احترام ذریت نبی کریم رؤف الرحیم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اور دیکھو خبردار! اپنے احترام کو صرف نیک کردار سادات تک محدود نہ رکھنا کہ ان کا حکم علماء کا نہیں ہے کہ بے عمل قابل احترام نہ ہوں ان کا حکم اولاد کا ہے اور اولاد بہر حال اولاد ہوتی ہے۔ ہاں اگر ترک احترام سے ہدایت کا امکان ہو تو احترام نہ کرو تاکہ ہدایت کے راستے پر آجائیں اور یہ نہی عن المنکر کا ایک طریقہ ہے۔ اگرچہ اس میں بھی احتیاط یہی ہے کہ ظاہراً احترام کرتے رہو اور تنہائی میں نصیحت کر دو جیسا کہ احمد بن اسحاق اشعری کے واقعہ میں ہے کہ حسین بن حسن فاطمی ان سے ملنے کے لئے آئے تو انھوں نے شرابی ہونے کی وجہ سے ملنے سے انکار کر دیا اور جب حج میں جاتے ہوئے سامرہ میں امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے بھی ملاقات سے انکار کر دیا۔ جب اصرار شدید کے بعد اجازت ملی تو ابن اسحاق نے عرض کی فرزند رسولؐ آپ ناراض کیوں ہیں؟ فرمایا تم نے حسین بن حسن کو کیوں روکا تھا۔ عرض کی میرا مقصد شراب سے پرہیز کرانا تھا۔ فرمایا صحیح ہے۔ نہی عن المنکر فریضہ ہے لیکن احترام میں فرق نہیں آنا چاہئے۔ ابن اسحاق نے یہ بات محفوظ کرلی اور واپسی پر حسین کا بے حد احترام کیا۔ انھوں نے گھبرا کر سبب پوچھا۔ احمد نے سبب بیان کیا۔ حسین پر اس بیان کا اس قدر اثر ہوا کہ توبہ کر کے شراب کے سارے ظروف توڑ کر پھینک دیئے اور مسجد میں اعتکاف کر کے انتقال کر گئے۔ (مستدرک مسائل ۲، ص ۴۰۰)

یہ بھی یادر کھو کہ یہ تاکید غیر فاطمی سادات کے لئے نہیں ہے۔ اگر چہ ہاشمی ہونے کے اعتبار سے اشرف اور محترم ہیں لیکن ان کا شمار ذریت و قربیٰ رسول میں نہیں ہے اور داخل النسب افراد کا احترام تو بالکل نہیں ہونا چاہئے اور ان کے احترام سے پر ہیز ہی اولیٰ اور النسب ہے۔ مشتبہ حالات میں احتیاط سے کام لینا چاہئے البتہ جو لوگ ماں کی طرف سے سید ہیں ان کا احترام ہونا چاہئے اس لئے کہ بیٹی کی اولاد بھی اولاد ہی ہوتی ہے اور امام حسن اور امام حسین علیہم السلام اسی رشتے سے ابناء پیغمبرؐ ہیں۔ صرف اس رشتہ کے لوگوں کو خمس کا استحقاق نہیں ہوتا کہ روایت مرسلہ جماد بن عیسیٰ میں خمس کے لئے باپ کی طرف سے سیّد ہونے کی شرط ہے ورنہ احترام میں دونوں برابر ہیں اور دونوں کا احترام ہونا چاہئے۔

صلۂ رحم
فرزند! قرابت داروں سے تعلقات قائم رکھو کہ اس سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور رزق میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ یہ رضا بے شمار نفع دنیا و آخرت کا ذریعہ ہے۔ وہ قطع تعلق بھی کریں تو تم رابطہ قائم رکھو جیسا کہ امیر المومنین علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ قطع تعلق کرنے والے قرابتداروں سے صلہ رحم کرنا زیادہ فضیلت اور ثواب رکھتا ہے اور نفس کی اطاعت سے زیادہ محفوظ رکھتا ہے۔

خبردار! قطع رحم نہ کرنا کہ قرابت اللہ کی راہ میں فریادی رہتی ہے کہ پروردگار جو مجھ سے تعلق رکھے تو اس سے تعلق رکھنا اور جو مجھ سے قطع تعلق کر لے تو اس سے قطع تعلق کر لینا۔

