بسم اللہ الرحمن الرحیم
قارئینِ کرام رحیم اور الرحیم میں اصل مادہ رحم ہی ہے۔ عربی قواعد کی وجہ
سے کبھی اس پر الف لام آتا ہے اور کبھی نہیں آتا لیکن اس کے معنیٰ میں کوئی
فرق نہیں آتا۔ رحیم کا مطلب رحم کرنے والا (رحم والا) اور الرحیم کا مطلب
رحم کرنے والا (رحم والا)۔
قرآن مجید میں دیکھیں:
١۔ ان اللہ غفور رحیم (بیشک اللہ بخشنے والا رحم والا ہے) البقرہ ١٨٢
دیکھئے غفور اور رحیم پر الف لام نہیں ہے؛ مراد اللہ ہی کی ذات ہے۔
٢۔ ان اللہ سمیع علیم (بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے) البقرہ ١٨١
سمیع اور علیم پر الف لام نہیں۔
٣۔ واللہ غفور رحیم (البقرہ ٢١٨
یہاں بھی غفور اور رحیم پر الف لام نہیں۔
٤۔ واللہ رؤف بالعباد (البقرہ ٢٠٧
دیکھئے رؤف پر بھی الف لام نہیں ہے۔ مراد یہاں اللہ ہی کی ذات ہے۔
اب دیکھیں دوسری جگہ پر اللہ نے ارشاد فرمایا:
انھ ھو الغفور الرحیم (بیشک وہی (اللہ) غفور اور رحیم ہے) الزمر ٥٣
یہاں پر الف لام ہے الغفور اور الرحیم۔ اب کیا وجہ ہے کہ قرآن پاک میں کسی
جگہ پر اللہ کے اسمائے حسنٰی پر الف لام ہے اور کسی جگہ نہیں ہے؟ بات وہی
ہے عربی قواعد کی وجہ سے کہیں پر الف لام آ جاتا ہے اور کہیں پر الف لام آ
ہی نہیں سکتا کیونکہ وہاں پر عربی کلام کے اسلوب کے خلاف ہو جائے گا۔ اب
ذرا اور الف لام کے بارے میں دیکھتے ہیں۔
١۔ فازلھما الشیطٰن۔۔۔۔۔الخ (شیطان نے حضرت آدم و حوا علیھما السلام کو
پھسلا دیا) البقرہ ٣٦
اب یہاں الشیطن پر الف لام ہے۔ دوسری جگہ دیکھیں:
من کل شیطٰن رجیم (الحجر ١٧
یہاں شیطٰن پر الف لام نہیں ہے۔ ‘الشیطٰن‘ اور شیطٰن سے مراد ایک ہی ہے یا
الگ الگ؟
یہاں بھی الشیطٰن اور شیطٰن پر عربی قاعدے کی وجہ سے ایک جگہ الف لام آیا
اور دوسری جگہ نہیں آیا۔
٢۔ فلا تولوھم الادبار (الانفال ١٥
یہاں الادبار ہےاور ادبار ‘دبر‘ کی جمع ہے۔ دوسری جگہ دیکھیں:
وجوھھم وادبارھم۔۔۔الخ الانفال ٥٠
یہاں ادبار پہ الف لام نہیں ہے۔
پوچھئے الادبار اور ادبار‘ کا مفہوم الگ الگ ہے؟
٣۔ صدقہ یتبعھا اذی ٠(البقرہ ٢٦٣
یہاں اذی پر الف لام نہیں ہے دوسری جگہ دیکھیں:
لا تبطلو صدقتکم بالمن والاذی۔(البقرہ ٢٦٤
یہاں ‘ اذی‘ پر الف لام ہے: پوچھئے ‘ اذی اور الاذی‘ کا مطلب جدا جدا ہے؟
٤۔ فیقسمن باللہ لشھادتنا احق من شھادتھما وما اعتدینا ( المائدہ ١٠٧
یہاں ‘شھادت‘ پر الف لام نہیں ہے۔ دوسری جگہ دیکھیں:
ذلک ادنی ان یاتوا بالشھادہ علی وجھھا (المائدہ ١٠٨
یہاں ‘شھادت‘ پر الف لام ہے۔ پوچھئے ‘الشھادت‘ اور ‘شھادت‘ کا معنیٰ الگ
الگ ہے؟
اسی طرح قرآنِ پاک میں ایک جگہ ‘الملائکہ‘ ہے اور دوسری جگہ بغیر الف لام
کے ‘ملائکہ‘ ہے۔ کیا دونوں سے مراد الگ الگ ہے؟
اسی طرح قرآن میں ‘الدعا‘ ہے (انک سمیع الدعاء) البقرہ ٣٨ اور دوسری جگہ
