1876ء میں کراچی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی
پیدائش ہوئی۔اس وقت تک کراچی ایک ترقی یافتہ شہر کی صورت اختیار کر چکا
تھا۔اس ہی دور میں کراچی ادبی،تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بھی بن
رہا تھا۔پھر آبادی اور معیشت کے لحاظ سے کراچی ترقی کی سیڑھیاں چڑھتا
رہا۔۔۔1947 میں کراچی کو پاکستان کا دارالحکومت منتخب کیا گیا۔ مگر بعد میں
دارالحکومت کراچی سے راولپنڈی اور پھر اسلام آباد منتقل تو گیا لیکن کراچی
اب بھی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی و تجارتی مرکز ہے۔کراچی شہر کا
شمار دنیا کے بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ پورے پاکستان سے لوگ روزگار کی تلاش
میں کراچی آتے ہیں اس وجہ سے کراچی میں مختلف مذہب نسل اور زبان کے لوگ ہیں
یہی وجہ ہے کہ کراچی کو چھوٹا پاکستان بھی کہتے ہیں۔یوں تو کراچی کو بہت سے
مسائل کا سامنا ہے جو حل ہونے کو ہی نہیں آ رہے مگر ایک ایسا مسئلہ بھی ہے
جس سے مزید کئی مسائل جنم لے رہے ہیں۔وہ ہے کراچی میں صفائی کے ناقص
انتظامات۔مختلف قوموں کے پھول سمیٹے اس کراچی شہر کی خوشبو اور رنگ ماند
پڑنے لگے۔روشنیوں کا شہر کراچی اب اندھیروں کی نظر ہونے لگا ہے۔کراچی اپنی
جگمگاتی شناخت کھو کر کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔شہر میں پڑی
غلاظت،کچرے کے ڈھیر اور جگہ جگہ ابلتے گٹر بلدیاتی اداروں کی نااہلی کا منہ
بولتا ثبوت ہیں۔انکے ناقص سسٹم کی وجہ سے عوام کو مشکلات در مشکلات کا
سامنا ہے۔کراچی شہر کی سڑکوں پر دن بدن بڑھتے ہوئے کوڑا کرکٹ اور کچرے کے
ڈھیر سے اٹھتی غلیظ بدبو اور تعفن کراچی انتظامیہ کی کارکردگی کو سامنے
لاتی ہے۔ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی میں روزانہ بارہ ہزار ٹن کچرا
پیدا ہوتا ہے جس میں سے صرف چار ہزار ٹن ہی اٹھایا جاتا ہے اور باقی دوسرے
دن کے کچرے میں شامل ہو جاتا ہے۔کراچی راتوں رات کچرے کا ڈھیر نہیں بنا جس
پر حیران ہوا جائے۔حیرانگی تو اس بات پر ہے کہ پچھلے چند سالوں سے اس مسئلہ
کی طرف صوبائی حکومتوں کی توجہ نہیں رہی۔سابق وزیرِ اعلیٰ سندھ قائم علی
شاہ کے زمانے سے اس مسئلے کی شروعات ہوئی۔اور اب یہ حال ہے کہ اس گندگی
وغلاظت کی وجہ سے شہری مرنے لگے۔کراچی شہر کی سڑکوں پر جگہ جگہ گندگی کے یہ
منہ چڑاتے ڈھیر عوام میں بیماریوں کا سبب بھی بننے لگے۔شہر کے ناصرف گلی
کوچوں بلکہ بڑی شاہراہوں پر غلاظت کے ڈھیر سے اٹھتا تعفن شہریوں کی زندگی
اجیرن کر رہا ہے۔شہری چکن گونیا،نمونیا اور دیگر وائرل بیماریوں کا شکار ہو
رہے ہیں۔شہر کا آلودہ ماحول شہریوں کی صحت کے لیے خطرہ بنتا جا رہا
ہے۔کراچی شہر میں جگہ جگہ سیوریج کا پانی اور ابلتے گٹر بھی وبائی امراض کا
باعث ہیں ماہرین طب کے مطابق ڈینگی اور چکن گونیا پانی میں افزائش پانے
والے مچھروں کی وجہ سے پھیلتا ہے۔شہری پریشان ہیں کہ سانس لیں تو بدبو۔ نظر
اٹھائیں تو کچرے کا ڈھیر،پانی پیئیں تو فضلا ملا مضرِ صحت پانی۔کھائیں تو
سیوریج کے پانی سے اگائی گئی سبزیاں۔۔۔آخر کو جائیں تو جائیں کہاں؟ کس سے