میں نے صلۂ رحم کے بے شمار اثرات دیکھے ہیں اور قطع تعلق رکھنے والے کے ساتھ تعلقات کا عجیب و غریب اثر مشاہدہ کیا ہے لہٰذا تم اس باب میں سستی اور کمزوری سے کام نہ لینا اور برابر تعلقات کو استوار رکھنا۔

مفلوک الحال شیعوں کا خیال رکھنا بالخصوص ہمسایہ اور قرابت دار کہ ان کے خیال میں عزت دنیا و آخرت ہے اور مرضیٔ پروردگار بھی ہے۔ امام صادق علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جناب یعقوب علیہ السلام پر فراق یوسف کی افتاد اس لئے پڑی تھی کہ انھوں نے ایک دنبہ ذبح کیا اور ہمسایہ کے حالات دریافت کئے بغیر استعمال کر لیا حالانکہ ہمسایہ میں ایک شخص فاقہ شکنی کے لئے آذوقہ کا محتاج تھا۔ (تفسیر صافی، ص ۲۶۹)

(یہ بھی ترک اولیٰ کی ایک قسم ہے جس پر انبیاء کرام کا امتحان سخت ہو جاتا ہے لہٰذا تم بھی نعمات دنیا سے استفادہ کرنے سے پہلے دوسروں کا لحاظ کرو ورنہ کسی وقت بھی تمہارا امتحان ہو سکتا ہے۔ جوادی)

فرزند! اپنے جملہ امور میں میانہ روی سے کام لینا۔ اس کا انجام بہتر اور عاقبت قابل تعریف ہے۔ مالک کائنات نے اپنے پیغمبرصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اقتصاد و میانہ روی کا حکم دیا ہے اور جب پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے سوال کیا گیا کہ راہِ خدا میں کیا خرچ کیا جائے تو قرآن نے یہی جواب دیا کہ ’’اپنی ضرورت سے زیادہ۔‘‘

فرزند! ہمیشہ اپنے سے پست افراد کے حالات پر نگاہ رکھنا اور شکر خدا کرتے رہنا کہ ان سے بہتر ہو۔ اپنے سے اچھے حالات والوں پر نگاہ نہ کرنا کہ نفس کو اذیت ہو اور راحت دنیا اور اجر آخرت دونوں کا خاتمہ ہو جائے۔

فرزند! جہاں تک ممکن ہو لوگوں سے زیادہ میل جول نہ رکھنا کہ اس طرح انسان حق سے غافل اور موت سے بیگانہ ہو جاتا ہے۔ عبادت کا وقت کم ہو جاتا ہے اور تحصیل علم دین، ذکر، فکر کے مواقع ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ لوگوں کے حالات کی طمع پیدا ہو جاتی ہے اور غیبت، بہتان وغیرہ سننے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔ کبھی کبھی مہمل قسم کے لوگوں کے ساتھ رہنا پڑتا ہے اور اس طرح فتنہ و فساد پیدا ہوتا ہے اور قیامت کے دن ندامت کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے خبردار وقت گزار نے سے پہلے ہوشیار ہوجاؤ۔

فرزند! خبردار خواہشات نفس کی مخالفت کرو۔ نفس کی متابعت ہلاکت اور زہر قاتل ہے۔ امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ سب سے زیادہ خطرہ خواہشات کے اتباع اور امیدوں کے طول طویل ہونے سے ہے کہ خواہشات کا اتباع حق سے روک دیتا ہے اور امیدوں کا طول آخرت کو بھلا دیتا ہے۔ (روضہ کافی، ص ۵۸)

دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا: ’’اپنے خواہشات سے اس طرح بچو جس طرح دشمن سے بچتے ہو۔ خواہشات سے بدتر دنیا کا کوئی دشمن نہیں ہے۔ ہر تبائی خواہشات اور بدزبانی سے پیدا ہوتی ہے۔ (اصول کافی ۲، ص ۲۳۵)

