔۔۔ شروع میں مجھے اچھا نہیں لگتا تھا مگر پھر
میں ان سب کا عادی ہوتا گیا ۔۔۔۔ اسکول کالج اور پھر یونیورسٹی تک میں نے
کسی کو اپنے قریب تک نیں آنے دیا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ میں ظاہری طور پر ایک خوبصورت
شخصیت کا مالک تھا ۔۔۔ لڑکیاں میری سحر انگیز شخصیت پر مرتی تھیں اور لڑکے
میری ذہانت کی وجہ اور میرے شاندار اکیڈمک کرئیر کی بدولت مجھ سے دوستی کے
خواہش مند ہوجاتے تھے ۔۔۔۔ مگر میرا سرد روئیہ انہیں میری جانب آنے ہی نہیں
دیتا تھا ۔۔ ہنہ ۔۔۔ وہ مجھے مغرور سمجھتے تھے ۔۔۔ مگر اگر وہ میری اصلیت
جان جاتے تب شاید مجھے منہ لگانا بھی پسند نہ کرتے ۔۔۔۔ کاش اب بھی میری
اصل حقیقت سب سے یونہی چھپی رہتی کاش سر مجھے اس طرح نہ دیکھ تے ۔۔۔ کتنی
حیرت تھی ان کی آنکھوں میں ۔۔۔ اب سب کو پتا چل جائے گا ۔۔۔ میرا کرئیر
شروع ہونے سے پہلے ہی تباہ ہوگیا ۔۔۔ کاش ایسا نہ ہوتا ۔۔۔ اور یہ سلسلہ
یونہی چلتا رہتا ۔۔۔ کاش ! کاش! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ یہ سب سوچے جارہا تھا ۔۔۔ اور بے آواز روئے چلا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔
××××××××××××××××××
جاری ہے ِِِِِِِِِِِِ۔۔۔۔۔۔۔۔
|