مسلمان جب بادشاہت کے راستے پر چل نکلے تو ان میں بہت سی
خرابیاں پیدا ہو گئیں جو انہیں دین اسلام سے دورلے گئیں ۔ پھر ایک وقت ایسا
آیا کہ مسلمان حکمرانوں نے دین اسلام کی سرپرستی چھوڑ دی ۔ جب مسلمان
حکمرانوں نے اسلام کی سرپرستی چھوڑی تو پھر اسلام کا بیڑا افراد نے اٹھا
لیا اور یہیں سے بگاڑ پیدا ہوا۔ جس کو جو ٹھیک لگا اس نے وہی اپنا لیا ۔جس
کے پاس دین کی جتنی سمجھ بوجھ تھی اس نے اسی کو کافی جانا ۔اجتہاداور اجماع
کا سلسلہ رک گیا اور تقلید کے رجحان نے جنم لیا ۔مسلمانوں نے انفرادی طور
پر دین اسلام سے متعلق غیر سند یافتہ اقوال و افعال کی بلا تحقیق پیروی
شروع کر دی ۔ ہر کسی نے یہی سمجھ لیا کہ اسی کا عقیدہ درست ہے اور وہی
سیدھے راستے پر ہے ۔
اسلامی ریاستیں آج بھی اس حقیقت کو سمجھ نہیں پا رہیں کہ ''مذہب ریاست کا
معاملہ ہے۔ یہ کسی فرد یا گروہ کا ذاتی معاملہ نہیں ''اسکی سرپرستی
اورترویج کی ذمہ داری ریاست پر عائد ہوتی ہے ۔جہاں ریاست اس ذمہ داری سے
پہلو تہی کرتی ہے وہاں افراد اسکا ٹھیکہ اٹھا لیتے ہیں پھر جس کو جو ٹھیک
لگتا ہے وہ اسے ہی دین سمجھ کر اپنا لیتا ہے ۔
ریاست پاکستان میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ ملک حاصل کیا اسلام کے نام پر۔
کلمے کو بنیاداور قرآن و سنت کو دستور قرار دیا ۔لوگوں کو خواب دکھایا ایک
اسلامی فلاحی ریاست کا ، نعرے لگائے نفاذ شریعت محمدی ﷺکے اور جب اﷲ پاک نے
یہ ملک عطا کر دیا تو اسلام کو سرکاری مذہب اور نام اسلامی جمہوریہ پاکستان
رکھ کر ہم سمجھے کہ اسلام کا حق ادا ہوگیااور باقی اسلام کو افراد کے رحم و
کرم پر چھوڑ دیا نتیجہ یہ نکلا کہ فرقہ بندی کو بڑھاوا ملا اور گروہی
اختلافات شدید تر ہوئے ۔ جب فرقوں اور گروہوں کی سربراہی متشدداور انتہا
پسند نظریات رکھنے والے افراد کے ہاتھ میں آئی تو عدم برداشت عام اور
رواداری ناپید ہو گئی ۔ جلتی پر تیل کا کام کلاشنکوف کلچر نے کیا اور اسطرح
مذہب کے نام پر قتل عام کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو ایک عرصہ تک تھم نہ سکا۔
اسلام لہو لہان ہوتا رہا اور حکومتیں تماشائی بنی رہیں ۔
جب تک فائدہ نظر آیا کشمیر ، فلسطین اور افغانستان میں لڑائی کو جہاد قرار
دیتے رہے ۔اغیار کی آشیرباد اور خوشنودی کیلئے عام آدمی کو جہاد کا درس دیا
، مجاہد بنائے انہیں لڑنا سکھایا اور انکے ہاتھ میں بندوق تھمادی ۔ اقتدار
کی جنگ کو عام آدمی کے ذہن میں اﷲ کے راستے میں جہاد بنا کر پیش کیا اور جب
اس عام آدمی نے ہمارے پڑھائے ہوئے سبق کو اپنی زندگی کا نظریہ بنا لیا اور
ایک عرصہ تک وہ اپنے آپ کو مجاہد اور اس لڑائی کو جہاد سمجھتا رہاتو ہم نے
ہاتھ کھینچ لیا اور اسے نیا سبق پڑھانا شروع کر دیا کہ جہاد کا اعلان صرف
ریاست کرسکتی ہے کوئی فرد نہیں۔ ہم کیا سمجھتے ہیں جن لوگوں نے ہمارے
پڑھائے ہوئے پہلے سبق کو اپنی زندگی کا نصب العین بنایا انکی ذہنی کیفیت اس
وقت کیا ہوگی ، کیا وہ یہ نہیں سوچ رہے ہونگے کہ جو ہم نے انہیں پہلے
پڑھایا وہ صحیح تھا یا جو ہم انہیں اب پڑھا رہے ہیں وہ درست ہے ؟کیا آج وہ
ذہنی خلفشار کا شکار نہیں ہونگے یہ سوچ کر کہ جس راستے پر چلتے ہوئے انہوں
نے اپنے پورے کے پورے خاندان کٹوا دیئے آج انہیں بتایا جا رہا ہے کہ وہ
راستہ غلط ہے ؟ اور کیا ایسی صورت حال میں انکا اپنی بندوق کا رخ ہماری طرف
کرنا درست نہیں ؟ہم نے اسلام کے حوالے سے pick and chooseکیا۔ پہلی قوموں
کی طرح ۔ جو ٹھیک لگا، جس میں فائدہ نظر آیا اسے اپنا لیا اور جس میں نقصان
دیکھا اسے رد کردیا ۔
آج اگر ہمیں انتہا پسندی، مذہبی منافرت، دینی خلفشار اور انتشار کا سامنا
