لاہور باغوں اور پھولوں کے حوالے سے مشہور چلا آرہا ہے
گزشتہ سال سے سموگ کی ایک وسیع چادر لاہورکی فضامیں چھائی نظر آتی ہے جس کی
موجودگی میں دیکھنے کی صلاحیت سو میٹر بھی نہیں رہ گئی ۔ جبکہ سموگی فضامیں
سانس لینا اور آنکھوں کو کھلا رکھنا ناممکن ہوچکا ہے ۔ شہریوں نے اپنے طور
پر آپریشن ماسک اور رومال سے چہرے ڈھانپ لیے ہیں کچھ لوگ یہ زحمت بھی گوارا
نہیں کرتے اور موذی بیماریوں کی گرفت میں آجاتے ہیں۔اس سے پہلے کہ ہم
حکومتی اور انتظامی اداروں کی نااہلی اور غیر ذمہ داری کی بات کریں ۔بحیثیت
انسان اور پاکستانی ہمیں اپنے گریبان میں ضرور جھانکنا چاہیئے کیونکہ ایک
انفرادی فعل جب اجتماعی بن جاتاہے تو ایسے سانحات یقینا رونماہوتے ہیں ۔
قرآن پاک کے سپارہ 25 سورہ الدخان کی آیت نمبر 9 اور 10 کا ترجمہ ہے" اس دن
کا انتظار کرو جب آسمان ایک ظاہر دھواں لائے گا ٗ جو لوگوں کو ڈھانپ لے گا
۔ حقیقت میں یہ درد ناک عذاب ہے ۔اس دن کہیں گے اے ہمارے رب ہم پر سے عذاب
ہٹا دے ۔ ہم ایمان لاتے ہیں "- حضرت موسی علیہ السلام کی زندگی کاہی یہ
واقعہ ہے کہ جب چشموں اور دریاؤں کا پانی خون بن گیا تھا ۔ وہی پانی جب
حضرت موسی علیہ السلام پیتے یاان کی قوم کاکوئی فرد پیتا تو وہ پانی ہوتا
لیکن جب فرعون یا اس کا کوئی حواری پانی پیتا تو وہی پانی خون کی شکل
اختیار کرلیتا ۔ ایسے معجزے یقینا قوم پر عذاب کی شکل میں وارد ہوتے ہیں ۔
نبی کریم ﷺ کی دعا سے گناہوں کی انتہاء کے باوجود ہم پر نہ تو عذاب نازل
ہوسکتاہے اور نہ ہی ہماری شکلیں تبدیل ہوسکتی ہیں کیونکہ اﷲ تعالی نے یہ
وعدہ ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ سے کررکھا ہے ۔مجھے یہ کہنے میں عار محسوس
نہیں ہوتی کہ وہ کونسا گناہ ہے جو ہم سے سرزد نہیں ہوا۔ جن باتوں سے نبی
کریم ﷺ نے مسلمانوں کو سختی سے منع کیا تھا وہی حرکتیں ہماری زندگی کا مکمل
حصہ بن چکی ہیں۔ زنا ٗشراب ٗ کم تولنا ٗملاوٹ ٗ جھوٹ ا ٗ دھوکہ فریب اور
قتل و غارت ٗ رشوت ٗ کرپشن ٗ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنا ٗ نماز نہ
پڑھنا ٗ زکوہ نہ دینا ٗ اپنے مفاد کے لیے دوسروں کے حقوق کا خیال نہ رکھنا۔
یہ تمام گناہ پاکستانی معاشرے کا حصہ مستقل حصہ بن چکے ہیں ۔ اﷲ اگر پیغمبر(
حضرت یونس علیہ ا لسلام ) کو آزمائش میں ڈال سکتا ہے تو ہم جیسے گناہگار
لوگوں کو کیوں نہیں ۔ بے شک اﷲ جو چاہتا ہے وہ ہوجاتاہے ۔ اگر ہم چاہتے ہیں
۔سموگ جیسے عذاب سے نجات ملے تو ہمیں اﷲ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی
مانگنی ہوگی ۔ میں اس بات کو مانتا ہوں کہ اس میں انتظامی کوتاہیاں بھی
شامل ہیں۔ پرانی فصلوں کو جلانا ٗ پیٹرول کی آلودگی ٗ فیکٹریوں کارخانوں ٗ
سٹیل ملوں اور اینٹوں کے بھٹوں سے نکلنے والے دھواں اور گیسیں بھی فضائی
آلودگی کا باعث بنتی ہیں یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ لاہور پنجاب