‘دعا‘ ہے (ربنا وتقبل دعاء) ابراھیم ٤٠ ) پوچھئے ‘الدعا‘ اور ‘دعا‘ میں
کوئی فرق ہے؟
قارئینِ کرام! ایسی بہت سے مثالیں قرآن کریم میں موجود ہیں کہ ایک ہی لفظ
ہے لیکن ایک جگہ اس پر الف لام ہے اور دوسری جگہ الف لام نہیں ہے۔ ترجمہ
اور مطلب ایک ہی ہے بات وہی ہے کہ یہ ایسا عربی قواعد کی وجہ سے ہے ۔
قارئین کرام! اب دیکھئے اسمائے حسنٰی کی طرف جو اس نے ہمیں دکھائے تھے:
الرحمن۔۔۔۔۔۔الرحیم۔۔۔۔۔۔۔الملک۔۔۔۔۔۔۔۔القدوس۔۔۔۔۔۔السلام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔المؤمن۔۔۔۔۔۔۔۔المھیمن۔۔۔۔۔۔۔علی
ھذا القیاس
اب یہاں اسمائے حسنٰی پر الف لام موجود ہے اب دیکھئے جب ہم اسمائے حسنٰی کے
ساتھ اللہ کو پکاریں گے تو کیا کہیں گے۔۔۔۔۔یا رحمٰن۔۔۔۔۔۔۔یارحیم۔۔۔۔۔۔۔۔یا
ملک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔علی ھذا القیاس
ہم یا الرحمن۔۔۔۔یا الرحیم۔۔۔۔ نہیں کہتے کیونکہ حرفِ ‘یا‘ حرفِ ندا ہے اور
منادٰی پر الف لام نہیں آتا۔ یہ عربی گرامر کی وجہ سے ہے۔ عربی لوگ یا کے
بعد الف لام کا استعمال نہیں کرتے۔ دیکھئے ہے ‘الرحمن‘ اور ہم پکار رہے ہیں
‘یا رحمن‘۔ پوچھئے اب کہاں ہے الف لام؟
قارئینِ کرام! اب ذرا کچھ اور بھی ملاحظہ کریں۔ اللہ تعالٰی نے فرمایا:
١۔ واللہ ذو فضل عظیم (اللہ فضل والا عظمت والا ہے) ال عمران ١٧٤
‘عظیم‘ اسمائے حسنٰی میں بھی ہے اللہ کا صفاتی نام بھی ہے قرآن میں بھی آ
گیا اب اسی لفظ کا استعمال دوسری چیزوں کیلئے بھی دیکھئے۔ قرآن پاک میں ہے:
ولھم عذاب عظیم۔ (البقرہ ٧
ان کیدکن عظیم۔ ( یوسف ٢٨
عذاب بھی عظیم کید (فریب) بھی عظیم۔ اگر صرف اللہ تعالٰی عظیم ہے کسی اور
کو عظیم کہنا ٹھیک نہیں تو پھر ان چیزوں کیلئے بھی عظیم کا لفظ کیوں
استعمال ہوا؟ عزیز مصر نے کہا (ان کیدکن عظیم، تمہارا فریب بہت بڑا ہے)
معلوم ہوا عظیم کا لفظ خاص اللہ کیلئے وضع نہیں ہوا بلکہ یہ عربی زبان کا
لفظ ہے جس کا مطلب ہے بہت بڑا۔ تو عظیم اس مفہوم کو ادا کرنے کیلئے وضع ہوا۔
لہٰذا جب عربی میں کلام کریں گے تو (بہت بڑا) مفہوم کیلئے عظیم کا لفظ
استعمال کر سکتے ہیں۔ اب اسی بات سے اندازہ لگائیں کہ اسمائے حسنٰی کے
الفاظ خاص اللہ کیلئے وضع نہیں ہوئے بلکہ عربی کلام کی ادائیگی کے لئے وضع
ہوئے ہیں اس لئے عربی کلام کی ادائیگی کیلئے ان کو استعمال کیا جا سکتا ہے
اور جس چیز میں وہ صفت پائی جائے گی وہ نام اس پر صادق آ جائے گا۔
اردو کا ایک جملہ لیں زید لوگوں پر بہت رحم کرنے والا ہے اس کو عربی میں
ٹرانسلیٹ کریں۔
زید رحیم بالناس
زید کو ہم نے رحیم کہا کیا یہ مطلب ہے کہ زید اللہ کی طرح رحیم ہو گیا نہیں
نہیں لیکن بولا جا سکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالٰی نے بھی فرمایا “بالمؤمنین
رؤف رحیم“ (التوبہ ١٢٨) اسی طرح ہم نے حضرت سیدنا علی بن عثمان الہجویری
