چار دن پہاڑ پر گزار کر میں گھر واپس آ رہا تھا۔پہاڑ سے
اترا تو اسلام آباد سے گزرتا موٹر وے پر ایک سو بیس کی سپیڈپر گھر کی طرف
رواں دواں رہا تھا۔ شہر میں داخل ہوا توشام ڈھل چکی تھی اور پوری طرح
اندھیرہ چھا چکا تھا۔مگر ذہن ابھی تک پہاڑوں سے نیچے اترنے پر تیار نہیں
تھا۔ اندھیرے میں یوں لگتا تھا کہ سامنے پہاڑ ہیں۔ میری بیگم شور مچا رہی
تھی کی ہم شہر میں پہنچ چکے گاڑی آہستہ کر لو۔ مگر گاڑی کہ رکنے کو تیار ہی
نہ تھی۔ ذہن جھٹکنے کے باجودپہاڑ سے اترنے کو تیار نہ تھا اور پاؤں ہر
حادثے سے بے نیاز سپیڈکو کم کرنے سے قاصر تھے۔ جب گھر پہنچ کر مجبوری میں
گاڑی روکی تو احساس ہوا کہ بلندیوں اور تیز رفتاریوں کا سفر واقعی ختم ہو
چکا۔ اس دن مجھے پتہ چلا کہ ساون کے اندھے کیوں دیر تک ہرے ہرے کی قید میں
رہتے ہیں۔
اسی دن مجھ اندازہ ہوا کہ وہ لوگ جو ایک لمبا عرصہ اقتدار میں گزارتے ہیں ،جب
اس سے فارغ ہوتے ہیں تو ان کی بیچارگی قابل دید ہوتی ہے۔ انہیں یقین ہی
نہیں آتا کہ ان کی بلندیوں اور تیز رفتاریوں کا سفر ختم ہو چکا۔وہ ایک لمبا
عرصہ خوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ان کی روح اقتدار کی راہداریوں میں اس
وقت تک بھٹکتی رہتی ہے جب تک کہ کوئی حادثہ یا کوئی المیہ انہیں سنگین
حالات کی گہرائی میں بری طرح پھینک نہیں دیتا۔ وہ سمجھتے ہی نہیں کہ ہر
عروج کواک دن زوال ہے۔ اس زوال کو خوش دلی سے قبول کر لیا جائے تو انسان
بہت سی مشکلات اور پریشانیوں سے بچ سکتا ہے۔لیکن اقتدار میں رہنے والوں کا
سب سے افسوسناک مسئلہ یہ ہوتا کہ ان کے ارد گرد ایک خاص طبقہ ہوتا ہے جو
انہیں یقین دلاتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہے اور ان کے قابو میں ہے۔ انہیں
مزاحمت کا سفر جاری و ساری رکھنے کا کہتا ہے۔ ان کے پیچھے نعرے بازی کرتا
چلتا ہے اور جب کوئی بہت بڑا گڑھا سامنے آتا ہے تو اپنے اس خوابوں کے
شہنشاہ کو اس گڑھے کی پاتال میں دھکا دے کر دفن کرنے کے بعد ہاتھ جھاڑتا
واپس ہو جاتا ہے۔
سامو گڑھ کی لڑائی ہندستان کی اہم ترین جنگوں میں سے ایک ہے جس میں دو مغل
شہزادے شاہجہان کا چہیتا بیٹا نامزد ولی عہد دارا اور باغی شہزادہ اورنگ
زیب دوسرے باغی بھائی مراد کے ہمراہ آمنے سامنے تھے۔اس جنگ نے عسکری ہی
نہیں سیاسی اور تہذیبی نقطہ نظر سے بھی ہندستان کے مستقل کا فیصلہ کیا۔
شریعت کے علمبردار اورنگ زیب کی کامیابی اور دارا کی ناکامی نے صوفی ازم
اور اکبر اعظم کے شروع کردہ مختلف قوموں کے درمیان باہمی میل جول اور اخوت
پر مبنی مخلوط دور کا مکمل خاتمہ کر دیا۔دارا زندہ بچ گیا۔بوڑھا اور بیمار