فرزند! صبح کے وقت شام اور شام کے وقت صبح کی فکر نہ کرو ورنہ امیدیں غافل بنادیں گی۔ ہر وقت یہ سوچو کہ دوسرے وقت نہیں رہنا ہے اور اپنی حیثیت اس جنازہ کی ہے جو غسال کے سامنے رکھا ہوا ہے۔

وصیت
فرزند! بلوغ کے بعد ہی اپنا وصیت نامہ تیار کرلو اور جب بدلنے کی ضرورت پڑے تو اسے بدل دو۔ اپنے قرضے اور مطالبے بھی لکھ کر رکھو۔ مجھے اکثر یہ اتفاق ہوا ہے کہ شدید سردی کے زمانے میں اگر بستر پر لیٹنے کے بعد یاد آیا کہ میں نے کسی سے ایک یا دو درہم قرض لیا ہے تو میں بستر سے اٹھ کھڑا ہوا اور پہلے اسے نوٹ کیا اور اس کے بعد آکر لیٹا کہ مبادا موت آجائے اور یہ قرض میرے ذمہ رہ جائے کہ اگر قرض خواہ مطالبہ نہ کرے تو میں مقروض رہ جاؤں اور اگر مطالبہ کرلے تو ورثہ اس سے گواہی یا قسم کا مطالبہ کریں گے اور یہ اسکو بلا سبب زحمت ہوگی۔ جبکہ اس نے قرض دے کر احسان کیا ہے اور احسان کا بدلہ یہ نہیں ہے کہ اسے گواہی یا قسم کی زحمت میں ڈالا جائے اور اگر ثبوت فراہم نہ کر سکے اور ورثہ ادا نہ کریں تو میں مسؤل الذمہ رہ جاؤں۔

قرض کی گواہی
فرزند! جب بھی کوئی قرض لو یا دو تو حکم قرآن کے مطابق اسے ضبط تحریر میں لے آؤ اور اس پر گواہ بھی معین کرو کہ شریعت کے ایک حرف کا ترک کرنے والا بھی محتاج ہو سکتا ہے۔ رب کریم نے ہر قانون مصلحت سے بنایا ہے اور کوئی قانون بیکار نہیں بنایا لہٰذا خبردار ان مصلحتوں کو ضائع اور برباد نہ ہونے دینا۔

فرزند! خدا تمہاری عمر دراز کرے اور تمہارے امور کی اصلاح کرے اور تمہیں علم و عمل میں کمال عطا کرے۔ آداب شرعیہ کا التزام کرو جملہ حرکات و سکنات وضو، غسل، کھانا، پینا، سونا، جاگنا، بیت الخلاء، ہمبستری، لباس، مکان ہر کام میں احکام شریعت کی پابندی کرو۔ یہ احکام بلا سبب نہیں بنائے گئے ہیں۔ ان کے دنیا و آخرت میں نتائج اور فوائد ہیں۔ ان کے بارے میں غفلت اور سستی سے کام نہ لینا۔ میں عنقریب تمہارے لئے یہ سارے آداب ایک رسالہ میں جمع کر دوںگا تاکہ تمہیں تلاش کرنے کی زحمت نہ ہو اور صرف عمل کرنے کی ذمہ داری باقی رہ جائے۔

ذکر خدا
فرزند! ہر وقت خدا کو یاد رکھنا۔ یادِ خدا سے دل کی زندگی، رب کا قرب، برکت کی زیادتی، ہلاکت سے نجات، شیطان سے دوری، رحمان سے قربت حاصل ہوتی ہے۔

معصوم علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ ہمارے شیعہ کی پہچان ہے کہ تنہائیوں میں برابر خدا کو یاد کرتا رہتا ہے اور جو بھی خدا کو یاد کرتا ہے خدا اسے دوست رکھتا ہے اور اسے نفاق اور جہنم دونوں سے محفوظ رکھتا ہے اور جنت میں جگہ دیتا ہے۔ اہل جنت کسی چیز پر نادم نہیں ہوں گے مگر اس لمحہ پر ضرور نادم ہوں گے جو یادِ خدا کے بغیر گزر گیا ہے کہ کاش اس لمحہ میں بھی یادِ خدا کی ہوتی تو درجات اور بلند ہو جاتے۔

