صوبائی حکومت اس وقت مکمل طور پر دباؤ میں نظر آرہی ہے ۔
اتفاق سے صوبائی حکومت کا سربراہ بیرون ملک سرکاری دورے پر ہیں۔
وزیراطلاعات تو یوں ہی عوام کے سامنے نہیں آرہے ہیں۔درجنوں اقسام کے میڈیا
سے وابستہ حکومتی چھتری تلے افراد صرف بیانات دیکر اپنی ریٹنگ بنانے میں
مصروف ہیں۔ ایسے میں زیادہ زمہ داری اکیلے اورنگزیب ایڈوکیٹ پر عائد ہوئی
ہے کہ وہ صحافیوں سے بھی ملے اوراحتجاج پر اکسے ہوئے تمام سٹیک ہولڈرز سے
مذاکرات کریں جب کہ ان کا ساتھ صوبائی کابینہ سے صرف وزیر تعمیرات و قانون
ڈاکٹر اقبال دے رہے ہیں۔ گزشتہ دو دنوں لگاتار پریس کانفرنس کررہے ہیں۔
پہلے روز پریس کانفرنس کا مقصد تھا کہ ٹیکس معطلی کا تاخیری وجوہات پر عوام
اور صحافیوں کو بریف کیا جائے جس میں انہوں نے نوٹیفکیشن جاری ہونے کے لئے
طریقہ کار کے مطابق مزید 15دن کم از کم لگنے کی نوید سنادی ۔ اگلے روز پھر
پریس کانفرنس کرکے بتایا کہ تمام بینکوں کو ہدایات جاری کئے گئے ہیں کہ پیر
کے روز سے کوئی بینک ٹیکس نہیں کاٹے گا ۔ اگر کسی بنک نے ٹیکس کاٹنے کی
کوشش کی یا ٹیکس کاٹا تو اس کے زمہ دار ہم ہونگے ۔ ٹیکس کی معطلی وزیراعظم
پاکستان کے اعلانات کے عین مطابق ہوچکی ہے لہٰذا اب احتجاج کا کوئی جواز
نہیں بچتا ہے ۔حکومتی زمہ داران نے عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین مولانا
سلطان رئیس کا نام لیکر گلہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے مذاکرات کے دروازے
بند کرکے اچھا نہیں کیا ۔ جب کہ کسی کا نام لئے بغیر دھمکی دیدی کہ
انتشاریوں سے سختی سے نمٹ لیں گے ۔
دوسری جانب سے گلگت بلتستان میں انجمن تاجران اور عوامی ایکشن کمیٹی اس بات
پر بضد ہے کہ گلگت بلتستان میں ٹیکس کی معطلی کے اعلان تک صوبائی حکومت کے
ہوائی اعلانات پر کوئی اعتبار نہیں ہے ۔ ٹیکس تحریک نوٹیفکیشن کے جاری ہونے
تک جاری رہے گی ۔ جہاں تک عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین مولانا سلطان رئیس
کا معاملہ ہے راقم نے ایک برس قبل بھی ان کے بحیثیت چیئرمین مذکورہ کمیٹی
تنقید کا نشانہ بنایا تھا اور مولانا سلطان رئیس کو سماجی رابطے کی سائٹ
میں آکر اپنا جواب دینا پڑا لیکن ٹیکس کے معاملے کو مولانا سلطان رئیس سے
جوڑ کر حکومت احتجاج پر ’گلہ ‘کرے تو یہ غیر دانشمندانہ اقدام ہوگا۔ کیونکہ
’بقول از خود حکومت ‘ٹیکس کا معاملہ کسی ایک شخص ، ادارے یا پارٹی کا نہیں
ہے ۔
ٹیکس کے حوالے سے گزشتہ تحریر میں بھی عرض کیا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام
اور حکومت کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ ٹیکس دینا ہے یا نہیں ۔ اس
معاملے کو کسی بھی چیز سے مشروط نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ ’نمائندگی کے بغیر
ٹیکس نہیں دینگے ‘کا فرسودہ نعرہ جدید زمانے میں کام نہیں کرتا ۔اب صرف اس
