اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے قیامت کے نشانات
بتلاتے ہوئے فرمایا کہ : ’اونٹوں اور بکریوں کے چرواہے جو برہنہ بدن اور
ننگے پاؤں ہونگے وہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے لمبی لمبی عمارتیں
بنوائیں گے اور فخر کریں گے ‘ ۔۔۔(صحیح مسلم )
آج ریاض شہر میں عمارتوں کا یہ مقابلہ اپنے عروج پر پہنچ گیا، دبئی میں برج
خلیفہ کی عمارت دنیا کی سب سے اونچی عمارت بن گئی تو ساتھ ہی شہزادہ ولید
بن طلال نے جدہ میں اس سے بھی بڑی عمارت بنانے کا اعلان کر دیا ہے جو دھڑا
دھڑ بنتی چلی جا رہی ہے، عرب کی عمارتیں سارے جہان سے اونچی ہو چکی ہیں
۔۔۔! نبی معظم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے جو فرمایا وہ پورا ہو
چکا ہے اور پیشگوئی پوری ہو کر اپنے نکتا کمال کو پہنچ چکی ہے! عرب کا سب
سے زیادہ تیل خریداری کرنے والے امریکہ نے صدام کو ختم کر کے تیل کی دولت
سے سیراب ملک عراق کے کنوؤں پر قبضہ جما لیا ہے اور لاکھوں بیرل مفت وصول
کر رہا ہے تو پھر تیل کی بڑھتی مانگ نے تیل کی قیمتوں کو نچلی سطح پر پہنچا
دیا،جس سے عرب ممالک کا سنہرا دور خاتمے کے قریب ہے ، سوال پیدا ہوتا ہے اس
زوال کے بعد کیا ہے ۔۔۔؟
اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم کی ایک اور حدیث ہے کہ ’قیامت سے پہلے
سرزمینِ عرب دوبارہ سرسبز ہو جائیگی‘۔ سعودی عرب اور امارات میں بارشیں
شروع ہو چکی ہیں،مکہ اور جدہ میں سیلاب آ چکے ہیں،عرب سرزمین جسے پہلے ہی
جدید ٹیکنالوجی کو کام میں لا کر سرسبز بنانے کی کوشش کی گئی ہے ،وہ قدرتی
موسم کی وجہ سے بھی سرسبز بننے جا رہی ہے۔ سعودی عرب گندم میں پہلے ہی
خودکفیل ہو چکا ہے، اب وہاں خشک پہاڑوں پر بارشوں کی وجہ سے سبزہ اگنا شروع
ہو چکا ہے،پہاڑ سرسبز ہونا شروع ہو گئے ہیں،بارشوں کی وجہ سے آخرکار حکومت
کو ڈیم بنانا ہوں گے،جس سے پانی کی نہریں نکلیں گی،ہریالی ہو گی، سبزہ مزید
ہو گا، فصلیں لہلہائیں گی، یوں یہ پیشگوئی بھی اپنے تکمیلی مراحل سے گزرنے
جا رہی ہے اور جو میرے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے فرمایا اسے ہم اپنی
آنکھوں سے دیکھتے جا رہے ہیں ۔۔۔!