فرزند! خبردار کوئی مجلس یادِ خدا سے خالی نہ رہے کہ امام علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ جس مجلس میں ہمارا اور خدا کا ذکر نہ ہو وہ صاحب مجلس کے لئے وبال اور حسرت بن جائے گی۔

یہ یاد رہے کہ یاد سے مراد فقط زبانی تذکرہ نہیں ہے بلکہ توجہ قلب ہے جس کا مقدمہ ذکر لسان میں ہوتا ہے۔ پروردگار عالم نے حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کو اسی بات پر خلیل بنا دیا کہ خدا کو بہت یاد کرتے تھے۔ ذکر قلب ذکر زبان سے ستر گنا زیادہ ثواب رکھتا ہے۔
استغفار

فرزند! سحر کے وقت استغفار کرو اور ہر صبح کو سو۱۰۰! مرتبہ

مَا شآئَ اللّٰہُ لاَ حَولَ وَ لاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ اَستَغفِرُ اللّٰہَ۔

دس مرتبہ

سُبحَانَ اللّٰہِ وَ الْحَمدُ لِلّٰہِ وَلَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکبَرُ کہا کرو۔

گھر سے نکلتے وقت عمامہ کا سرا لٹکادو اور یہ دعا پڑھو:

بِسمِ اللّٰہِ وَ بِاللّٰہِ اٰمَنتُ بِاللّٰہِ مَا شَآئَ اللّٰہُ لاَ حَولَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ تَوَکَّلتُ عَلَی اللّٰہِ۔کوئی بھی واقعہ دیکھو سوال کرنے کی کوشش نہ کرو۔ لقمان حکیم نے جناب داؤد کو زرہ بنا تے دیکھا تو ارادہ کیا کہ دریافت کریں پھر حکمت آڑے آگئی اور چپ ہوگئے۔ تھوڑی دیر میں جناب داؤد نے اسے مکمل کر کے پہن لیا اور پھر فرمایا کہ جنگ کے لئے بہترین زرہ ہے۔ لقمان نے کہا بیشک خاموشی ایک حکمت ہے مگر اس پر عمل کرنے والے بہت کم ہیں۔

فرزند! مستحبات کو خلوتوں میں انجام دو تاکہ ریاکاری کا امکان نہ رہے لوگوں کے سامنے لَآ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ کہتے رہو کہ یہ بہترین ذکر بھی ہے اور خاموشی سے ہو بھی سکتا ہے کہ اس کے تمام حروف ساکت ہیں اور اسی لئے اسے ذکرِ خفی قرار دیا گیا ہے اور اس کا فضل دیگر اذکار پر ستر گنا زیادہ ہوگا۔

فرزند! لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ لاَ حَولَ وَلاَ قُوَّۃَ اِلاَّ بِاللّٰہِ العَلِیِّ العَظِیمِ صَلَّی اللّٰہُ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ اٰلِہِ الطَّاہِرِین

کثرت سے کہا کرو کہ اس میں شیاطین کو بھگانے کی عجیب و غریب تاثیر پائی جاتی ہے۔

فرزند! معصومین کی جتنی دعائیں ہیں سب کی تلاوت کرو چاہے زندگی میں ایک ہی مرتبہ ہو اور ہر عمل پر عمل کرو چاہے ایک ہی بار ہو کہ ہر عمل کا ایک خاص اجر اور ہر دعا کی ایک خاص تاثیر ہے۔ تم اس اجر و اثر سے کیوں محروم رہ جاؤ۔ عبادتوں اور دعاؤں کا حساب پھلوں کا ہے کہ انسان جس باغ میں داخل ہوتا ہے اس کے ہر پھل کو چکھنا چاہتا ہے تو جب بستانِ عبادت میں داخل ہو تو اسے ہر عبادت اور ہر دعا کا ذائقہ محسوس کرنا چاہیئے۔

فرزند! روزانہ کسی نہ کسی مقدار میں قرآن ضرور پڑھو۔ بالخصوص سحر کے وقت تلاوت بھی کرو اور معانی پر غور بھی کرو تاکہ اس کے احکام پر عمل کر سکو۔ ائمہ معصومین کی تفسیر کا مطالعہ کرتے رہو تاکہ مشکلات قرآن حل ہوتے رہیں۔

