قارئین محترم! میرا کالم پڑھنے سے قبل اس کے ساتھ لف
تصاویر غور سے دیکھیں۔ یہ تصاویر میونسپل کمیٹی چکوال کے دفتر کے باہر کی
ہیں۔ دفتر کے ساتھ اور اس کے بالکل سامنے کس طرح کی صورت حال ہے آپ خود
اندازہ کر سکتے ہیں۔ تحصیل میونسپل کمیٹی کا کام تجاوزات کو ہٹانا، صفائی
کا اعلیٰ معیار قائم کرنا، غیر ضروری ٹھیے اور ریڑھیاں وغیرہ ہٹانا ہوتا ہے
مگر یہاں تو اس کے برعکس اُلٹی گنگا بہہ رہی ہے جن کا کام تھا عوام کو
سہولیات اور آسانیاں فراہم کرنا، اُن کے دفتر کے پاس تجاوزات کی بھرمار نظر
آرہی ہے۔ اس وقت حالت یہ ہو چکی ہے کہ چکوال کے فٹ پاتھ اور سڑکیں بازار کا
منظر پیش کر رہی ہیں۔ ہر طرف ریڑھیاں اور ٹھیے نظر آرہے ہیں۔ چکوال کے
شہریوں کے لئے گذرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ جس طرف جائیں عجب طوفانِ بدتمیزی
نظر آرہا ہے۔ خواتین کے لئے بازار کا رُخ کرنا مشکل بنا دیا گیا ہے۔ یہ بات
سمجھ سے بالاتر ہے کہ میونسپل کمیٹی کے دفتر کے پاس اور گورنمنٹ پوسٹ
گریجویٹ کالج کی دیوار کے ساتھ اتنی آزادی کس نے دے رکھی ہے اور اگر کسی
اہلکار نے ’’مٹھی گرم‘‘ کی ہے تو اُس کا کسی نے نوٹس کیونکر نہیں لیا۔ اس
وقت تحصیل میونسپل کمیٹی چکوال کے چیئرمین چوہدری سجاد احمد خان ہیں جو کہ
میرے دوست بھی ہیں اور انتہائی مخلص اور کھرے انسان ہیں اور یقینا اس سے
قبل انہوں نے چھپڑ بازار میں بے ہنگم رش اور تجاوزات کو کنٹرول کرنے کے لئے
انتہائی احسن اقدامات کئے۔ اب یقینا اُن کو اس حوالے سے بھی سخت نوٹس لینا
چاہئے۔ سارا شہر تجاوزات سے بھر چکا ہے۔ عجب مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں۔
پہلے تو اس شہر میں ضرورت سے زیادہ کئی گنا رکشے چل رہے ہیں۔ اب تو جس طرف
دیکھیں آپ کو ریڑھیاں اور ٹھیے نظر آئیں گے۔ ہر دیوار اور ہر فٹ پاتھ پر آپ
کو گرم کپڑوں والے ٹیکس فری کاروبار کرتے نظر آئیں گے۔ یہ بات سمجھ سے
بالاتر ہے کہ یہاں لوگ دکان میں بیٹھ کر کاروبار کیوں نہیں کرتے۔ چند گز کی
دکان لیتے ہیں اور کئی گز پر قبضہ کر کے سامان باہر سڑک پر رکھ کر بیچنے کے
عادی بن چکے ہیں۔ جس دن ہڑتال یا جمعہ کی چھٹی ہو آپ دیکھ سکتے ہیں کہ چھپڑ
بازار کتنا کشادہ ہے۔ ہسپتال روڈ کتنا وسیع ہے۔ چکوال کا تلہ گنگ روڈ، بھون
روڈ، پنڈی روڈ اور جہلم روڈ اتنے تنگ نہیں ہیں جتنے ان لوگوں نے بنا دئیے
ہیں۔ یہاں پر ہر شخص اپنا کاروبار فٹ پاتھ اور سڑک پر کرنا چاہتا ہے۔ جب سب
لوگ دُکان سے کئی گنا زیادہ ایریا تجاوز کریں گے تو پھر لوگوں کی مشکلات
میں یقینا اضافہ ہو گا۔ کیا دکانداری اس طرح کی جاتی ہے۔ کیا چیزیں دُکان
کے اندر سیل نہیں ہو سکتیں؟ ہمیں شہریوں کی آسانی کی خاطر اس مسئلے کو
دانشمندی سے حل کرنا ہو گا۔ ہر گذرنے والے دن کے ساتھ ہمارے شہر بہت سکڑتے
جا رہے ہیں۔ رش بڑھتا جا رہا ہے مگر ہم خود قوانین پر عمل پیرا نہیں ہوتے۔
آپ جس دکاندار کو دیکھیں اُس نے اپنا سامان باہر نمائش کے لئے لگا رکھا ہو
گا، ایسا کیوں ہے؟ چکوال میں فٹ پاتھ نام کی کوئی چیز نہیں ہے؟ خواتین کا
گذرنا محال ہو چکا؟ اُمید ہے متعلقہ ادارے اس حوالے سے اپنا کلیدی کردار
ادا کریں گے اور شہریوں کو مزید اذیت سے بچائیں گے۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا
حامی و ناصر ہو۔ |