ہمارے ہاں اگر کسی کو الٹی سیدھی باتیں٬ حرکتیں یا ہر بات
میں شک کرتے دیکھا جائے تو فوراً کہہ دیا جاتا ہے کہ اس شخص پر جنات کا
سایہ ہے یا اسے کسی نے قابو میں کر رکھا ہے اور اسی وجہ سے یہ ایسی حرکتیں
کر رہا ہے- لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس حوالے سے پہلے ڈاکٹر سے
رجوع کرتے ہیں- درحقیقت یہ سب ایک خطرناک ذہنی مرض schizophrenia کی علامات
ہوتی ہیں- یہ مرض کیا ہے؟ کیسے لاحق ہوتا ہے اور اس کا علاج کیسے ممکن ہے؟
ان تمام اہم سوالات کے جواب جاننے لوگوں کے علم میں اضافے کے لیے ہماری ویب
کی ٹیم نے معروف ماہرِ نفسیات ڈاکٹر اقراﺀ ناز سے خصوصی ملاقات کی- ڈاکٹر
صاحبہ لوگوں کا کیا معلومات فراہم کرتی ہیں آئیے جانتے ہیں:
ڈاکٹر اقراﺀ کہتی ہیں کہ “ ہمارے معاشرے میں متعدد افراد ایسے پائے جاتے
ہیں جنہیں schizophrenia کی شکایت ہے- یہ بیماری دماغ میں موجود کیمیکل میں
توزان برقرار نہ رہنے کی وجہ سے لاحق ہوتی ہے“-
|
|
“ عام طور پر اس بیماری کا دورانیہ طویل ہوتا ہے- اس کی چند علامات کا تعلق
حواسِ خمسہ سے ہوتا ہے- مثال کے طور پر اکثر لوگ کہتے ہیں ہمیں کوئی جن یا
پراسرار شے یا کوئی عجیب و غریب مخلوق چلتی پھرتی دکھائی دے رہی ہے٬ یا کسی
کا کہنا ہوتا ہے کہ ہمیں عجیب و غریب آوازیں سنائی دے رہی ہیں یا ایسے
لوگوں کی آوازیں آرہی ہیں جو دنیا میں موجود ہی نہیں- اور یہ حقیقت ہے کہ
ان لوگوں کے ساتھ یہ سب ہورہا ہوتا ہے“-
“ اس کے علاوہ اکثر مریضوں کو سارا دن زبان پر عجیب ذائقہ محسوس ہوتا رہتا
ہے- اسی طرح کچھ لوگوں کو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انہیں کسی نے چھوا ہے٬
یا پھر کچھ لوگوں کو عجیب بدبو یا خوشبو کا احساس ہوتا رہتا ہے“-
“ دیگر علامات میں یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی مخلوق
ان کا پیچھا کر رہی ہے یا کوئی ان کی نگرانی کر رہا ہے یا پھر ان پر کیمرے
لگا کر رکھے گئے ہیں- ایسے لوگوں کے بات کرنے کا طریقہ بھی عجیب ہوتا ہے٬
یہ لوگ اپنی صفائی ستھرائی کا بھی خیال نہیں رکھتے- الٹی سیدھی باتیں کرتے
رہتے ہیں اور ساتھ ہی انہیں ہر بات میں شک ہوتا ہے جبکہ قریبی رشتے داروں
پر بھی شک کرتے ہیں- یہاں تک کہ انہیں کوئی کھانے کی چیز دی جائے تو یہ اس
پر بھی شک کرتے ہیں کہ کہیں اس میں کچھ ملا ہوا نہ ہو“-
|
|
ڈاکٹر اقراہ کا مزید کہنا تھا کہ “ ایسے لوگوں کو سب سے پہلے ماہرِ نفسیات
کے پاس بھیجا جاتا ہے اور وہ معائنہ کر کے مرض کی تشخیص کرتا ہے- اس کے بعد