رحمہ اللہ تعالٰی کو ‘داتا‘ کہا اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ اللہ کی طرح داتا
ہیں۔
قارئین کرام! نوٹ فرمائیں۔ اسمائے حسنٰی خاص اللہ کیلئے وضع نہیں ہوئے بلکہ
عربی کلام کی ادائیگی کیلئے وضع ہوئے اس بات کو میں آخر میں پیش کروں گا۔
اب ذرا اسلام کی حلاوت کا اور مزہ لیں۔
‘شھید‘ اللہ کا نام ہے جس کا مادہ ‘شھادت‘ یا ‘شھود‘ ہے اللہ تعالٰی اپنے
بندے کے ہر عمل سے واقف ہے؛ جانتا ہے اور دیکھتا ہے۔ اس کی ذات جسمانی اور
مکانی سے پاک ہے۔ اس کا علم قدرت اور رحمت ہر جگہ موجود ہے۔ ذات ہر جگہ
موجود نہیں ہے کیونکہ وہ مکان سے پاک ہے۔ اسمائے حسنٰی میں بھی شھید کا اسم
موجود ہے۔ اللہ رب العزت کی یہ ذاتی صفت ہے۔ اللہ نے یہ صفت اپنے حبیب مکرم
صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمائی۔ حضور کی صفت شھید عطائی صفت ہے۔ قرآن
مجید میں اللہ کی اس صفت کا بار بار ذکر ہوا ہے۔
١۔ ان اللہ علی کل شیء شھید (الحج ١٧
٢۔ وانت علی کل شیء شھید (المائدہ ١١٧
٣۔ قل اللہ شھید بینی وبینکم (الانعام ١٩
٤۔ ثم اللہ شھید علی ما یفعلون (یونس ٤٦
اب ملاحظہ کریں اللہ نے اپنے حبیب کو بھی کس شان سے شھید کے لقب سے موسوم
فرمایا۔
١۔ وکذلک جعلنکم امت وسطا لتکونوا شھداء علی الناس ویکون الرسول علیکم
شھیدا۔(ہم نے تم کو بہترین امت بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور
رسول تم سب پر گواہ) البقرہ ١٤٣
٢۔ فکیف اذا جئنا من کل امت بشھید و جئنا بک علی ھؤلآء شھیدا (اے محبوب!
کیا حال ہو گا جب ہم ہر گروہ سے ایک گواہ لائیں گے اور ان سب پر ہم آپ کو
گواہ لے آئیں گے) النساء ٤١
ان آیات میں امت محمدیہ کو بھی شھید کہا گیا ہے۔ امت محمدیہ دنیا و آخرت
میں گواہ (شھید) ہے۔ قیامت کے دن پہلے بیغمبروں کی امتیں اللہ کے حضور عرض
کریں گی کہ ہمیں کسی نے تیرا پیغام ہدایت نہیں پہنچایا تو اس وقت امت
مصطفٰی گواہی دے گی کہ یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں تیرے پیغمبروں نے تیرا
پیغام حرف بحرف ان لوگوں تک پہنچا دیا تھا۔ امتِ مصطفٰی پر وہ لوگ اعتراض
کریں گے کہ تم اس وقت موجود ہی نہ تھے تم گواہی کیسے دے سکتے ہو تو وہ عرض
کریں گے اے اللہ! تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ان پر تیری کتاب
قرآن مجید نازل ہوئی۔ تیرے کلام میں جو تو نے اپنے حبیب کی طرف اتارا اس
میں لکھا پایا کہ تمام پیغمبروں نے تبلیغ کا حق ادا کر دیا اس پر سرکار
دوعالم اپنی امت کی صداقت و عدالت کی گواہی دیں گے کیونکہ اپنے امتیوں کے
حالات پر پورے پورے واقف ہیں۔
قارئین کرام! امت محمدیہ بھی شھید؛ حضور اکرم بھی شھید؛ اللہ بھی شھید؛ یہ
کیا ہے؟ قرآن پاک بتا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرق کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اللہ کی صفت