شاہجہاں اس نا قابل یقین شکست سے بہت بے حد اداس اور نڈھال ہو گیا۔چند دن
میں اورنگ زیب نے شاہجہان آباد پہنچ کر اس کا محاصرہ کر لیا۔چڑھتے سورج کے
پجاری فوراً بادشاہ کی ملازمت چھوڑ کر اورنگ زیب کی خدمت میں حاضر تھے۔چند
جانثاروں کے سوا قلعے کے دفاع کے لئے کوئی موجود نہ تھا۔ پانی کی کمیابی سے
مجبور بادشاہ نے خود اور قلعے کو اورنگ زیب کے سپرد کرنے کا فیصلہ کیا۔شکست
کے بعد دارا اجمیر میں تھا اور اورنگ زیب کی تلواریں اس کا پیچھا کر رہی
تھیں۔وہ داور پہنچا ۔ وہاں پہنچنے تک اس کا سب سروساماں اور خزانہ لٹ چکا
تھا۔اپنی بیگم کی اچانک وفات پر اس نے چند جانثاروں کو اسے حضرت میاں میر
کے اْحاطے دفن کرنے لاہور بھیج دیا اور خود ایک قاصد کے ذریعے داور کے ایک
زمیندار ملک جیون سے رابطہ کیا۔ملک جیون ایک زمانے میں معتوب تھا اور
شاہجہان نے اس کے سنگین جرم کی بنا پر اسے ہاتھی کے پیروں میں کچل دینے کا
حکم دیا تھا۔دارا نے اپنے کسی خدمت گزار کی سفارش پر شاہجہاں سے اس کی جان
بخشی کروا دی تھی۔اسی ملک جیون کو آج دارا نے پیغام بھیجا تھا۔دارا کا
پیغام سن کر ملک جیون اپنے گاؤں سے دو کوس پہلے تک ننگے پیر پیشوائی کے لئے
حاضر ہوا۔دارا کے گھوڑے کا تین بار طواف کیا رکاب چومے اور ہاتھ باندھ کر
کہا،
’’غلام کی آل اولاد صاحب عالم کے گھوڑوں پر نچھاور ہونے کو حاضر ہے‘‘۔
دارا برے حالات اور بیگم کی موت کی وجہ سے بہت مغموم تھا۔ اس نے ملک جیون
کی طرف دیکھا اور بولا،
’’ اگر جنت مکانی ہمایوں کی طرح تقدیر نے ہم پر یاوری کی تو ہم خود تم کو
تمہاری وفا کا انعام دیں گے۔ ورنہ رب العزت تمہیں اس کا اجر دے گا۔‘‘
دارا نے پھر پوچھا کہ یہاں سے ایران کتنی دور ہے۔جواب ملا، سامنے والی
پہاڑیوں کے قدموں سے شروع ہو جاتا ہے او ر وہاں سے قندھار فقط تین کوس ہے۔
ملک جیون کے کہنے پر دارا تین دن اس کا مہمان رہا اور پھرایران جانے کو
گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ملک جیون خود رہبری کر رہا تھااور دارا کی سواری کے
پیچھے پچاس مسلح سوار چل رہے تھے۔ ابھی تھوڑا فاصلہ ہی طے کیا تھا کہ دفعتاً
سواروں نے گھوڑے چمکا کر دارا کے گرد گھیرا ڈال لیا۔ پریشان حال دارا نے سر
اٹھا کر دیکھا تو ملک جیون گھوڑا موڑ کر تلوار اٹھائے سامنے کھڑا تھا۔ دارا
نے بے ساختہ کیا،’’ جیون تم؟‘‘وحشی بلوچوں نے آگے بڑھ کر اس کی تلوار چھین
لی ۔ دارا کا ننھابیٹا سپہر شکوہ باپ کو بچانے آگے بڑھامگر چند لمحوں میں
قابو کر لیا گیا۔دارا کی مجبور آنکھوں کے سامنے اس کا سب کچھ لوٹ لیا گیا۔
ملک جیون کی شاہجہان سے ساز باز ہو چکی تھی۔ مدلے حالات کے سبب اورنگ زیب