چیز کو دیکھنے کی ضرورت ہے کہ کیا یہ علاقہ ٹیکس دینے کا اہل ہے یا نہیں ۔
اگر نہیں ہے تو کسی بھی بوتل کو تبدیل کرنے کے بعد بھی اہل نہیں ہوسکتا ہے
۔ لیکن آج کے اس کالم میں اس بات کی طرف روشنی ڈالنا لازمی ہے کہ آخر ٹیکس
لگایا کس نے ہے ۔
گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیر کا حصہ ہونے کی وجہ سے ٹیکس دینے سے استثنیٰ
حاصل ہے ۔ اس بات کو مزید مضبوط سپریم کورٹ آف پاکستان کے 1999کے فیصلے نے
کرلیا کہ گلگت بلتستان سے تنازعہ کشمیر کے حل تک ٹیکس نہیں لیا جاسکتا ہے ۔
اس کے باوجود گزشتہ کچھ سالوں سے ٹیکس کٹوتی جاری ہے ۔ نئے ٹیکسز کا نفاز
2012سے شروع ہوا ۔وفاق اور گلگت بلتستان دونوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی
۔ ٹیکسز کے حوالے سے، گلگت بلتستان کونسل جو کہ 2009کے آرڈیننس کے زیر تحت
وجود میں آئی ہے ، نے کمیٹی تشکیل دی تھی ۔ اس کمیٹی کے چیئرمین اُس وقت کے
رکن جی بی کونسل امجد ایڈوکیٹ تھے ۔ ٹیکس کمیٹی میں دیگر ممبران وزیر
عبادت، پروفیسرسلیم،ابرہیم تھے ۔ اس وقت ٹیکس کمیٹی میں کشمیر افیئرز کی
جانب سے گلگت بلتستان میں ٹیکس لگانے کی سفارش کی گئی تھی ۔ اور بات جی بی
کونسل کے ٹیکس کمیٹی کے پاس آئی۔ گلگت بلتستان کونسل نے اس وقت ٹیکس کے
نفاز کو سیاسی حقوق سے مشروط کردئے تھے ۔ سیاسی حقوق سے مراد یہ کہ اگر
گلگت بلتستان 2009کے صدارتی آرڈیننس کے مطابق چلنا ہے تو اسی قسم کے ٹیکسز
لگیں گے۔ صوبائی خودمختاری دی جاتی ہے تو صوبائی سطح کے ٹیکسز عائد کئے
جائیں اور اگر وفاقی اداروں میں نمائندگی دی جاتی ہے تو گلگت بلتستان میں
وہ تمام ٹیکسز لگائے جو وفاقی ادارے عائد کرسکتے ہیں۔ٹیکس کے نفاز میں گلگت
بلتستان کونسل نے یہ تناسب کا فارمولہ طے کیا تھا۔ جن میں جنرل سیلز ٹیکس،
ویلتھ ٹیکس کسٹم ڈیوٹی ٹیکس ، انکم ٹیکس و دیگر کا 80فیصد گلگت بلتستان
حکومت کو دیا جائے اور اس کا کل 20فیصد حصہ وفاقی حکومت کو دیا جائے ۔جبکہ
دیگر شرائط میں یہ بھی موجود تھا کہ گلگت بلتستان کو 50فیصد ٹیکس چھوٹ دی
جائے اور ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں 200فیصد رقم پر ٹیکس عائد کی جائے
۔ یعنی دیگر علاقوں میں 1لاکھ پر ٹیکس ہے تو گلگت بلتستان میں دو لاکھ پر
ٹیکس عائد کیا جائے۔۔ ٹیکس عائد کرنے میں شاید اس وقت وفاقی حکومت کو بہت
جلدی تھی اس لئے دیگر تمام ٹیکسز کو چھوڑ کر صرف انکم ٹیکس پر قانون سازی
شروع کردی اور جی بی کونسل میں لایا ۔ سابق کونسل کے ممبران کا دعویٰ ہے کہ
ٹیکس کمیٹی تین سالوں تک صرف منظور وٹوسے لڑائی میں گزاری ہے ۔ اور ہمارے
مطالبات کے خلاف لائے گئے ٹیکس کے سامنے ڈٹ گئے اور عائد کرنے نہیں دیا ۔
2016میں ودہولڈنگ ٹیکس کا نفاز شروع ہوکر رقومات کی کٹوتی شروع ہوگئی۔امسال
کئی اقسام کے ٹیکسز لگنے شروع ہوگئے ۔ود ہولڈنگ ٹیکس صرف ملازمین پر ٹیکس
ہے جو کہ ان کے تنخواہوں سے کٹوتی ہوتی ہے ۔ ویلتھ ٹیکس نیا متعارف کردہ