شھید ذاتی ہے باقی سب کی عطائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خلاصہ کلام:
جو الفاظ الوھیت کیلئے وضع ہوئے وہ ہم کسی بھی مخلوق کے ساتھ موسوم نہیں کر
سکتے جیسے اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رحمن۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کسی بھی زبان کا
جو بھی لفظ یا اسم الوھیت کیلئے وضع ہوا ہے وہ اسم یا لفظ مخلوق میں سے کسی
پر استعمال نہیں کر سکتے مگر جو الفاظ خاص طور پر الوھیت کیلئے وضع نہیں
ہوئے جیسے اسمائے حسنٰے کے بعض الفاظ ۔۔۔۔ وہ صفات جب کسی چیز میں پائی جا
رہی ہوں گی تو وہ الفاظ اس پر صادق آ سکتے ہیں۔ تو پھر فرق کیا ہے شرکت
کیوں نہیں پائی جا رہی ہے؟ کیوں شرک کا فتوٰی نہیں لگ سکتا؟ آدمی کیسے مشرک
نہیں بنتا؟ بات یہ ہے جب ان الفاظ کی نسبت اللہ کی طرف ہو گی جیسے رحیم تو
اس کا مطلب کہ اللہ رحیم ہے ازل سے ابد تک۔ اللہ رحیم ہے یہ اس کی ذاتی صفت
ہے اس نے کسی سے حاصل نہیں کی اس کو کسی نے یہ صفت عطا نہیں کی۔ اللہ پر
عدم نہیں آیا نہ آ سکتا ہے اس کی رحیمی پر بھی نہ عدم ہے نہ آ سکتا ہے۔
اللہ کے رحیم ہونے کا یہ مطلب ہے۔
اور اگر کسی بندے کی طرف رحیم کی نسبت ہو تو اس وقت معنیٰ ہوتا ہے کہ یہ اس
کی صفت ذاتی نہیں بلکہ عطائی ہے۔ اس کو اللہ نے رحیم بنایا اور یہ ازل سے
ابد تک رحیم نہیں ہے بلکہ ایک زمانہ تو ایسا تھا کہ اس پر عدم تھا؛ یہ
موجود ہی نہیں تھا۔
جب ہم اللہ کو رحیم کہیں گے تو پہلا معنٰی ہمارے ذہنوں میں موجود ہے جب ہم
اللہ کے سوا کسی اور کو رحیم کہیں گے تو دوسرا معنٰی ہمارے ذہنوں میں موجود
ہوگا۔ یاد رکھیں اللہ کی صفات میں شرکت تب پائی جائے گی جب ہم کسی آدمی میں
وہ صفات اللہ کی طرح مانتے ہوں لیکن ہم تو کہتے ہیں اللہ کی ذاتی مخلوق کی
عطائی۔
داتا بھی وہ اسم ہے جو خاص الوھیت کیلئے وضع نہیں ہوا جو کسی پر بولا نہیں
جا سکتا جب داتا کی نسبت اللہ کی طرف ہو گی تو اس ما معنٰی ہو گا کہ یہ صفت
اللہ کی ذاتی ہے عطائی نہیں۔ مخلوق کی طرف نسبت ہو گی تو مطلب یہ ہو گا کہ
یہ صفت عطائی ہے اس کو اللہ نے داتا بنایا۔ اللہ تعالٰی اسے اپنے محبوب
مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نوازتا ہے؛ وہ لوگوں کو نوازتے ہیں۔ نبی
اکرم علیہ الصلوت والسلام کے ارشاد کے مطابق
اللہ یعطی وانا قاسم۔۔۔۔۔۔او کما قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ مجھے عطا کرتا ہے اور میں تقسیم کرنے والا ہوں
رب ہے معطی یہ ہیں قاسم رزق اس کا ہے کھلاتے یہ ہیں
اللہ داتا ہے تو اپنی ذات کے اعتبار سے اور حضرت علی بن عثمان الہجویری
داتا ہیں تو اللہ کی عطا سے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم ورسولہ بالصواب |