عن البراء بن عازب، قال : أقبلنا
مع رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم في حجته التي حج، فنزل في بعض الطريق،
فأمر الصلاة جامعة، فأخذ بيد علي رضي الله عنه، فقال : ألستُ أولي
بالمؤمنين من أنفسهم؟ قالوا : بلي، قال : ألستُ أولي بکل مؤمن من نفسه؟
قالوا : بلي، قال : فهذا ولي من أنا مولاه، اللهم! والِ من والاه، اللهم!
عاد من عاداه.
براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے ساتھ حج ادا کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستے میں
ایک جگہ قیام فرمایا اور نماز باجماعت (قائم کرنے) کا حکم دیا، اس کے بعد
حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’کیا میں مؤمنین کی جانوں
سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘ اُنہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا میں ہر مومن کی جان سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘
انہوں نے جواب دیا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
’’پس یہ اُس کا ولی ہے جس کا میں مولا ہوں۔ اے اللہ! جو اسے دوست رکھے اُسے
تو دوست رکھ (اور) جو اس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔‘‘ابن ماجه،
السنن، 1 : 88، المقدمه، رقم : 116
ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 167، ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 :
168حسام الدين هندي، کنزالعمال، 11 : 602، رقم : 32904
ابن ابی عاصم نے ’کتاب السنہ (ص : 603، رقم : 1362)‘ براء بن عازب سے روایت
ہے ہم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سفر پر تھے، (راستے میں)
ہم نے غدیر خم میں قیام کیا۔ وہاں ندا دی گئی کہ نماز کھڑی ہو گئی ہے اور
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دو درختوں کے نیچے صفائی کی گئی،
پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازِ ظہر ادا کی اور حضرت علی رضی اللہ
عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا : ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں مومنوں کی
جانوں سے بھی قریب تر ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں ہر مومن کی جان سے
بھی قریب تر ہوں؟‘‘ انہوں نے کہا : کیوں نہیں! راوی کہتا ہے کہ پھر آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :
’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے۔ اے اللہ! اُسے تو دوست رکھ جو
اِسے (علی کو) دوست رکھے اور اُس سے عداوت رکھ جو اِس سے عداوت رکھے۔‘‘
راوی کہتا ہے کہ اس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ
سے ملاقات کی اور اُن سے کہا : ’’اے ابن ابی طالب! مبارک ہو، آپ صبح و شام
(یعنی ہمیشہ کے لئے) ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے۔‘‘
احمد بن حنبل نے ’المسند (4 : 281)‘ محب طبري، الرياض النضره في مناقب
العشره، 3 : 126، 127’فیض القدیر (6 : 217محب طبري، ذخائر العقبي في مناقب
ذوي القربي : 125ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 167، 168
ابن ابي شيبه، المصنف، 12 : 78، رقم : 12167
حسام الدين هندي، کنز العمال، 13 : 133، 134، رقم : 36420
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم حجۃ الوداع سے واپس تشریف لائے تو غدیر خم پر قیام فرمایا۔ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا اور وہ لگا دیئے گئے پھر
فرمایا : ’’مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا آنے کو ہے، جسے
میں قبول کر لوں گا۔ تحقیق میں تمہارے درمیان دو اہم چیزیں چھوڑ کر جارہا
ہوں، جو ایک دوسرے سے بڑھ کر اہمیت کی حامل ہیں : ایک اللہ کی کتاب اور
دوسری میری آل۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ میرے بعد تم ان دونوں کے ساتھ کیا سلوک
کرتے ہو اور وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی، یہاں تک کہ حوضِ (کوثر) پر
میرے سامنے آئیں گی۔‘‘ پھر فرمایا : ’’بے شک اللہ میرا مولا ہے اور میں ہر
مؤمن کا مولا ہوں۔‘‘ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :
’’جس کا میں مولا ہوں، اُس کا یہ ولی ہے، اے اللہ! جو اِسے (علی کو) دوست
