کسان کسی بھی ملک کی زراعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت
رکھتے ہیں انھیں لوگوں کی بدولت پورے ملک کے عوام مختلف اجناس کھاتے ہیں
پاکستان میں ہر دور میں کسانوں پر ظلم و ستم ہوتا آیا ہے کھبی ان کی زمینوں
کو ان سے چھین لیا گیاکھبی ان کو پانی اور کھبی بیج کے لئے ذلیل وخوار کیا
گیااور کھبی ان کو اپنے حقوق مانگنے کے لئے جیلوں میں ڈال دیا گیا پاکستان
میں زراعت وہ شعبہ ہے جس سے ملک کی ستر فیصد آبادی ڈائریکٹ یا انڈائریکٹ
منسلک ہے اسی شعبے سے ملک کی صنعتوں کے لئے خام مال نکلتا ہے اور یہی شعبہ
اجناس پیدا کر کے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے مگر بد قسمتی سے
ہر بار بجٹ میں خوشنماء نعرے اور وعدے کر کے کسانوں کو خاموش کرا دیا جاتا
رہا ہے کئی مواقع پر جب کسانوں نے اختجاج کیا تو انھیں مختلف اذیتیں دی گئی۔
اسی طرح حالیہ چند سالوں میں دیکھا گیا کہ کسانوں سے انکی زمین لیکر انھیں
ہاؤسنگ سو سائیٹوں میں تبدیل کر دیا گیااور اس سارے عمل میں نقصان صرف کسان
کایا پاکستان کا ہی ہوا ہے ہر صوبہ کسانوں کو مراعات دینے کی بات تو کرتا
ہے مگر عملی طور پر اگر دیکھا جائے تو تمام ہی صوبے کسانوں سے کیے گئے وعدے
پورے کرنے میں ڈنڈی مارتے نظر آتے ہیں یہی حال وفاق کا ہے جو اپنے طو ر پر
عملی اقدامات کی بات تو کرتا ہے مگر جب بات کسانوں کی سہولت کی آتی ہے تو
یہ بات صوبوں پر ڈال کر گلو خلاصی کرا لی جاتی ہے ہر بار حریف کی فصل سے
پہلے کسانوں سے عدوے کیے جاتے ہیں اور بے چارے کسان بھی بہت سے توقعات
وابستہ کر کے فصل اگاتے ہیں اور حکومت سے بہت سی توقعات وابستہ کرتے ہیں ان
میں سے بیشتر تو پوری نہ ہو سکتی کیونکہ اس وقت حکومت کو صرف اور صرف
پانامہ نظر آ رہا ہے اس کے سواء اس کی ترجیحات میں کوئی دوسرا ایجنڈا نہیں
ہے۔ پنجاب جو کہ زرعی اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ ہے وہاں پر کسانوں کی حالت
زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے موجودہ وزیر اعلیٰ کو یہاں حکومت کرتے ہوئے
کئی سال ہو چکے ہیں وہ ہر بار وہ کسانوں کی جنگ لڑنے کی بات کرتے ہیں اب یہ
جنگ کیسی جنگ ہے جو ان سے اتنا عرصہ ہونے کو ہے جیتی نہیں جا سکی اس حوالے
سے اب کسانوں کی انکھیں کھل چکی ہیں بار با رایک ہی شخص کے ہاتھوں بے وقوف
بن کر وہ بھی جان چکے ہیں کہ ان کے حقوق بحال ہونے والے نہیں اس وقت پورے
ملک میں کسان طبقہ وہ واحد طبقہ ہے جو یہاں روٹی کی ضروریات کو پوری کرنے
کے لئے اپنے وسائل کو خرچ کر رہا ہے اور اس کے بدلے میں اسے بہت معمولی سا
منافع ملتا ہے جس سے اس کے گھر کا خرچ چلنا بھی مشکل ہے پوری دنیا میں
کسانوں کو خصوصی سبسڈیاں دی جاتی ہیں آسان شرائط پر قرضے دیے جاتے ہیں ان
کے لئے صحت ،تعلیم ،فصلوں سے اگاہی اور دیگر تما م تر سہولیات دستیاب ہوتے
ہیں مگر ہمارے ہاں یہ صرف اشتہارات کی حد تک ہی نظر آتا ہے یہاں جو بھی
پالیسیاں بنتی ہیں وہ کچھ مخصوص ٹولے کو نوازنے کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہوتی
یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی منصوبہ فلاپ ہوتاہے تو اس کے پیچھے کئی کئی میگا
کرپشن سکینڈل سامنے آتے ہیں جن سے بعد ازاں پتا چلتا ہے کہ اربوں کھربوں
ڈکار لئے گے ہیں دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ کسانوں کو سہولیات کی کمی سے لوگ
اپنی زمینیں فروخت کر کے شہروں کا رخ کر رہے ہیں جس سے شہروں میں آبادی
بڑھنے سے بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں خصوصاً بنیادی سہولتوں میں کمی واقع
ہو جاتی ہے اگر دیہی علاقوں میں زرعی صنعتوں کو لگایا جائے تو دیہی عوام کو
ان کے علاقوں کے قریب روزگار ملے گا اور وہ شہروں کا رخ نہیں کریں گے۔ زرعی
زمینوں پر کاروباری مارکیٹیں قائم کرنے یا انہیں ہاؤسنگ سوسائٹیز کے لئے
استعمال کرنے کی وجہ سے زرعی رقبہ متاثر ہو رہا ہے اس سلسلے کو سختی سے
روکنے کی ضرورت ہے زرعی رقبے کو محض زرعی مقاصد کے لئے ہی استعمال میں لایا
جانا چاہیے۔
عموما حکومت کی توجہ عام طور پر اہم اجناس یعنی گندم' چاول اور کماد کی
جانب مرکوز رہتی ہے مختلف اقسام کی دالوں اور چنے کی زیادہ پیداوار کی جانب
توجہ نہیں دی جاتی حکومت کو چاہیے کہ کاشتکاروں کو دالوں اور چنے کی
پیداوار میں اضافہ کی بھی ترغیب دے زیادہ پیداوار کے باعث ان کی قیمتوں میں
کمی آئے گی جو اس وقت عام آدمی کی بمشکل دسترس میں ہیں دالوں اور چنے کی
برآمد سے زرمبادلہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے -
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت جو مراعات کسانوں کو دینا چاہتی ے ان پر چیک
اینڈ بیلنس کا ایسا نظام قائم کرئے جس سے یہ واضح ہو سکے کہ کسانوں کی دی
جانے والی مراعات ان تک پہنچتی بھی ہیں یا راستے میں ہی ہڑپ کر لی جاتی ہیں
کیونکہ اگر کسان اپنے حقوق کے لئے آئے دن دھرنے اور ہڑتالیں کر رہیں تو اس
کا مطلب ہے کہ ان کو جو مراعات دینے کی باتیں کی جا رہی ہیں وہ یا تو ان تک
پہنچ ہی نہیں رہی یا پھر وہ وعدے صرف فائلوں کی حد تک ہیں اس لئے ضروری ہے
کہ ایک ایسی ٹاسک فورس تشکیل دی جائے جو ان تمام باتوں پر نظر رکھے اور
ایسے اقدامات اٹھائے جن سے کسانوں کے حالات کو بہتر بنایا جا سکے- |