اگر احادیث پر غور کریں تو مشرقِ وسطی کے زوال کا آغاز ملکِ شام سے شروع
ہوا لیکن شاید عرب حکمران یا تو یہود و نصاریٰ کی چال سمجھ نہ سکے یا بے
رخی اختیار کی لیکن وجہ جو بھی ہو یا نہ ہو،سرکارِ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم
کی بتائی ہوئی علامات کو تو ظاہر ہونا ہی ہیں۔ایک اور مقام پر رسول اﷲ صلی
اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے فرمایا ’جب اہل شام تباہی و بربادی کا شکار ہو
جائیں تو پھر تم میں کوئی خیر باقی نہ رہے گی‘۔۔۔ احادیثِ مبارکہ کی رُو سے
شام و اہل شام سے اُمت ِمسلمہ کا مستقبل وابستہ ہے، اگر ملک شام ایسے ہی
برباد ہو تا رہا تو پوری امت مسلمہ کی بھی خیر نہیں، ویسے تو 90فیصد برباد
ہو چکا۔۔۔اب پانچ سالہ خونریزی میں 8لاکھ بیگناہ بچے، بوڑھے، عورتیں شہید
اور لاتعداد دوسرے ملک کی سرحدوں پر زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے شہید ہو رہے
ہیں اور اتنی ہی تعداد میں زخمی یا معذور ہو چکے،لہٰذا شام مکمل تباہی کے
بعد اب نزع کی حالت میں ہے۔ اس حدیث کے حساب سے عرب ممالک کے سنہرے دور کے
خاتمہ کی اہم وجہ ملک ِ شام کے موجودہ حالات ہیں،نبی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ
وسلم کی ایک اور پیشگوئی کی علامت ظاہر ہو رہی ہے یا ہوچکی ہے کہ ملکِ شام
کے متعلق اِسرائیل، روس و امریکہ جو بھی جھوٹے بہانے بنائے،لیکن ان سب کا
اصل ہدف جزیر العرب ہے کیونکہ کفار کا عقیدہ ہے کہ دجال مسیحا ہے اس وجہ سے
یہ لوگ دجال کے اِنتظامات مکمل کر رہے ہیں جس کے لیے عرب ممالک میں عدمِ
اِستحکام پیدا کرنا ہے کیونکہ حضرت مہدی علیہِ السلام کے ظہور سے قبل یہود
و نصاریٰ ملکِ شام پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ ہو کر رہے گا۔
آخری زمانے میں جب مسلمان ہر طرف سے مغلوب ہوجائیں گے، مسلسل جنگیں ہوں گی،
شام میں بھی عیسائیوں کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ علماء کرام بتاتے ہیں کہ
سعودیہ،مصر، ترکی بہ باقی نہ رہے گا، ہر جگہ کفار کے مظالم بڑھ جائیں گے،
امت آپسی خانہ جنگی کا شکار رہے گی، عرب (خلیجی ممالک سعودی عرب وغیرہ)میں
بھی مسلمانوں کی باقاعدہ پرشوکت حکومت نہیں رہے گی، خیبر/الخبر (سعودی عرب
کا چھوٹا شہر مدینہ منورہ سے 170کلو میٹر کے فاصلے پر ہے)کے قریب تک یہود و
نصاری پہنچ جائیں گے اور اس جگہ تک ان کی حکومت قائم ہوجائے گی، بچے کھچے
مسلمان مدینہ منورہ پہنچ جائیں گے، اس وقت حضرت امام مہدی علیہِ السلام
مدینہ منورہ میں ہوں گے۔ دوسری طرف دریائے طبریہ بھی تیزی سے خشک ہو رہا ہے
جو کہ مہدی علیہِ السلام کے ظہور سے قبل خشک ہوگا۔مشرقِ وسطی کے حالات کو
خصوصاً مسلمانوں اور ساری دنیا کے حالات کو دیکھتے ہوئے صاف نظر آتا ہے کہ
دنیا ہولناکیوں کی جانب بڑھ رہی ہے، فرانس میں حملوں کے بعد فرانس اور پوپ
بھی عالمی جنگ کی بات کر چکے ہیں،سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس عالمی جنگ کا
مرکز کون سا خطہ ہو گا۔۔۔؟ واضح نظر آ رہا ہے، مشرقِ وسطی ہی متوقع ہے ،
یہاں بھی ہند وستان اور پاکستان کی بڑھتی رنجشیں اور کشمکش سے لگتا ہے کہ
حالات غزوہ ہند کی طرف رخ کر رہے ہیں کیونکہ حضرت ابو ہریرہ رضِی اﷲ تعالیٰ
عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے ارشاد فرمایا ’میری
قوم کا ایک لشکر وقت ِآخر کے نزدیک ہند پر چڑھائی کرے گا اور اﷲ اس لشکر کو
فتح نصیب کرے گا، یہاں تک کہ وہ ہند کے حکمرانوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر
لائیں گے، اﷲ اس لشکر کے تمام گناہ معاف کر دے گا، پھر وہ لشکر واپس رخ کرے
گا اور شام میں موجود عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے ساتھ جا کر مل جائے
گا‘۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ’اگر میں اس وقت تک زندہ
رہا تو میں اپنا سب کچھ بیچ کر بھی اس لشکر کا حصہ بنوں گااور پھر جب اﷲ
ہمیں فتح نصیب کرے گا تو میں (ابوہریرہ)جہنم کی آگ سے آزاد کہلاوں گا، پھر
جب میں شام پہنچوں گاتو عیسیٰ ابن مریم علیہِ السلام کو تلاش کر کے انہیں
بتاؤں گا کہ میں محمد صلی اﷲ علیہِ و سلم کا ساتھی رہا ہوں ‘۔رسول پاک صلی
اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے تبسم فرماتے ہوئے ارشاد کیا ’بہت مشکل،بہت مشکل‘۔
آنے والے ادوار بڑے پرفِتن نظر آتے ہیں اور اس کے متعلق بھی نبی کریم صلی
اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے فرمایا تھا کہ ’میری امت پر ایک دور ایسے آئے گا جس
میں فِتنے اتنی تیزی سے آئیں گے جیسے تسبیح ٹوٹ جانے سے تسبیح کے دانے تیزی
سے زمین کی طرف آتے ہیں‘۔ لہٰذا اپنی نسلوں کی ابھی سے تربیت اور ایمان کی
فِکر فرمایئے،موبائل ے بیجا استعمال سے،دیر رات تک جاگنے، فیشن اور یہودی
انداز اپنانے سے، نمازوں کو ترک کرنے سے روکیے ... ورنہ آزمائش کا مقابلہ
دشوار ہو گا !۔۔۔اب تو موبائل فون ، انٹر نیٹ اور جدید ٹیکنالوجی نے حالات
اس حد تک تبدیل کر دئیے ہیں کہ ہمارے بچپن میں جب اذان ہوتی تھی تو ٹی وی
بند کروا دیا جاتا تھا، گھر میں بڑے چھوٹے انتہائی تعظیم اور یک سوئی سے
اذان سنتے تھے، عورتیں، بچیاں اذان کی آواز کے ساتھ ہی فوراً اپنے سروں کو
ڈھانپ لیتی تھیں ،پھر وقت آیا جب اذان کے وقت ٹی وی بند کرنے کی روایت ختم
ہوئی اور بس ٹی وی کی آواز بند کرنے پر اکتفا کیا گیا، وقت گزر گیا اور آج
اذان بھی ہو رہی ہوتی ہے اور سٹار پلس بھی چل رہا ہوتا ہے، اب مسلمانوں کے
ساتھ دنیا بھر میں جو ہو رہا ہے وہ ہمارے اپنے ہی اعمال کا شاخسانہ ہے جس
کی سزا ہم بھگت رہے ہیں بلکہ بھگتیں گے۔ امام احمد بن حنبل کے پڑوس میں ایک
لوہار رہتا تھا جب وہ فوت ہوا تو ایک محدث نے اُن کو خواب میں دیکھا کہ
اُنھیں امام احمد بن حنبل کے برابر کا درجہ ملا ہے، وہ محدث بڑا حیران ہوا،
اُس نے اُس شخص کے گھر جا کر اُس کی بیوی سے پوچھا کہ بی بی وہ کیا عمل تھا
جس نے ایک عام آدمی کو امام احمد بن حنبل کے برابر کا درجہ دے دیا ہے، اُس
کی بیوی نے بتایا کہ میرے نزدیک میرے شوہر کے دو نمایاں عمل جو میں نے
محسوس کیے جب اذان کیلئے ’اﷲ ُاکبر‘ کی آواز آتی اگر لوہے پر ضرب مارنے
کیلئے کبھی اُن کا ہاتھ اوپر ہوتا تو وہیں رُک جاتے، وضو کرتے، نماز پڑھنے
چلے جاتے، دوسری بات پڑوس میں امام احمد بن حنبل رہتے تھے جو ساری ساری رات
قرآن مجید کی تلاوت کرتے، میرے شوہر حسرت سے اُن کی طرف دیکھتے اور ٹھنڈی
آہ بھرتے اور اﷲ سے دُعا کرتے کہ اے میرے رب میں بے حد غریب انسان ہوں، آپ
سے میرا کچھ چھپا نہیں اگر میری کمر ہلکی ہوتی تو میں بھی ساری رات امام
صاحب کی طرح قرآن پڑھتا، کبھی کبھی میرے شوہر دعا کرتے کرتے رونے لگ جاتے۔
اس محدث نے کہا کہ اذان کے ادب اور نیکی کی تڑپ کی وجہ سے اﷲ پاک نے ایک
غریب لوہار کو امام احمد بن حنبل کے برابر درجہ دیا ہے۔۔۔ افسوس آج کے دور
میں یہ سب کچھ ہم سے جاتا ہوا نظر آرہا ہے اور اس مادیت پرستی کے پرفتن دور
میں ہم اپنی روایات سے دور ہوتے چلے جارہے ہیں جس کی وجہ سے تباہی ہمارے
لیے یقینی بن چکی ہے۔
|