رکھے اُسے تو دوست رکھ اور جو اِس سے عداوت رکھے اُس سے تو عداوت رکھ۔‘‘
’المعتصر من المختصر من مشکل الآثار (2 : 301)’السنہ (ص : 644، رقم :
1555)‘ ابن ابی عاصم حاکم، المستدرک، 3 : 109، رقم : 4576طبراني، المعجم
الکبير، 5 : 166، رقم : 4969
نسائی ’خصائص امیر المؤمنین علی بن ابی طالب (ص : 84، 85، رقم : 76)‘
نسائي، السنن الکبري، 5 : 45، 130، رقم : 8148، 8464
ابن واثلہ سے روایت کہ اُنہوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسولِ
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ اور مدینہ کے درمیان پانچ بڑے گھنے
درختوں کے قریب پڑاؤ کیا اور لوگوں نے درختوں کے نیچے صفائی کی اور آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ دیر آرام فرمایا۔ نماز ادا فرمائی، پھر خطاب
فرمانے کیلئے کھڑے ہوئے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان فرمائی اور وعظ و
نصیحت فرمائی، پھر جو اللہ تعالیٰ نے چاہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اے لوگو! میں تمہارے
درمیان دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، جب تک تم ان کی پیروی کرو گے کبھی
گمراہ نہیں ہوگے اور وہ (دو چیزیں) اللہ کی کتاب اور میرے اہلِ بیت / اولاد
ہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا : ’’کیا تمہیں علم نہیں کہ میں مؤمنین کی جانوں سے
قریب تر ہوں؟‘‘ ایسا تین مرتبہ فرمایا۔ سب نے کہا : ہاں! پھر آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے حاکم،
المستدرک، 3 : 109، 110، رقم : 4577
ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 168
ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 45 : 164
حسام الدين هندي، کنز العمال، 1 : 381، رقم : 1657
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تین خصلتیں ایسی بتائی ہیں کہ اگر
میں اُن میں سے ایک کا بھی حامل ہوتا تو وہ مجھے سُرخ اُونٹوں سے زیادہ
محبوب ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ایک موقع پر) ارشاد فرمایا :
’’علی میری جگہ پر اسی طرح ہیں جیسے ہارون موسیٰ کی جگہ پر تھے، مگر میرے
بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اور فرمایا : ’’میں آج اس شخص کو علم عطا کروں گا جو
اللہ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت
کرتے ہیں۔‘‘ (راوی کہتے ہیں کہ) میں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
(اس موقع پر) یہ فرماتے ہوئے بھی سنا : ’’جس کا میں مولا ہوں اُس کا علی
مولا ہے
نسائي، خصائص امير المومنين علي بن ابي طالب رضي الله عنه : 33، 34، 88،
رقم : 10، 80
’تاریخ دمشق الکبیر (45 : 88)ابن عساکر’کنز العمال (15 : 163، رقم :
36496)‘’المسند (1 : 165، 166، رقم : 106)‘زید بن ارقم رضی اللہ عنہ روایت
کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نکلے یہاں تک کہ
غدیر خم پہنچ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائبان لگانے کا حکم دیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس دن تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے اور وہ دن بہت
گرم تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی اور
فرمایا : ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جتنے نبی بھیجے ہر نبی نے اپنے سے پہلے
نبی سے نصف زندگی پائی، اور مجھے لگتا ہے کہ عنقریب مجھے (وصال کا) بلاوا
آنے کو ہے جسے میں قبول کر لوں گا۔ میں تمہارے اندر وہ چیز چھوڑے جا رہا
ہوں کہ اُس کے ہوتے ہوئے تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے، وہ کتاب اﷲ ہے۔‘‘ پھر
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ
تھام لیا اور فرمایا : ’’اے لوگو! کون ہے جو تمہاری جانوں سے زیادہ قریب
ہے؟‘‘ سب نے کہا : اللہ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر
جانتے ہیں۔ (پھر) فرمایا : ’’کیا میں تمہاری جانوں سے قریب تر نہیں ہوں؟‘‘
اُنہوں نے کہا : کیوں نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’جس
کا میں مولا ہوں اُس کا علی مولا ہے کنزالعمال، 11 : 602، رقم : 32904
حاکم، المستدرک، 3 : 533، رقم :
6272طبراني، المعجم الکبير، 5 : 171، 172، رقم : 4986 |