لبنانی وزیراعظم سعد حریری نے انتہائی غیر متوقع انداز
میں سعودی عرب سے ایران اور حزب اللہ لبنان کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے
ہوئے اپنے استعفی کا اعلان کیا۔ سعد حریری کی جانب سے پڑھے جانے والے
استعفی کا لب لباب یہ تھا کہ ایران اپنے اتحادی سید حسن نصراللہ کے ذریعے
لبنان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔ ان کے اس اقدام کا مقصد
ایران اور حزب اللہ لبنان پر سیاسی دباو ڈالنا تھا جس کا اسرائیلی حکام نے
فوری طور پر استقبال کیا۔ یہ سیاسی دباو امریکہ کی جانب سے ایران اور حزب
اللہ لبنان کے خلاف عائد ہونے والی اقتصادی پابندیوں کے کچھ عرصے بعد ڈالا
جا رہا ہے اور اس تمام کہانی کا اصلی نکتہ بھی یہی ہے۔
متعدد رپورٹس اور اعترافی بیانات کی روشنی میں واضح ہو چکا ہے کہ تکفیری
دہشت گرد گروہ اور عراق اور شام میں خانہ جنگی آل سعود، امریکہ، قطر اور
چند دیگر مغربی و عرب ممالک کی کارستانی تھی جس کا مقصد ایران اور اسلامی
مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنا اور اسرائیل کیلئے سیف زون کا قیام تھا۔ اس
بارے میں تفصیلات بیان کرنا نہیں چاہتے اور صرف اس حد تک اشارہ کریں گے کہ
حمد بن جاسم آل ثانی نے دو بار اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ ان سمیت عرب
ممالک کے دیگر حکمرانوں نے تکفیری دہشت گرد عناصر کو منظم کیا ہے اور آپس
میں ایک ٹیم ورک کے ذریعے شام میں صدر بشار اسد کی حکومت سرنگون کرنے کیلئے
انہیں میدان میں اتارا تھا۔ انہوں نے اپنے اعترافی بیان میں "تکفیری دہشت
گرد" کی بجائے "مسلح شدت پسند" کا لفظ استعمال کیا۔ ان کے اعترافات انتہائی
اہم اور سنسنی خیز ہیں۔
حزب اللہ لبنان اور اسلامی جمہوریہ ایران نے داعش نامی تکفیری دہشت گرد
گروہ ختم کر کے خطے میں سب سے بڑی عبری – عربی – مغربی سازش ناکام بنائی ہے
اور اس طرح اسرائیل کو سیف زون قائم نہیں کرنے دیا۔ اس تناظر میں داعش کے
قاتلین کے خلاف حامیوں کی عقدہ گشائی قابل فہم ہے۔ ایران اور حزب اللہ
لبنان کے خلاف حالیہ پابندیاں بھی اسی عقدہ گشائی کا حصہ ہیں۔ حزب اللہ
لبنان کے خلاف پابندیاں کئی پہلووں سے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے خلاف
لگائی گئی پابندیوں کے ساتھ مشابہت رکھتی ہیں۔ کچھ عرصہ قبل لبنان کے اسٹیٹ
بینک کے سربراہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ دیگر ممالک سے تعلقات اور اقتصادی
سرگرمیاں جاری رکھنے کیلئے حزب اللہ لبنان کے خلاف عائد کی گئی امریکی
پابندیوں پر توجہ دینے پر مجبور ہیں لہذا حزب اللہ لبنان سے اقتصادی تعاون
انجام نہیں دے سکتے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان امریکی پابندیوں کا مقصد حزب
اللہ لبنان کو ملک کے اندر بھی پابندیوں کا شکار کرنا ہے۔
مذکورہ بالا مفروضہ درست ہونے کی صورت میں ابھی سے یہ پیشگوئی کی جا سکتی
ہے کہ لبنان میں مغرب نواز سیاسی گروہوں کی جانب سے مستقبل قریب میں حزب
اللہ لبنان کے خلاف سیاسی دباو میں اضافہ ہو گا۔ اسی طرح امریکہ اور اس کے
اتحادی ممالک کی جانب سے حزب اللہ لبنان کے خلاف زیادہ سخت پابندیاں عائد
کی جانے کی بھی توقع کی جا رہی ہے۔ ان اقدامات کا مقصد لبنانی عوام پر
اقتصادی دباو بڑھا کر انہیں حزب اللہ لبنان سے متنفر کرنا اور اس کے خلاف
لا کھڑا کرنا ہے جس کا نتیجہ ملک میں اختلاف اور تفرقے کی صورت میں ظاہر ہو
گا۔ بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی جانب سے
حالیہ اقدامات کا مقصد خطے میں ایک نئی جنگ کے مقدمات فراہم کرنا ہے۔ ایسی
جنگ جس کے ایک طرف حزب اللہ لبنان اور دوسری طرف اسرائیل اور سعودی عرب
قرار پائیں گے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ واضح ہو جائے گا کہ آل سعود اور اس
کے اتحادیوں کی اس فتنہ انگیزی کا مقصد جنگ شروع کرنا ہے یا لبنان میں
اختلاف اور تفرقہ ڈالنا ہے یا دونوں مقاصد شامل ہیں ، اور لبنانی وزیراعظم
سعد حریری کا استعفی اسی سلسلے کی ایک کڑی معلوم ہو رہی ہے ۔
مشرق وسطی خطے میں رونما ہونے والی حالیہ تبدیلیاں اور شیطنت آمیز اقدامات
ایک اور حقیقت سے بھی پردہ اٹھاتے نظر آتے ہیں اور وہ یہ کہ آج اسلامی
مزاحمت کی برکت سے خطے میں ایران اور اس کے اتحادیوں کی پوزیشن انتہائی
مضبوط ہو چکی ہے جبکہ دوسری طرف ان کی حریف قوتوں کی پوزیشن اسی قدر خراب
اور بحرانی ہو چکی ہے۔ آج اسلامی مزاحمتی بلاک کی دشمن حکومتیں خطے کی
صورتحال اپنے حق میں تبدیل کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہیں۔ وہ
کبھی داعش جیسا تکفیری دہشت گرد گروہ تشکیل دے کر، کبھی اقتصادی پابندیوں
کا اعلان کر کے، کبھی جنگ کی دھمکیاں دے کر، کبھی خطے کے ممالک کو تقسیم
کرنے کی کوششیں انجام دے کر اور کبھی مذاکرات کا لالچ دے کر اپنے مقاصد
حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ان تمام موارد میں
شکست کسے ہوئی اور کامیابی کسے نصیب ہوئی؟ |