ان لوگوں کا علاج دواؤں کی مدد سے شروع کیا جاتا ہے“-
“ کوشش کیجیے کہ ایسے مریضوں کو اسپتال میں داخل کروایا جائے کیونکہ انہیں
جب گھر والے دوا کھلانے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے
یہ لوگ اسے مارنا چاہتے ہیں یا پھر اس کے خلاف کوئی سازش کر رہے ہیں- اگر
مریض گھر والوں کے دباؤ میں دوا کھا بھی لے تو وہ بعد میں منہ سے نکال کر
پھینک دیتا ہے“-
“ اس کے علاوہ اسپتال میں موجود ڈاکٹر مسلسل مریض کے رویے کی جانچ کر سکتے
ہیں اور ساتھ ہی اس کے مرض میں آنے والی بہتری کو دیکھتے رہتے ہیں“-
|
|
ڈاکٹر اقراﺀ کہتی ہیں کہ “ دواؤں سے آنے والی بہتری کے بعد مریض کو
سائیکلوجسٹ کے پاس بھیجا جاتا ہے کیونکہ دورانِ بیماری مریض کے جذبات٬
احساسات اور تعلقات بری طرح متاثر ہوچکے ہوتے ہیں- اب سائیکلوجسٹ مریض کے
معاشرے میں روابط قائم کرنے٬ تعلقات اور رویے کے حوالے سے تھراپی کرتا ہے-
اصل میں ایسا مریض دورانِ بیماری لڑتا جھگڑتا یا مار پیٹ تک کرتا ہے اور
لوگ اسے پاگل قرار دے چکے ہوتے ہیں اور اس وجہ سے اس کا دوبارہ بیماری سے
قبل والی زندگی میں لوٹنا مشکل ہوتا ہے“-
“ اگر مریض طالبعلم ہے تو سائیکلوجسٹ اس کی ایسی تھراپی کرتا ہے کہ وہ
دوبارہ سے اپنی تعلیم پر توجہ دے اور اسے پورا کرے“-
“ اس کے علاوہ سائیکلوجسٹ ان وجوہات یا دباؤ کا بھی پتہ لگاتا ہے جس کی وجہ
سے مریض اس بیماری کا شکار بنا تھا تاکہ آئند ان وجوہات پر مکمل نظر رکھی
جائے٬ کہیں ایسا نہ ہو کہ صحتیاب ہونے والا شخص دوبارہ اسی دباؤ کا شکار ہو
کر پھر اسی بیماری کی طرف لوٹ جائے“-
|
|
ڈاکٹر اقراﺀ یہ بھی بتاتی ہیں کہ “ اکثر لوگ اپنے مریض کو پیروں یا فقیروں
کے پاس لے جاتے ہیں کہ اس پر جن آگیا ہے یا اس پر سایہ ہے- اور ان پیروں سے
علاج کروانے کے چکر میں مرض مزید بگڑ جاتا ہے اور کافی دیر ہوجاتی ہے جس کی
وجہ سے جب مریض ہمارے پاس پہنچتا ہے تو ہمیں بھی بیماری دور کرنے میں کافی
وقت لگ جاتا ہے“-
“ اگر آپ پیروں سے علاج کروانا چاہتے ہیں تو ضرور کروائیے لیکن اس کے ساتھ
ساتھ ڈاکٹر سے علاج کرواتے رہیے“-
“ ہر سال اکتوبر کے اختتام پر ذہنی صحت کے حوالے سے ایک اہم دن منایا جاتا
ہے جس میں لوگوں کو ذہنی صحت سے متعلق آگہی فراہم کی جاتی ہے- اس آگہی کے
ذریعے آپ اپنی شخصیت کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں“-
اپنی ذہنی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے کیونکہ اگر آپ ذہنی صحت خراب ہوئی تو
آپ کی پوری زندگی خراب ہوجائے گی“- |
|
|