آن لائن ٹیکسی بمقابلہ پیلی ٹیکسی

تقیریباََ دو ماہ پہلے کی بات ہے بے نظیر بھٹو ہسپتال جانا پڑ گیا ،آٹھ نو دن وہاں گزرے روزانہ مہمانوں کی آمدورفت ہوتی تھی جب کسی نے واپس جانا ہوتا تو عید کے دن تھے اس لیے ٹیکسی یا رکشہ بک کر کے واپس جاتے ، اگلے دن پیر ودھائی سے مہمان آگئے واپسی پہ باہر جا کر ٹیکسی والے سے بات کی تو اس نے250 روپے کرایہ بتایا میرے جیسے متوسط طبقے کے فرد کے لیے کافی زیادہ تھا سو رکشے والے سے بات کی اس نے 170 روپے بتائے اور 150 روپے میں جانے پر راضی ہو گیا ،

اس کے دو دن بعد پھر ضرورت پڑی تو سوچا کیوں نہ اوبر والوں کو کال کروں ان سے 140 روپے پر بات کنفرم ہوئی تھوڑی دیر بعد ہنڈا سٹی گاڑی آگئی وہاں سے اندازہ ہوا کہ پیلی ٹیکسی اور آن لائن ٹیکسی کے ریٹ میں کتنا فرق ہے گاڑی کا فرق اس کے علاوہ ہے ۔ نو دن بعد ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے تو بہارہ کہو جانے کے لیے کریم والوں کا ریٹ چیک کیا 320 روپے کرایہ لکھا ہوا آیا لیکن اس وقت گاڑی دستیاب نہیں تھی اور ہمیں ایمرجنسی تھی سوچا کوئی ٹیکسی والا سو روپے زیادہ لے گا کسی سے بات کروں دو تین بندوں سے بات کی جانے کے لیے راضی ہی نہیں ہوئے پھر ایک ڈرایؤر سے بات ہوئی تو اس نے 750 روپے کرایہ بتایا اور بہت مشکل سے 700 پر راضی ہوا مجبوری تھی کڑوا گھونٹ پی کر اسی کے ساتھ آگئے۔

یہ سب لکھنے کی ضرورت اس لیے پڑی کہ اس وقت تادم تحریر اسلام آباد میں ٹیکسی یونین والوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرہ کیا جا رہا ہے جس میں ان کا بڑا مطالبہ یہی ہے کہ اوبر اور کریم کو بند کیا جائے اور پرایؤیٹ ٹیکسی ڈرائیورز کا معاشی قتل بند کیا جائے ،ان سے اظہار یکجہتی کے لیے تاجر اتحاد پاکستان کے صدر جناب کاشف چوہدری صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے جنہوں نے ان کے مطالبات کی حمایت کی مجھے ان کے مطالبات اور اظہار یکجہتی پر حیرت اس لیے ہوئی کہ محترم کاشف چوہدری صاحب کا تعلق جماعت اسلامی سے بھی ہے بقول ان کے یہ اصولوں کی سیاست کرتے ہیں اورمیرے خیال میں یہ اظہار یکجہتی سوائے سیاسی پوائینٹ سکورنگ کے اور کچھ نہیں تھا۔

کیا کبھی انہوں نے ٹیکسی یونین والوں سے سوال کرنے کی کوشش کی کہ جو لوگ آپ کے ساتھ سفر کرتے ہیں وہ بھی غریب اور مجبور ہوتے ہیں ان کا معاشی قتل کیوں کرتے ہیں آپ لوگ ؟ ان کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ کیوں اٹھاتے ہیں؟ اگر کسی نے ابپارہ سے میلوڈی جانا ہو تو ٹیکسی والے 50 روپے لے لیتے ہیں اگر ساتھ ہی پولی کلینک جانا ہو تو 150 سے شروع کر کے بہت کم 100 پر راضی ہوتے ہیں کیوں کہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ یہ بندہ مجبور ہے،

