تحریر: زہرا تنویر، لاہور
موجودہ دور میں انسان بس اپنی خواہشات کا غلام بن کر رہ گیا ہے۔ خواہشات کی
تکمیل کے لیے ہر جائز و ناجائز رستہ اختیار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں
کرتا۔ اچھے اور برے کے فرق کو بھلا کر انسان خواہشوں کے سمندر ڈوبتا چلا
جاتا ہے۔ اور گمراہی کے اندھیروں کو اپنا مسکن بنا لیتا ہے صرف ان خواہشات
کی خاطر جن کے پورا ہونے پر بندے کو زندگی ادھوری ادھوری سی لگتی ہے۔ نفس
کی غلامی انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتی یہ نفس ہی بندے کو بار بار اکساتا
ہے کہ اس کے پاس یہ ہے اتنا زیادہ ہے اور تم کیا ہو؟ تمہارے پاس کیا ہے؟
تمہارے پاس تو کھانے کو اچھا طعام تک نہیں۔ کیا تم نہیں چاہتے کہ تمہارے
پاس بھی وافر مقدار میں اشیاء خوردونوش ہوں اور آسائشیں سے مزین گھر ہو۔ جب
یہ خیال انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتا تو وہ اس خیال میں موجود خواہشات کو
پانے کے لیے نکل پڑتا ہے۔ اس کی راہ میں سیدھا رستے بھی آتا ہے اور الٹا
بھی۔ سیدھے سے مراد حلال کا رستہ اور الٹے سے مراد حرام کا رستہ ہوتا ہے اب
بندے کو رستے کا تعین کرتے وقت بس اپنا بے لگام نفس دکھائی دے رہا ہوتا ہے
اور وہ سیدھے کے بجائے الٹے رستے کی جانب قدم موڑ لیتا ہے۔
حلال اور حرام کی تمیز ہر باعقل اور صاحب شعور انسان بالخصوص ہر مسلمان پر
فرض ہے۔ اﷲ تعالی نے انسان کے ہر کام اور عمل میں حلال و حرام کے فرق رکھا
ہے۔ ہمارے ہاں اکثر لوگ صرف روزی اور مال کی حد تک حلال و حرام کا نظریہ
رکھتے ہیں۔ اور سی کی اہمیت وافادیت پر زور دیتے ہیں۔ اس میں شک کی کوئی
گنجائش نہیں کہ وہ لقمہ اور رزق جو محنت کر کے حلال زریعہ معاش سے کمایا ہو۔
وہ آپ کے جسم کے اندر سرایت کر کے آپ کی ذات کا حصہ بن جاتا ہے۔ اور حرام
کی ذرائع آمدنی سے کمایا ہوا رزق نہ جسم کا حصہ بنتا ہے نہ زات کا۔ ہمارے
ہاں آج کل اولاد کی نافرمانی کا رونا رویا جاتا ہے۔ کہ ہمارے بچے ہمارا
خیال نہیں کرتے وقت نہیں دیتے۔ اب وہ بچہ کیا خدمت اور اطاعت کے اصولوں سے
واقف ہو گا۔ جس نے آنکھ کھولتے ہی حرام کے لقمے کو کھایا اس کی رگوں میں
حرام کی آمیزش کرنے والے شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ جب یہ ننھا بیج پھلے
پھولے گا تو اس کی آبیاری جیسے کی ہو گی اس میں ویسی ہی نرمی ہو گی اور
سختی بھی۔ شاخ میں جتنی لچک ہو گی اتنی ہی آسانی سے مڑ جاتی ہے اس پر کسی
موسم کے آنے جانے سے اتنا فرق نہیں پڑتا۔ یہی لچک اگر بچے کے خون میں ہو تو
وہ کبھی ماں باپ کی جانب سے رخ نہ موڑے۔ اصل بات اور سب سے بڑی حقیقت جو
انسان کی زندگی میں ہر مقام پر اہم ہے وہ ہے اس کی بنیاد۔ بنیاد جتنی
پائیدار اور اچھی ہو گی اتنی ہی سب کے لیے سودمند ہو گی ۔سب ہی اس سے فائدہ
اٹھا سکتے ہیں ۔ بنیاد کھوکھلی اور کمزور ہو گی تو پھر ہر رشتے میں کہیں نہ