ٹیکس ہے جس میں کسی بندے کے کل اثاثوں کے مطابق کٹوتی ہوتی ہے ۔ ویلتھ ٹیکس
میں بنکوں سے ہونے والی ہر قسم کی رقم کی لین دین پر بھی ٹیکس لاگو ہوتا ہے
۔ گلگت کے ایک معروف کاروباری شخصیت جو ایک ٹیلی کمپنی کے فرنچائز مالک ہیں
نے بتایا کہ ہمارا کاروبار روزانہ کی بنیاد پر ہوتا ہے اور روزانہ کمپنی کے
ساتھ لاکھوں کا لین دین ہوتا ہے ۔ ویلتھ ٹیکس کی آمد کے بعد جو رقم بنک
کٹوتی کرتی ہے وہ ہمارے کل منافع سے بھی زیادہ ہے ۔
نئے متعارف کردہ ٹیکسوں میں سوست پورٹ میں لگنے والے ٹیکسز کی رقم کو بھی
تین گنا بڑھادیا گیا ہے ۔ اطلاعات کے مطابق جن کنٹینروں میں پہلے 3ہزار
روپے لیتے تھے اب ان پر 9ہزار روپے لئے جارہے ہیں۔
موجودہ گلگت بلتستان کونسل ٹیکسوں کے نفاذ میں اپنا کوئی بھی کردار ادا
نہیں کرسکی ہے ۔ ٹیکس لگانے کی اس وقت ہوئی جب وفاق اور گلگت بلتستان میں
پیپلزپارٹی کی حکومت تھی لیکن گلگت بلتستان کونسل کے ممبران نے اس وقت اپنی
بساط کے مطابق مزاحمت کرڈالی ۔ موجودہ کونسل میں تو کوئی ایسی شخصیت بھی
نظر نہیں آرہی ہے جو صورتحال کو سمجھ سکے ۔ شاید انہیں یہ بھی سمجھ نہیں
آیا ہوگا کہ کس قسم کے ٹیکسز یہاں پر لگائے جارہے ہیں۔ دلچسپ صورتحال یہ ہے
کہ گلگت بلتستان کے ٹیکس دینے والوں کو ’کریڈٹ کارڈ‘ دینے کی منظوری
3اکتوبر 2016میں دی گئی ۔ جس کا نوٹیفکیشن بھی ہوچکا ہے ۔25اکتوبر 2017کو
گلگت بلتستان کونسل کے اجلاس میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی سفارش پر ٹیکس
معطلی کو ایجنڈے میں شامل کرلیا گیا تھا ۔ یہاں اس بحث میں پڑنے کی ضرورت
محسوس نہیں ہورہی ہے کہ ٹیکس لگانے میں کس پارٹی کا کتنا کردار ہے ۔ لیکن
جو شرائط اور فارمولہ اوپر طے کیا جاچکا ہے ان پر عملدرآمد ہونے سے قبل کسی
بھی قسم کا ٹیکس بے معنی ہے ۔ جن علاقوں میں حقیقی طور پر ٹیکس کا نظام
نافذ ہے وہاں پر غیر ملکیوں کو واپسی پر اس کے قیام کے دنوں کے حساب سے
ٹیکس کاٹا جاتا ہے اور باقی تمام واپس کردیا جا تا ہے اور مقامی لوگوں کو
ٹیکس کے بدلے میں تمام سہولیات فراہم کی جاتی ہے ۔ ’حکومت کا تو کیا رونا
کہ وہ اک عارضی شے ہے‘ کے مترادف ہمارے عوام میں بھی بڑی ’دانشمندی ‘پائی
جاتی ہے وہ ٹیکس کو سہولیات سے مشروط کرنے کی بجائے کچھ لوگوں کو قومی
اسمبلی میں بھیجنے سے مشروط کررہے ہیں۔بہر حال مکمل یقین ہے کہ انجمن
تاجران اور عوامی ایکشن کمیٹی کا اعلان کردہ شٹرڈاؤن ہڑتال کامیاب
ہوگاکیونکہ اس سے قبل جتنے بھی ہڑتالیں کی گئی ہیں عوام نے کھل کر ساتھ دیا
ہے اور ٹرن آؤٹ 95فیصد سے زائد رہا ہے ۔ لیکن ٹیکس کا معاملہ صرف یہی پر
ختم نہیں ہونا ۔ صوبائی حکومت ٹیکس کو درج بالا سمیت دیگر شرائط و سہولیات
سے منسلک کردے ۔ کیونکہ اس صورت میں ٹیکس دینا عوام کا ہی فائدہ ہوگا
بقول شاعر
ہاتھ آنکھوں رکھ لینے سے خطرہ نہیں جاتا
دیوار سے بھونچال کو روکا نہیں جاتا |