مدد مانگیں؟ کوئی پرسانِ حال نہیں کراچی والوں کا۔ شہر میں صفائی ستھرائی
کی ابتر صورتحال یہی رہی تو شہر میں وبائی امراض پر قابو پانا مشکل ہو جائے
گا۔مگر ہر بار بلدیاتی اداروں اور حکومت کی جانب سے کبھی کوئی سنجیدہ
اقدامات سامنے نہیں آتے۔شہریوں اور سماجی تنظیموں نے اپنی مدد آپ کے تحت
شہر کو صاف کرنے کی مہم بھی چلائی۔مگر عوام ہی کیوں پستی ہے ہر دفعہ؟کراچی
شہر میں سیاسی پارٹیوں کے مابین کھینچا تانی کا کھیل بڑے زوروں سے جاری ہے
کیوں کوئی اس مسئلہ کو لے کر سنجیدہ دکھائی نہیں دیتا؟جبکہ عوام کا یہاں
سانس لینا دوبھر ہے۔عوام کی خدمت کے لیے بیٹھے عوام کے منتخب کردہ حکمران
عوام کے سامنے خاموش کیوں ہیں؟کیوں انکے پاس جواب نہیں کہ کراچی کی سڑکیں
آخر دوبارہ کب خوشحال بنیں گی؟ووٹ لے کر کرسی بٹورنے کے چکر میں عوام کو
میٹھے وعدوں کا بدبودار مکھن لگایا جاتا( بدبودار اس لیے کہ شاید عوام کو
لگانے کے لیے انکے پاس اصلی مکھن بھی نہیں) مگر جب اقتدار ہاتھ آجائے تو
رنگ اور نظر دونوں بدل جاتے ہیں۔جب کسی غریب کا بچہ ڈینگی سے مر رہا ہوتا
ہے۔ جب کسی بیوہ کا گھر ابلتے گٹر کے بہتے پانی کی نظر ہوتا ہے۔جب کسی یتیم
بچی کے جہیز کا سامان گھروں میں داخل بارش کے پانی کی وجہ سے پھول جاتا ہے۔
جب کوئی شہری بارش میں کرنٹ لگنے کے باعث پیچھے اہلِ خانہ کو بے سہارا چھوڑ
جاتا ہے۔جب کوئی ماں اپنے بچے کو بھرے ہوئے نالے میں ڈوبتا دیکھ کر بے بسی
کے عالم میں مدد کے لیے پکارتی ہے۔ان نالوں میں اب تک کئی لوگ ڈوب کر مر
کھپ گئے تب کہاں ہوتے ہیں اعلیٰ اقتدار والے؟اونچی کرسی والے؟بھاری
تنخواہوں والے؟صوبائی حکومت؟شہری حکومت؟سب کہاں ہوتے ہیں جب عوام کو آپکی
ضرورت ہوتی ہے؟
سینکڑوں میٹنگز بھی ہوتی ہیں۔ کاغذی کاروائیاں بھی کی جاتی ہیں تاہم حکومت
کی طرف سے کوئی عملی کام ہوتا نظر نہیں آتا۔ جب سوال کیا جاتا ہے تو جواب
میں فنڈز، وسائل، تنخواہوں کا نا ملنا اور کئی مسائل بتا کر سرخروئی اختیار
کی جاتی ہے۔ جس طرح ہر تصویر کے دو رخ ہوتے ہیں اسطرح مسائل کے بھی کئی
پہلو ہوتے ہیں۔کراچی کی عوام ہر طرف صفائی تو چاہتی ہے مگر اپنے گلی محلوں
میں،سڑکوں میں رہائشی علاقوں کی خالی زمینوں پر کچرا الٹ دیتی ہے۔جہاں سے
صفائی کردی گئی ہو وہاں دوبارہ کچرے کا ڈھیر نظر آنے لگتا ہے۔عوام کو بھی
اس معاملے میں باشعور ہونے کی سخت ضرورت ہے۔کچرا، حکومت کی طرف سے بنائی
کچرا کنڈی میں ڈالیں۔جہاں حکومت کی ذمے داریاں ہیں وہاں عوام کو بھی آگے
بڑھ کر اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔اس معاملے پر شہریوں کا کہنا ہے کہ
کچرا اٹھانے والے آئے دن غائب رہتے ہیں۔جسکی بڑی وجہ انکو تنخواہوں اور
فنڈز کا نہ ملنا ہے۔۔۔۔اب کچرا گھروں میں تو رکھنے سے رہے کہیں تو ڈالنا
ہے۔بعض مقامات پر شہری یہ بھی شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ کچرا جلا دیا جاتا
ہے جس سے لوگوں میں سانس کی مختلف بیماریاں پیدا ہو رہی ہیں۔۔۔ حالیہ عدالت