کادارالحکومت ہے صفائی نہ ہونے کے برابر ہے ۔جگہ جگہ کوڑا بکھرا دکھائی
دیتا ہے ۔ کوڑا بکھیرنے اور جگہ جگہ احتجاجی جلوس نکال کر پرانے ٹائروں کو
آگ لگانے میں ہم جیسے شہری بھی کسی سے پیچھے نہیں ۔ ایک اور اندازے کے
مطابق لاہور میں پچاس لاکھ سگریٹ نوش ہیں جو سرے عام سگریٹ کے کش لگا کر
دھویں کے مرغولے بناتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ۔ پچاس لاکھ افراد جب اکٹھے
ہوئے دھواں نکالیں گے تو اینٹوں کے بھٹے سے بھی زیادہ دھواں ان کی وجہ سے
پیدا ہوگا ۔ میں والٹن کنٹونمنٹ بورڈ کے علاقے میں رہتا ہوں۔جہاں وائس
چیرمین چوہدری سجاد احمدکی تمام تر کوششوں کے باوجود کنٹونمنٹ کا علاقہ
صفائی کے اعتبار سے مثالی نہیں بنا۔جگہ جگہ کوڑے ڈھیر دکھائی دیتے ہیں ۔یہی
حال میٹروپولیٹن کارپوریشن کا ہے ۔جہاں ایک منظور نظر شخص کو نوازے کے لیے
لارڈ میئر تو بنادیاگیا ہے لیکن شہرکوصاف ستھرا اور روشن رکھنے میں لارڈ
میئر کی کوئی دلچسپی نہیں ۔ پنجاب یونیورسٹی کے کالج آف ماحولیات کے پرنسپل
ڈاکٹر ساجد رشید کے مطابق اس سموگ سے گلے ٗ سانس ٗ جلد ٗدل اور آنکھوں کی
بیماریوں تیز ی پھیل رہی ہیں ۔ ان کے مطابق سموگ سے نجات کے لیے حکومت کو
کھیتوں میں آگ اور سڑکوں پر اور اسٹیل ملوں میں پرانے ٹائر جلانے پر پابندی
لگائے ۔کوئی بھی گاڑی اس وقت تک سڑک پر نہ آئے جب تک ف اس کے پاس فٹنس
سرٹیفیکٹ نہ ہو ۔ مزیدبرآں زیادہ سے زیادہ درخت اور پھول دار پودے شاہراہوں
ٗ گھروں کے اندر اور باہر لگائے جائیں ۔ فیکٹریوں ٗ بھٹوں ٗ سٹیل ملوں کو
پابندکیاجائے کہ وہ ٹریٹ کے بغیر اپنے پیداکردہ دھویں کوفضامیں نہ چھوڑے ۔
بہرکیف اس لمحے جبکہ لاہور کے رہنے والے سموگ کی وجہ سے سخت پریشان ہیں ٗ
حکومت اورانتظامی اداروں کی کارکردگی مکمل طور پر صفر دکھائی دیتی ہے ۔سیدھی
سی بات ہے کہ سیاسی بنیادوں پر اہم عہدوں پر فائز ہونے والے من پسند افراد
کبھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس نہیں کرتے ۔عدالت میں اس حوالے سے سماعت
جاری ہے دیکھیں انتظامی ادارے کیا جواب دیتے ہیں اور شہریوں کو بچانے کے
لیے کیا حکمت عملی اختیار کرتے ہیں لیکن شہریوں کو چاہیئے کہ وہ اﷲ تعالی
سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے ساتھ ساتھ ہر چھوٹا بڑا شخص اپنے حصے کا
ایک درخت لگائے اور پھول دار پودے گھر کے اندر یاباہر لگانا کبھی نہ بھولیں
۔یہ درخت انسانوں کی بے مثال خدمت کرتے ہیں ۔صبح آکسیجن چھوڑتے ہیں ٗ دن
بھر آلودگی کم کرتے ہیں اور گرمیوں میں سایہ فراہم کرتے ہیں حکومت وقت کو
چاہیے کہ ہر یونین کونسل میں کم ازکم ایک چھوٹا بڑا پارک بنائے جہاں لوگ
سیرکے لیے جایا کریں ۔یہ وہ طریقے ہیں جن سے عذاب الہی سے بچتے ہوئے ٗسموگ
جیسی صورت حال سے بچاجاسکتا ہے اور انسانی صحت بھی قابل رشک ہوسکتی ہے ۔
|