خلیفہ سوئم سیدنا حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ

آپ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ ہیں۔ آپ کا نام عثمان تھا اور آپ کے والد کا نام عفان بن ابی العاص تھا۔ پانچویں پشت میں آپ کا سلسلہ نسبِ حضور اکرم کے نسب سے جا ملتا ہے۔ آپ عام الفیل کے چھ سال بعد پیدا ہوئے۔ آپ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے تقریباً 4 سال چھوٹے تھے۔ آپ کا لقب ذوالنورین (دو نور والے) ہے۔

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں۔ اس طرح آپ کو حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے داماد ہونے کا شرف حاصل ہوا اور یہ ایسا شرف ہے جو آپ کے علاوہ کسی اور کو حاصل نہیں ہوا۔ علماء فرماتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر آخری نبی حضرت محمد تک کسی کے نکاح میں نبی کی دو بیٹیاں نہیں آئیں سوائے حضرت عثمان رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے اس طرح آپ ذوالنورین ہوئے۔

آپ نے اسلام قبول کرنے کے بعد بہت تکالیف اٹھائیں۔ آپ نے پہلے حبشہ پھر مدینہ منورہ ہجرت فرمائی۔ آپ کو اللہ تعالٰی نے بہت دولتمند بنایا تھا اور اپنی دولت سے آپ نے اسلام کی ترویج و اشاعت میں بہت مدد کی۔ جب آپ نے تین سو اونٹ مع ساز و سامان کے راہ خدا میں خرچ کئے تو اس موقع پر حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اب عثمان کو وہ عمل کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا جو اس کے بعد کریں گے۔ (مشکوٰۃ)

یعنی حضرت عثمان رض کا یہ ایسا عمل ہے کہ اب کوئی نفلی عمل نہ بھی کریں تب بھی ان کے بلند مرتبے کیلئے یہ عمل کافی ہے۔

جب حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مکہ معظمہ سے ہجرت فرما کر مدینہ منورہ آئے تو وہاں پینے کا میٹھا پانی نہیں تھا۔ صرف ایک یہودی کا کنواں تھا جو مدینہ سے تقریباً 4 کلو میٹر کے فاصلے پر وادی عقیق میں تھا۔ یہودی اس کنویں کے پانی کو فروخت کیا کرتا تھا۔ مسلمانوں کو پانی کی بڑی تکلیف تھی۔ چنانچہ حضرت عثمان رض نے وہ کنواں بیس ہزار درہم میں یہودی سے خرید کر مسلمانوں کیلئے وقف کر دیا۔

ایک مرتبہ جب حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم مقام حدیبیہ میں پہنچے تو اس وقت آپ نے حضرت عثمان غنی کو قاصد کی حیثیت سے مکہ روانہ کیا تاکہ آپ کفار مکہ سے بات کریں کہ مسلمان خان کعبہ کی زیارت کرنا چاہتے ہیں اس کے علاوہ کوئی دوسرا مقصد نہیں۔

جب حضرت عثمان غنی رض مکہ چلے گئے تو یہ مشہور ہوا کہ مکہ والوں نے حضرت عثمان غنی کو شہید کر دیا ہے۔ چنانچہ ان کی غیر موجودگی میں بیعت رضوان کا واقعہ پیش آیا جس کا ذکر قرآن مجید میں موجود ہے۔ صحابہ کرام نے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ جب تمام صحابہ بیعت کر چکے تو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عثمان اللہ اور اس کے رسول کے کام سے گئے ہوئے ہیں پھر اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھا اور حضرت عثمان رض کی طرف سے بیعت فرمائی۔ یعنی فرمایا یہ عثمان کا ہاتھ ہے۔ پھر ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر مار کر فرمایا یہ عثمان کی بیعت ہے۔ (ترمذی شریف)

شیخ عبدالحق محدث دہلوی ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے مبارک ہاتھ کو حضرت عثمان غنی کا ہاتھ قرار دیا۔ یہ وہ شرف ہے جو حضرت عثمان غنی رض کے سوا کسی دوسرے صحابہ کو حاصل نہیں۔

حضرت ابو موسٰی اشعری فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضور کے ہمراہ ایک باغ میں تھا کہ ایک صاحب آئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس باغ کا دروازہ کھلوایا۔ تو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ دروازہ کھول دو اور آنے والے کو جنت کی بشارت دو میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ وہ حضرت ابو بکر صدیق رض ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ایک صاحب آئے اور انہوں نے دروازہ کھلوایا۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا۔ ان کیلئے بھی دروازہ کھول دو اور ان کو بھی جنت کی بشارت دو۔ میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ وہ حضرت عمر فاروق رض ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر ایک تیسرے صاحب نے دروازہ کھلوایا تو نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا آنے والے کیلئے دروازہ کھول دو اور ان مصیبتوں پر جو اس شخص کو پہنچیں گی جنت کی خوشخبری دو۔ حضرت موسٰی اشعری فرماتے ہیں کہ میں نے دروازہ کھولا تو دیکھا آنے والے شخص حضرت عثمان غنی رض ہیں۔ (ملاحظہ کیجئے بخاری و مسلم شریف)

سبحان اللہ کیا مقام و مرتبہ ہے صحابہ کرام کا کہ حضور اکرم نے حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان غنی رضی اﷲ تعالیٰ عنہما کو دنیا ہی میں جنتی ارشاد فرما دیا۔

حضرت عثمان غنی رض کی شہادت کی پیش گوئیاں
ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو بکر صدیق رض، اور حضرت عمر فاروق رض اور حضرت عثمان غنی رض کے ہمراہ احد پہاڑ پر تشریف لے گئے یکایک پہاڑ تھر تھر ہلنے لگا تو حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اے احد (پہاڑ) تو ٹھہر جا کہ تیرے اوپر صرف ایک نبی یا صدیق یا دو شہید ہیں۔ (ملاحظہ کیجئے تفسیر معالم التنزیل صفحہ 216 جلد6)

اس حدیث مبارکہ میں دو شہید سے مراد سیدنا حضرت عمر فاروق رض اور سیدنا حضرت عثمان غنی رض ہیں۔ ایک مرتبہ مستقبل میں فتنے برپا ہونے کا حضور نے ذکر فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ “یہ شخص اس فتنے میں ظلم سے قتل کیا جائے گا۔ یہ کہتے ہوئے آپ نے حضرت عثمان غنی رض کی طرف اشارہ فرمایا۔ (ترمذی شریف)

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ اور آئندہ مہینوں کا ذکر فرمایا کہ اتنے میں ایک شخص سر پر کپڑا ڈالے وہاں سے گزرا تو حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ شخص اس روز ہدایت پر ہوگا۔ ایک صحابی اٹھے اور اس شخص کو دیکھا تو وہ حضرت عثمان غنی رض تھے۔ (ترمذی ابن ماجہ)

ان تمام دلائل سے یہ واضح ہوا کہ حضرت عثمان غنی رض کے شہید ہونے کی خبر حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے ہی دے دی اور یہ بھی ثابت ہوا کہ آپ شہادت کے موقع پر بھی حق پر ہوں گے۔
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1284711 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.