اسی طرح رات کے وقت بس اڈوں اور ہسپتالوں کے باہر کھڑے ٹیکسی ڈرائیوروں کے ریٹ اور روڈ پر کھڑے ٹیکسی ڈریؤروں کے ریٹ میں اتنا فرق کیوں ہوتا ہے صرف اس لیے کہ ان کو پتا ہے کہ بس اڈوں اور ہسپتالوں میں لوگ مجبوری سے اسی ٹیکسی پر ہی بیٹھتے ہیں جو سامنے نظر آجائے ۔ کیا یہ مجبور لوگوں کے ساتھ ظلم نہیں ؟کیا یہ غریبوں کا معاشی قتل نہیں ہے؟ اسی طرح عام دنوں میں آپ فیض آباد سے چاندنی چوک جایءں تو ٹیکسی ڈرایؤر 150 سے 200 روپے تک لیتے ہیں جب سٹاپ پر رش ہو ،ہڑتال ہو ، گرمی تیز ہو یا پھر بارش ہو رہی ہو تو یہی ریٹ بڑھ کر 300 سے 350 تک کیسے پہنچ جاتے ہیں-

کیا ان حالات میں پٹرول زیادہ خرچ ہوتا ہے؟ بلکہ ایسے حالات میں تو ریٹ اور بھی کم ہونا چاہیے کیوں کہ کام زیادہ ہونے کی وجہ سے سیل بھی زیادہ ہوتی ہے لیکن عوام کی مجبوریوں سے کھیلنا ان لوگوں کا وطیرہ ہے ان میں چند ایک ٹھیک بھی ہیں لیکن اکثریت انہی لوگوں کی ہے جن کا ذکر میں نے کیا ہے، اب اوبر اور کریم آئی تو ان کو تکلیف اس لیے ہوئی ہے کہ ان کی اجارہ داری ختم ہو رہی ہے اور عقل تھوڑی سی ٹھکانے آ گئی ہے ،جدید دور کی سہولیات سے فائدہ اٹھانا ہر کسی کا حق ہے پہلے بازار جاؤ ٹیکسی ڈھونڈو گھنٹہ اس کے ساتھ بحث کرو اب اتنا ٹائم بھی کسی کے پاس نہیں گھر بیٹھ کر آن لائن بکنگ کرواؤ ٹیکسی
والا ٹائم بتاتا ہے اور گیٹ سے سامان رکھ کر بندہ اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے ،

اگر عوام کو ایک سہولت مل رہی ہے تو بجائے احتجاج کرنے کے یہی سہولت غریب ٹیکسی ڈرائیور بھی حاصل کر سکتے ہیں پہلے ان کے پاس یہ بہانہ تھا کہ کریم اور اوبر والے مہنگی گاڑیوں کی فرمائش کرتے ہیں لیکن اب تو وہ مہران گاڑی کو بھی رجسٹر کرتے ہیں بس گاڑی کی حالت تھوڑی بہتر ہونی چاہیے ان غریب ٹیکسی ڈرایؤروں نے تو گاڑیوں میں ایل۔سی۔ڈی تک لگائی ہوئی ہیں تو اے ۔سی اور ہیٹر بھی چالو کروا سکتے ہیں اب پرانے ٹیکسی ڈرائیوکو چاہیے کہ وہ بھی موبائیل کا استعمال سیکھیں اپنے رویے تبدیل کریں اور آن لائن ٹیکسی سروس کے ساتھ لگ جایءں کسی کا چولہا ٹھندا نہیں ہو گا،

پہلے پہل گاڑیاں نہیں ہوتی تھیں لوگ خچر اور گدھے پر سفر کرتے تھے گاڑیاں آئی تو کیا ان لوگوں کو احتجاج شروع کر دینا چاہیے تھا کہ ہمارا معاشی قتل ہو رہا ہے؟ باقی رزق دینے والی ذات اللہ کی ہے جو آپ کے نصیب میں ہے آپ کو ضرور ملے گا بس اپنے اندر تھوڑی سی تبدیلی لائیں اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں صرف اپنے معاشی حالات کو دیکھنے کے بجائے دوسروں کے معاشی حالات کی بھی فکر کریں لوگوں کی مجبوریوں کا ناجائز فائدہ مت اٹھایءں پھر
دیکھیں اللہ کیسے روزی میں برکت ڈالتا ہے

Shahid Mehmood
About the Author: Shahid Mehmood Read More Articles by Shahid Mehmood: 23 Articles with 20997 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.