کی طرف سے دارا کا اپنا ایک پرانا وفادار مرزا راجہ ہی اس کے تعاقب میں تھا۔
دارا اور اس کے بیٹے کو زنجیروں ڈال دی گئیں۔ اور مرزا راجہ کے ساتھ
شاہجہان آباد بھیج دیا گیا۔
شاہجہان آباد میں جب دارا کو ہاتھی سے اتارا گیا تو اس کے ہاتھ میں
ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیڑیاں تھیں۔ عام سادہ سوتی کپڑے پسینے سے شرابور
تھے۔ چہرہ سیاہ اور آنکھوں کے گرد حلقے پڑے ہوئے تھے۔جسم پر موٹاسوتی کرتا،
نیچے گندہ سا پاجامہ اور سر پرعام کپڑے کاسوتی عمامہ باندھے دارا لوگوں سے
نظریں چرائے سر جھکائے خاموش کھڑا تھا۔ دارا کے بعد اس کے بیٹے سپہر شکوہ
کو ہاتھی سے اتارا گیا۔سپہر شکوہ کی ہتھکریاں اور بیڑیاں کھول دی گئیں۔
ننھا شہزادہ باپ کو اس حال دیکھ کر اپنی گندی قمیض کے دامن سے اسے ہوا دینے
لگا۔ دارا بیٹے کو دیکھ کر رو پڑا۔ ایک چھوٹے قد کی ہتھنی لائی گئی۔ دارا
اس کے بیٹے اور ایک تلوار بردار کو اس پر بٹھا دیا گیا۔ آگے پیچھے ہزاروں
مسلح گھوڑ سوار دارا کی رسوائی کاجلوس لے کر شہر کے بازاروں میں روا ں دواں
ہوئے۔ان مسلح سواروں میں ایک کثیر تعداد ان کی تھی جو کل تک شہزادے کے
وفادار تھے۔ مقصد سب کو یہ بتانا تھا کہ آئندہ کوئی سلطنت کا دعویدار پیدا
نہ ہو۔شاہجہان آباد وہ شہر تھا جہاں دارا نے اک عمر گزاری تھی۔ لوگ اس سے
پیار کرتے تھے۔ دارا کی رسوائی کا جلوس شہر کے گنجان بازاروں سے گزرا تو
چھتیں، دروازے اور چبوترے انسانوں سے بھر گئے۔ لوگ چیخ چیخ کر روئے۔ شہر
میں کہرام مچ گیا۔اس قیامت کی آہ وزاری ہوئی کہ توپوں کی گھن گرج بھی اس
میں سنائی نہ دیتی ۔لوگوں نے اتنے آنسو بہائے کہ اگر جمع کر لئے جاتے تو
دارا ہاتھی سمیت ان میں ڈوب جاتا۔ملک جیون بڑے فخر سے خلعت پہنے گھوڑے پر
آگے آگے چل رہا تھا۔لوگوں نے اس پر گالیوں کی بوچھاڑ کی اور اس قدر کوڑا
کرکٹ پھینکا کہ اسے پہچاننا مشکل ہو گیا۔غم سے پاگل رعایا نے ہاتھ اٹھا
اٹھا کر اورنگ زیب کو بد دعائیں دیں ۔چند جگہ لوگ مسلح دستے سے بھڑ گئے مگر
تلواروں کے سامنے ان کی کچھ بساط نہ تھی۔
چند دن بعد شہزادے کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ تین دن تک اس کا سر
چاندنی چوک کے چوراہے اوردھڑ لاہوری دروازی پر آویزاں کیا گیا اور پھر غسل
اور کفن کے بغیر ہمایوں کے مقبرے میں دفن کر دیا گیا۔ عوام میں انتہائی
مقبول اس شہزادے کے ساتھ اس کی قبر میں اس کے ساتھ ہی مغل بادشاہوں ، بابر،
ہمایوں، اکبر، جہانگیر اور شاہجہاں کا ایک مخصوص کلچر،ایک مخصوص تمدن
اورایک مخصوص تہذیب بھی ہمیشہ ہمیشہ کے دفن ہو گئے۔
|