فرزند! جہاں تک ممکن ہو باطہارت رہو۔ طہارت شیطان کے مقابلہ میں مومن کا اسلحہ ہے اس سے عذاب قبر دفع ہوتا ہے حاجت روائی ہوتی ہے۔ عمر میں زیادتی، رزق میں وسعت، جاہ و عزت میں اضافہ، بلندی رفعت و منزلت، صحت بدن، فرحت و نشاط اور حافظہ و ذہن حاصل ہوتا ہے۔ وضو نصف ایمان ہے۔

مومن جب تک باوضو رہے ثواب تعقیبات حاصل کرتا رہتا ہے

باطہارت مرنے والا شہید مرتا ہے

باوضو سونے والا تمام رات عبادت گزار شمار ہوتا ہے

باوضو بستر پر آنے والے کے لئے بستر مسجد کا مرتبہ رکھتا ہے۔مومن کی روح خواب کے عالم میں ملاء اعلیٰ کی سیر کرتی ہے تو اسے باطہارت رہنا چاہئے تاکہ وہاں رب سے ملاقات کرنے کے قابل ہو اور برکتیں حاصل کر سکے۔

فرزند! وسوسہ شیطانی کے وقت اعوذ باللہ پڑھو اسکے بعد کہو

’’اٰمَنتُ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہ مُخلِصًا لَہُ الدِّین۔‘‘

فرزند! فرائض کو اول وقت ادا کرو کہ یہ افضل بھی ہے اور برائتِ ذمہ کا بہترین ذریعہ بھی ہے اس سے بدن کو راحت رہتی ہے اور روح کو سکون رہتا ہے۔ روایت میں ہے کہ نماز سے پہلے کوئی عمل قبول نہیں ہوتا تو پہلے نماز ادا کرلو تاکہ ہر عمل قابل قبول ہوجائے اور رزق میں وسعت بھی ہو۔

نوافل کی پابندی
فرزند! دن و رات کے تمام نوافل ادا کر دو چا ہے مختصر طریقہ ہی پر کیوں نہ ہو۔ نوافل سے فرائض کی تکمیل ہوتی ہے اور تجربہ یہ کہتا ہے کہ نافلۂ شب سے وسعت رزق اور نافلۂ ظہرین سے توفیقات میں اضافہ ہوتا ہے۔

خبردار! نوافل کو اس لئے ترک نہ کرنا کہ مشغولیت زیادہ ہے۔ توافل مشغولیت کے مددگار ہیں منافی نہیں ہیں۔ علم عمل کا مقصد ہوتا ہے۔ علم کی خاطر عمل کا ترک کر دینا بے فائدہ ہے۔

فرزند! جہاں تک ممکن ہو فرائض کو جماعت کے ساتھ ادا کرو چاہے امام بنو یا ماموم کہ جماعت کا ثواب بے پناہ ہے وہ ضالع نہ ہونے پائے۔

(روایت میں ہے کہ جماعت میں ایک نفر کا ثواب ڈیڑھ سو گنا ہے پھر جیسے جیسے افراد بڑھتے جائیں گے ثواب دو گنا ہوتا جائے گا یہاں تک کہ جب مجمع اس سے بڑھ جائے گا تو ثواب بے حساب ہو جائے گا کہ انسان و جنات مل کر بھی حساب نہیں کر سکتے) جوادی۔

فرزند! نماز کے بعد تسبیح فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی پابندی کرو۔ اور سجدۂ شکر ضرور ادا کرو۔ کسی مصیبت میں مبتلا ہو تو سجدۂ شکر کی نیت سے پیشانی خاک پر رکھو اور وہ دعا پڑھو جو جبرئیل امین نے حضرت یوسف علیہ السلام کو تعلیم دی تھی جس کے بعد وہ قید سے رہا ہو گئے تھے اور کنوئیں سے باہر نکل آئے تھے۔ وہ دُعا یہ ہے:

اَللّٰهُمَّ اِنِّىْ اَسْئَلُكَ بِاَنَّ لَكَ الْحَمْدُ لَأ اِلٰهَ اِلاَّ اَنْتَ الْمَنَّانُ، بَدِيْعُ السَّمٰوَاتِ وَ الْاَرْضِ، ذُو الجَلاَلِ وَ الْاِكْرَام، اَنْ تُصَلِّىَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَ اٰلِ مُحَمَّدٍ، وَ اَنْ تَجْعَلَ لِىْ مِمَّا اَنَا فِيْهِ فَرَجًا وَ مَخْرَجًا، وَارْزُقْنِىْ مِنْ حَيْثُ اَحْتَسِبُ وَ مِنْ حَيْثُ لاَ اَحْتَسِبُ، اَسْئَلُكَ بِمَنِّكَ الْعَظِيْم وَ اِحْسَانِكَ الْقَدِيْمِ.

اس کے بعد دایاں رخسار زمین پر رکھے اور یہ دعا پڑھے:

اَللّٰهُمَّ اِنْ كَانَتْ ذُنُوْبِىْ قَدْ اَخْلَقَتْ وَجْهِىْ عِنْدَكَ فَلَنْ تَرْفَعَ لِىْ اِلَيْكَ صَوْتًا وَ لَنْ تَسْتَجِيْبَ لِىْ دَعْوَةً فَاِنِّىْ اَتَوَجَّهُ اِلَيْكَ بِنَبِيِّكَ نَبِىِّ الرَّحْمَةِ مُحَمَّدٍ وَ عَلِىٍّ وَّ فَاطِمَةَ وَ الْحَسَنِ وَ الْحُسَيْنِ وَ الْاَئِمَّةِ عَلَيْهِمُ السَّلاَمِ اِلاَّ مَا فَرَّجْتَ عَنِّىْ

اس کے بعد بایاں رخسار زمین پر رکھے اور یہ دعا پڑھے: جس کے پڑھنے سے جناب یعقوب علیہ السلام کی بصارت واپس آگئی اور ان کے فرزند سے ملاقات ہو گئی۔

يَا مَنْ لاَ يَعْلَمُ اَحَدٌ كَيْفَ هُوَ وَ حَيْثُ هُوَ وَ قُدْرَتُهُ اِلاَّ هُوَ، يَا مَنْ سَدَّ الْهَوَآءَ بِالسَّمَآءِ وَ كَبْسَ الْاَرْضَ عَلَى الْمَآءِ وَ اخْتَارَ لِنَفْسِه اَحْسَنَ الْاَسْمَآءِ اِئْتِنِىْ بِرُوْحٍ مِنْكَ وَ فَرِّجْ مِنْ عِنْدَكَ

فرزند! ہر مہینے کے پہلے اور آخری پنجشنبہ اور درمیانی چہار شنبہ کو روزہ رکھو کہ یہ تمام زندگی کے روزے کے برابر ہے۔فرزند! روزانہ کم از کم تین مرتبہ سورۂ قل ہو اللہ پڑ ھو کہ ایک قرآن ختم کرنے کے برابر ہے اور اسی لئے جناب سلمان نے اس بات پر ناز کیا تھا کہ میں تمام روز روزہ رکھتا ہوں تمام رات عبادت کرتا ہوں اور روزانہ ختم قرآن کرتا ہوں اور جب عمر نے اعتراض کیا تو سلمان نے کہا کہ میں ہر مہینے کے تین روزہ رکھ کے (دس گنا ثواب لیکر) اسے مہینے کے برابر بناتا ہوں۔ ہر رات با وضو سو کر شب بیداری کا ثواب لیتا ہوں اور روزانہ تین مرتبہ قل ہو اللہ پڑھ کر پورے قرآن کا ثواب لیتاہوں۔ اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے سلمان کے اس دعویٰ کی تصدیق فرما دی۔

فرزند! اگر مستحبی روزہ رکھ کر کسی مومن کے یہاں جاؤ اور وہ کھانے کے لئے کہے تو روزہ ا اظہار کئے بغیر کھا لو کہ اظہار سے اس کے اوپر ثواب افطار دینے کا احسان ہو جائے گا اور یہ شان مہمانی کے خلاف ہے۔ بغیر اظہار افطار کرینے میں پروردگار ایک سال کے روزے کا ثواب عنایت فرمائے گا۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1284763 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.