کہیں کوئی جھول ہو گا۔ ایسے افراد نہ معاشرتی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے
ہیں اور نہ ملک و قوم کے لیے۔
ان ناپائیدار اور کمزور بنیادوں کی ضمانت آخر کون دے گا۔ ان کو پالنے والے
یا پھر وہ لوگ خود؟ رزق حلال خدا کی بہت بڑی نعمت ہے۔ محنت سے کمایا ہوا
ایک لقمہ حرام کے ہر ٹکڑے سے معتبر ہوتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ
رزق حلال کی جو اہمیت اور افادیت ہے۔ اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ لیکن
ہماری روزمرہ زندگی میں بہت سے ایسے امور ہیں۔ جن پر پروردگار عالم نے حلال
و حرام کا فرق واضح رکھا ہے اور حد متعین کی ہے۔ کوئی بھی کام اور عمل جب
اپنی مقررہ حد سے باہر نکلتا ہے تو وہ حرام کی لسٹ میں آجاتا ہے۔ اور جو
کام اور عمل اپنی حد میں رہ کر سرانجام دیا جائے اس کو ااچھا سمجا جاتا ہے
اور حلال تصور کیا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں عام الفاظ میں کسی انسان کے اخلاق
اور کردار کو اچھے اور برے کے طور پر متعارف کروایا جاتا ہے۔ اب اچھے اور
برے پر غور کیا جائے تو ذہن میں حلال و حرام کا ہی خیال ابھر کر سامنے آتا
ہے۔ کہ اچھا ہو گا حلال اور برا حرام۔ ہم لوگ گہرائی میں جانا پسند نہیں
کرتے الفاظ کو بھی اپنے کاموں کی طرح ضرورت کے وقت استعمال کرتے ہیں۔ اپنے
ذہن کو اس بات پر غوروفکر کرنے کی ضرور عادت ڈالیں۔ کہ یہ اچھا برا، نیکی
اور برائی حلال و حرام کے کس معیار پر پورا اترتے ہیں۔ کہیں آپ نے حرام کے
رستے کو چن کر تو منزل کی جانب قدم بڑھایا ہے یا پھر حلال کی راہ پر گامزن
ہوئے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہی انسان کی قابلیت اور عقلی معیار کے پیمانے
واضح ہوتے ہیں۔ جہاں سوچ اور فصیلے کی صلاحیت کے اتار و چڑھاؤ میں کمی
دکھائی دے گی وہیں عمل میں کمزوری ظاہر ہونے کے امکان زیادہ ہوتے ہیں۔ اور
انسان سیدھی راہ کو چھوڑ کر اندھی تقلید میں گمراہ ہو جاتا ہے۔
بعض اوقات ہم دوسروں کی راہ میں کانٹے بچھا کر ان کو اذیت دیتے ہیں۔ یہ سب
ہمارے خیالات کا اظہار ہوتا ہے جو عملی زندگی میں دوسروں کے لیے مشکل کا
سامان پیدا کرتے ہیں۔ یہی خیال حرام کے دائرے میں آ جاتے ہیں۔ اور جب خیال
اچھے اور نیک ہوں تو وہ دائرہ حلال میں آ کر سب کی زندگیوں کو خوشگوار
ماحول فراہم کرتا ہے۔ خیالات کے اتار چڑھاؤ کی چابی انسان کے اپنے کنڑول
میں ہوتی ہے۔مثال کے طور پر ایک شخص کا انداز نگاہ میں غلاظت ہو اس کی نگاہ
میں پاکیزگی اور حیاء کا عنصر ہی نہ ہو تو سوال اس کی سوچ پر ہی ہو گا۔
لہٰذا انسان جب چاہے جیسے چاہے اپنے خیالات کی رو کو صحیح سمت کی جانب موڑ
لے۔ جب چاہے غلط سمت میں لے جائے۔ کیونکہ سوچ کا بہاو بعض اوقات بہت بڑے
نقصان کا پیش خیمہ بن جاتا ہے اور جو نقصان ہوتا ہے چاہے وہ چھوٹا ہو یا
بڑا کسی بھی طرح کا ہو انسانی جان ہو یا پھر انسانی ذات سے متعلق کسی بھی
پہلو کا حرام کے زمرے میں ہی آئے گا۔
|