کے فیصلے نے عوام میں اس مسئلہ پر بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا کیا ہے۔کوئی تو ہے جو
عوام کے حق میں ہے۔سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں نالے کی صفائی اور حدود کے
تعین سے متعلق کے ایم سی کی درخواست کی سماعت ہوئی۔جس میں اصل ماسٹر پلان
پیش نہ کیے جانے پر عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سینئر ڈائریکٹر
ماسٹر پلان محمد سرفراز خان سے جواب مانگا کہ آپ کراچی کے ساتھ کر کیا رہے
ہیں، شہریوں کے لئے سانس لینے کی بھی جگہ نہیں چھوڑی۔ جسٹس گلزار احمد نے
ریمارکس دیتے ہوئےکہا کراچی کو کیا اب شہر کہلانے کا لائق چھوڑا ہے۔عدالت
نے ریمارکس میں یہ بھی کہا کہ یہاں سے آپ کو سیدھا جیل بھیج دیتے ہیں، کیا
اس لیے آپ کو مراعات اور تنخواہیں ملتی ہیں، ٗزرا سی بارش نے شہر کو ڈبو
دیا مگر کسی نے کچھ سیکھا نہیں۔ جسٹس گلزار احمد کا کہنا تھا کہ شہر کو ان
اداروں کے حوالے نہیں کرسکتے، شارع فیصل سمیت کوئی سڑک سفر کرنے کے قابل
نہیں جب کہ شہر کے گٹر اب بھی ابل رہے ہیں،شہر کو تباہ کردیا گیا اور نالے
بند پڑے ہیں جب کہ اب نالوں پر تجاوزات قائم کرکے شہر کو مکمل ڈبونے کا
پلان کیا جا رہا ہے،عدالت نے کراچی کا اصل ماسٹر پلان طلب کرتے ہوئے نالے
کی اراضی پر قائم ہر قسم کی تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا ہے۔ یہ کوئی پہلی
دفعہ نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کو سخت بولنا پڑا۔ پینے کے پانی کا مسئلہ ہی
اٹھا لیں۔ ابھی کچھ ہی عرصہ ہی کی تو بات ہے جب سپریم کورٹ کراچی رجسٹری
میں آلودہ پانی کے کیس کی سماعت ہوئی۔ واٹر کمیشن نے سپریم کورٹ رجسٹری میں
رپورٹ جمع کروائی تو سپریم کورٹ رجسٹری میں پیش کردہ واٹر کمیشن رپورٹ میں
دل دہلا دینے والے انکشافات ہوئے۔رپورٹ میں کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہروں
میں85 فیصد آبادی کو گندا اور مضر صحت پانی پلانے کے خطرناک حقائق سامنے
آئے۔کاشت کاری میں بھی گندا پانی استعمال کیا جارہا ہے۔دوران سماعت عدالت
نے ریمارکس دیئے کہ شرم کی بات ہے نیوکلیئر پاور ہیں اور آلودہ پانی صاف
کرنے کا حل نہیں نکال سکتے۔ سپریم کورٹ کا ہر حکم اور خدمت واقعی قابلِ
ستائیش ہے۔۔۔۔ ہم زندہ دل پاکستانی۔۔۔ ایک ایسی قوم ہیں جو مضر صحت پانی پی
کر ، سیوریج کے پانی سے اگائی سبزیاں کھا کر ،آلودہ ماحول میں سانس لے کر
کے بھی ملک کی ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن رہنا چاہتے ہیں۔ مگر سوال یہ
اٹھتا ہے کہ صوبائی اور شہری حکومتیں صوبہ سندھ اور کراچی شہر کی خوشحالی
کے لیے کیا اقدامات اٹھا رہی ہے؟؟؟عوام اب مزید حکومتی ناحق زیادتیاں
برداشت نہیں کریں گے۔۔۔۔کراچی شہر کے رہائشی علاقوں میں بنیادی سہولیات کی
فراہمی اور صفائی کے بہتر انتظامات کو ہر ممکن طریقے سے یقینی بنایا جائے
اور سخت ضرورت ہے کہ تمام ادارے جو لمبی تان کر سو رہے ہیں اب جاگ جائیں
ملک وشہر کی بہتری کے لیے کام کریں ورنہ۔۔۔۔۔عوام کی آواز کو دبایا نہیں جا
سکتا ہمیشہ کی طرح۔۔۔عوام تو آواز اٹھاتی رہے گی۔۔۔۔
|