ہے تو اسکی وجہ یہی ہے کہ ریاست نے کبھی دین کی سرپرستی کی ذمہ داری ادا
نہیں کی ۔ سرکاری طور پر دین اسلام کے نفاذ اور اصولوں کو رائج کرنے کیلئے
کوئی نظام نہیں بنایا۔ اسلامی ضابطہ کار کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے
کیلئے کوئی بندوبست نہیں کیا۔ مسلمانوں کے اندر مذہب کو لیکر جو بے چینی
پائی جاتی ہے اسکی طرف توجہ نہیں دی ۔ آج ہمارے نوجوان بچے بچیاں داعش جیسی
تنظیموں کیلئے آسان شکار کیوں ہیں ؟اسلیئے کہ ریاست انکے ذہن میں اسلام کا
اصل تشخص نقش کرنے میں ناکام رہی ہے ۔ ایک عام مسلمان کو اسلام کے بارے میں
واضح رہنمائی ہی نہیں مل پاتی ۔ اگر اسے کوئی دینی مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو
وہ امام مسجد کے پاس جاتا ہے جو اسے ایک رائے دیتا ہے ۔ اس آدمی کی تشفی
نہیں ہوتی وہ ایک دوسرے عالم کے پاس جاتا ہے وہ اسے پہلے سے مختلف بات بیان
کرتا ہے ۔ وہ تیسرے کے پاس جاتا ہے توتیسرا نوے ڈگری الگ بات کرتا ہے وہ
آدمی کنفیوز ہوجاتا ہے اور تینوں کو برا بھلا کہہ کر جو اسے ٹھیک لگتا ہے
وہ کرتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ مولویوں نے اسلام کا بیڑا غرق کر دیا ہے ۔
قصور مولویوں کا نہیں ، قصور تو ریاست کا ہے جس نے ہر کسی کو اس بات کی
آزادی دے رکھی ہے کہ اسلام کی جو مرضی تشریح کرتا پھرے ۔جس کا جی چاہے مزار
بنا کر بیٹھ جائے ، جو چاہے گدی نشین کہلائے ۔ کتنے واقعات ہو چکے ہیں جس
میں جعلی پیروں نے کم علم و عقل خواتین مریدوں کے ساتھ زیادتی کی اور کتنوں
کی جان لی۔کیا ریاست نے اس ضمن میں کوئی بھی قانون سازی کی ، کیا ریاست نے
سرکاری طور پر کوئی ایسا نظام بنایا جو معصوم لوگوں کو مذہب کے نام پر
لوٹنے والے جعلسازوں سے تحفظ فراہم کر سکے ؟صرف مزاروں اور مسجدوں کو محکمہ
اوقاف کے ماتحت کر دینا کافی ہے ؟
اسلامی نظریاتی کونسل بنا کر اسے صرف یہ کام سونپا کہ یہ دیکھے کہ کوئی
قانون قرآن و سنت کے منافی تو نہیں ۔ اسے یہ ذمہ داری کیوں نہ سونپی گئی کہ
وہ ہر شعبہ زندگی میں اسلام کے بنیادی اصولوں کے نفاذ کیلئے تجاویز دے ؟
کونسل کے ممبران اور دیگر علمائے کرام کے اوپرسرکاری طور پر یہ ذمہ داری
کیوں نہ عائد کی گئی کہ وہ قرآن و سنت کے احکامات کی جدید دنیا کے تقاضوں
کے تناظر میں وضاحت کریں؟اسلام ایک dynamicمذہب ہے اور قرآن کریم روز قیامت
تک سرچشمہ ہدایت ۔ سمجھ بوجھ اور تحقیقی نکتہ نظر سے کہیں اختلاف رائے
ہوسکتا ہے لیکن بنیادی بات تو ایک ہی ہونی چاہیے ۔اگر ہر اختلاف رائے رکھنے
والا یہ چاہے گا کہ اسکی بات کو درست مانا جائے اور اسی پر لوگ عمل کریں تو
بات کہاں جائے گی ؟
اگر ہم مزید انتشار اور خلفشار سے بچنا چاہتے ہیں تو ریاست پاکستان کو اپنی
ذمہ داری کا احساس کرنا ہوگا ۔ حکمرانوں کومذہب کی سرپرستی کا بیڑا اٹھانا
ہوگاکیونکہ مذہب ریاست کا معاملہ ہے یہ کسی فرد کا ذاتی معاملہ
نہیں۔حکمرانوں کے مذہب کی سرپرستی سے مراد وہ اقدامات اور بندوبست ہیں جو
دین اسلام کے اصولوں کی پیروی کیلئے ضروری ہیں ۔ میں مسلمانوں کے مذہبی
جذبات سے کھیلنے والے ان کھوکھلے نفاذ شریعت محمدی ﷺ کے نعروں کی بات نہیں
کر رہا جو لوگوں کو جہاد کیلئے اکسانے یا ووٹ حاصل کرنے کیلئے لگائے جاتے
رہے بلکہ سرکاری طور پر ان عملی اقدامات کی بات کر رہا ہوں جو اسلامی
اصولوں کو جدید دنیا کے تقاضوں کے مطابق ڈھال کراسلام کا اصل چہرہ دنیا کے
سامنے لاسکیں تاکہ پاکستان اور اسلام کے دشمنوں کو یہ موقع نہ ملے کہ وہ
ہمارے باہمی مذہبی اختلافات کو ہمارے خلاف استعمال کر سکیں۔اسی میں ہماری
بقاء ہے ۔
|