سیاسی عیاشیاں

دنیا کے بیشتر ممالک میں اہل اقتدار کی ظالم اقلیت عوام کی مظلوم اکثریت پر حاوی ہے۔ جس سیاست دان کو بھی دیکھو وہ مصالحت یا مفاد کی رسی سے بندھا نظر آتا ہے۔ سیاست داں ایک ایسا شخص ہے جو الیکشن سے پہلے آپ کے ہم قدم ہوتا ہے، الیکشن کے بعد آپ سے کئی قدم آگے نکل جاتا ہے۔سیاست داں کے ساتھ مصیبت یہ ہے کہ وہ ریٹائرڈ کبھی نہیں ہوتا ۔ موت کے بعد مجبوراً سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلیتا ہے۔ شادی کے لئے بہترین عمر جوانی ہے۔ سیاست کے لئے بہترین عمر بڑہاپا۔ شادی کرنے کے بعد آٹے دال کے بھاؤ مہنگے معلوم ہونے لگتے ہیں۔ سیاست کرنے کے بعد یہ چیزیں سستی معلوم ہونے لگتی ہیں۔
علم حیاتیات اور علم طبیعات خواہ سائنسی علوم ہوں یا نہ ہوں مگر سیاسیات ایک سائنسی علم ہے۔ یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ جھوٹ بولنا اور دھوکہ دینا اگر سائنٹیفک ہنر ہے تو سیاست واقعی سائنس ہے۔ سیاست اور جھوٹ کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن یہ نہیں پتہ کہ ان میں سے چولی کون ہے اور دامن کیا؟ کیا عجب کہ آئندہ سیاست داں یہ کہتا نظر آئے کہ:۔
’’مجھے ایوارڈ دیا جاتے۔ میں نے اس سال کوئی جھوٹ نہیں بولا‘‘
شاہ احمد نورانی مرحوم و مغفور کا نام سن کر ’’سیاست دان‘‘ یاد نہیں آتا ’’پان دان‘‘ یاد آتا ہے۔ مگر یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ عمران خان کا نام سن کر سیاست یاد آتی ہے یا کرکٹ؟ بہر حال وہ سیاست کے میدان میں بھی باؤنسر مارنے کی فکر میں رہتے ہیں۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ نواب زادہ نصر اﷲ خاں حقے کی وجہ سے مشہور ہوئے یا حقہ نواب زادہ کی وجہ سے مشہور ہوا۔ مرحوم سیاست نما حقہ پیتے تھے اور حقہ آمیز سیاست کرتے تھے۔سیاست کے کئی گھمبیر مسائل انہوں نے حقے کی غرغراہٹ کی بدولت حل کر دئیے۔
یہاں یہ سوال بھی بڑا اہم ہے کہ پرویز مشرف سیاست کی وجہ سے بد نام ہوئے یا فوج پرویز مشرف کی وجہ سے بد نام ہوئی؟بہر حال وہ فوجی بادشاہ ہیں جنہوں نے ایوب خاں، یحیی خاں اور ضیاالحق کی روایات کو زندہ رکھا۔لوگ کہتے ہیں کہ وہ شروع سے ایک سمجھ دار آدمی ہیں۔ بچپن میں ان کی عمر طفلانہ تھی مگر سوچ بالغانہ۔
پاکستان میں مفلسی صرف عوام کے لئے ہے لیڈروں کے لئے نہیں۔ممکن ہے سو سال بعد مورخ پاکستان کی تاریخ مرتب کرے تو لکھے:
’’ایک ملک میں اس قدر غربت پھیلی کہ تمام بینک دیوالیہ ہوگئے۔ تمام پبلک خود کشی پر آمادہ ہوگئی اور تمام سیاست دان کروڑ پتی بن گئے‘‘
جناب تشنہ بہ لب ہمارے ایک ’’نادان‘‘ دوست ہیں جو سیکنڈ ہینڈ تجربوں پر زندگی گزار رہے ہیں۔ان کی عمر بہت زیادہ ہے کیونکہ وہ کافی مدت سے زندہ ہیں۔ حیرت اس بات پر ہے کہ ان کے باپ بھی ابھی زندہ ہیں۔ ان کی شخصیت کی تمام خوبیاں ان کی اپنی ہیں۔ خامیاں اپنی نہیں دوسروں سے مستعار لی ہوئی ہیں۔ جناب تشنہ بہ لب کا مشغلہ بلکہ کہنا چاہئیے کم زوری سیاست ہے۔ وہ ایک سیاسی کنبے سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے خاندان کا ہر تیسرا آدمی سیاست کرتا ہے ،پہلے اور دوسرے آدمی کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں۔ جب بھی جناب تشنہ بہ لب کے دوست سیاسی بحث جاری کرلیتے ہیں، وہ سیاست کو اپنے اوپر طاری کرلیتے ہیں۔راز کو پردہ اخفا میں رکھنے کے اس قدر عادی ہیں کہ اپنے دل کی بات دوسروں سے تو کیا اپنے آپ سے بھی کہتے ہوئے ڈرتے ہیں۔جب بھی کوئی بزرگ منش انہیں سمجھاتے کہ دیکھو دنیا والوں کے الزامات سے ڈرو۔ زندگی چند روزہ ہے۔ اسے تہمتوں کی آلودگی میں ملوث نہ کرو۔ وہ سرجھکائے قالین پر بنے نقش و نگار دیکھتے رہتے ، پھر سر اٹھا کے اور نظر گھما کے جواب دیتے ’’اہل دنیا کی تہمت کیا معنی؟ زندگی خود ایک بڑی تہمت ہے‘‘ جناب تشنہ بہ لب نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ہے مگر اس سے دست بردار نہیں ہوئے۔ کہتے ہیں طلاق دے دی تو کیا ہوا وہ میری بیوی تو ہے’’موجودہ‘‘ نہ سہی ’’سابقہ‘‘ سہی۔
ایک دن ہم نے جناب تشنہ بہ لب سے کہا:
’’ہمیں تو کوئی سیاست داں مخلص اور با صلاحیت نظر نہیں آتا۔ کسی کا کردار بے داغ نہیں تو کسی کی عقل بے دماغ ہے۔ اب انہیں کو دیکھئے جو پچھلے سال الیکشن میں کھڑے ہوئے تھے اور آپ کی تمام صلاحیتیں اور عدم صلاحیتیں ان کے ساتھ تھیں۔ اپنی کڑاک جوانی اور ہٹ دھرم بے ایمانی کے زور پر انہوں نے الیکشن جیت لیا‘‘
جناب تشنہ بہ لب نے ایک طویل اور شاندار جمائی لی، پھر گویا ہوئے’’سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کے سوال کا کیا جواب تخلیق کروں؟‘‘
’’یعنی کیا جھوٹ بولوں؟ یہی نا‘‘
’’یہ بات غلط ہے کہ انہوں نے انتخابات میں غلط ہتھکنڈے استعمال کئے۔ دشمنوں کی اڑائی ہوئی ہے۔ انہوں نے اوچھے طریقے سے نہیں بلکہ اچھے طریقے سے الیکشن جیتا‘‘
’’بہر حال آپ اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ ان کے مخالف امیدوار نے دیانت داری اور وقار کا دامن نہیں چھوڑا۔ گو الیکشن ہار گئے مگر بہت با عزت طریقے سے ہارے‘‘
جناب تشنہ بہ لب کی تیز رو آنکھوں نے خوب صورت فریم کے چشمے کے پیچھے سے ہمیں دیکھا اور بولے ’’کیا الیکشن بغیر پیسے کے لڑا جاسکتا ہے؟ پھر انہوں نے خزانے کا منہ کھول دیا تو کون سا جرم کیا؟‘‘
’’آپ پہلے یہ بتائیں کہ ہمارے ملک میں الیکشن بے معنی ہوکر نہیں رہ گیا؟ کیا الیکشن پر سے لوگوں کا اعتبار نہیں اٹھ رہا؟‘‘
ہم دونوں نے ایک دوسرے کے سوال کا جواب دینا چاہا مگر جیسے کسی نے منہ پر قفل لگادیا ہو۔ الفاط گلے سے نکل کر ہونٹوں تک آئے مگر پھر معدوم ہوگئے چنانچہ ہم نے ان کے سوال کا جواب آنکھوں سے دیا اور انہوں نے ہمارے سوال کا جواب خاموشی سے۔
صاحب، سیاست تو ایک فلسفہ ہے، ایک نظریاتی علم ہے، ایک فکر ہے ، یقین محکم کی دہلیز ہے۔ایک قومی لائحہ عمل کا نام ہے۔ تپتی دھوپ میں پیڑ کی چھاؤں ہے، نسیم سحر کا ایک جھونکا ہے۔ سیاست وہ نہیں جو ہمارے سیاست داں کررہے ہیں۔ اپنے اور اپنے اہل خاندان کے نام پلاٹ اور جائیدادیں الاٹ کرالینا، پرمٹ بنوالینا، بینک سے قرضہ لینا اور معاف کرالینا۔ کیا یہی سب سیاست ہے؟ اگر کوئی ہم سے پوچھے ہمارے سیاست داں کیا کرتے ہیں تو ہم صاف کہیں گے ’’سیاسی عیاشیاں‘‘

Akhlaq Ahmed Khan
About the Author: Akhlaq Ahmed Khan Read More Articles by Akhlaq Ahmed Khan: 11 Articles with 10476 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.