ایک زمانہ تھا کہ ایک شخص گھر کا کفیل تھا اور گھر کے
تمام افراد کی کفالت کیا کرتاتھا۔لیکن اب حال یہ ہوگیاہے کہ گھر کا ہر بالغ
شخص ضرورت و آسائشوں کو پوراکرنے کی دوڑ میں بھاگا چلاجارہاہے ۔ایک ایسی
دوڑ کے جس کی نہ تو منزل کی خبر ہے اور نہ جیت کہاں پہنچ کر ملے گی اس کا
بھی کوئی اتاپتا معلوم نہیں ۔
یہ تو ایک پہلو تھا اب دوسرا پہلو ایک لفظ جو ہر خاص و عام کی زبان پر جاری
ہے ۔باالخصوص ایشیائی ممالک میں تیزی سے عام ہوتاچلاجاتاہے ۔لفظ معاشی
بدحالی اور ’’بیروزگاری ‘‘۔
میں چونکہ یونیورسٹی سے ماسٹر ڈگری کے حصول کے بعد کچھ عرصہ یہ ذائقہ چکھ
چکاہوں لہذا اس کے متعلق بہتر اور دیانتدارانہ معلومات پیش کرسکتاہوں ۔
یہ بات تو حقیقت ہے کہ معاشرے کے بگاڑ میں بے روزگاری نے بھی اہم کردار ادا
کر رکھا ہے۔ بیروزگاری کے باعث نوجوان یا تو گھر والوں پربوجھ ہیں یا پھر
معاشرے کے لیے ناسور ثابت ہورہے ہیں۔ کہتے ہیں ایک فارغ دماغ شیطان کا
گھروندہ ہوتا ہے۔ اس فارغ سوچ کے باعث بہت سی اخلاقی برائیاں اور بہت سے
مسائل جنم لے رہے ہیں۔ یہیں وہ نوجوان ہیں جنہوں نے کچھ معاشرے کے لیے
تعمیری کردار ادا کرنا تھا مگر جب فارغ ہوتے ہیں تو چوریاں کرنا، رہزنی
جیسے واقعات میں ملوث ہوجانا، غیر ضروری سرگرمیوں میں پڑ جانا فطری سی بات
ہے۔ بہت سے ایسے بھی ہیں جو ان مسائل سے پریشانی کے باعث نشے کے عادی بن
جاتے ہیں جو کہ سماج کے لیے زہر قاتل ہے۔
محترم قارئین:آئیے سب سے پہلے ہم اس بات پر غورکرتے ہیں کہ اس معاشی بدحالی
اور اس بیروزگاری کے مرض کے اسباب کیاہیں ۔تاکہ پھر ہم اس کے حل پر بات
کرسکیں ۔
1۔(ناقص نظام تعلیم):شعبہ تعلیم کا ناقص ہونا بھی بیروزگاری کا سبب ہے ۔اسکول
و کالجز میں نصاب تعلیم کو یادکرنے اور امتحانات پاس کرنے کے زعم میں طلباء
کو مستقبل کی پلاننگ کے حوالے سے نابلد رکھاجاتاہے ۔چنانچہ جب وہ فارغ
التحصیل ہوتے ہیں تو ان کے پاس ڈگری ہوتی ہے ۔ڈگری کی اہلیت نہیں ہوتی ۔
2۔(جدیدٹیکنالوجی):بے روزگاری کے اضافے میں صنعت کے لیے انسانوں کے بجائے
جدید مشینری،آلات اور ٹیکنالوجی کا استعمال اور صنعتی اداروں کی سرگرمیوں
میں کمی کی وجہ سے روزگار کی فراہمی میں کمی ایک اہم سبب ہے۔
3۔(غیرمنصفانہ انداز):بیروز گاری کی ایک وجہ سفارشی اور غیر منصفانہ انداز
بھی ہے ۔جس میں نااہل کو اہل کی جگہ مواقع دینا ۔اس سے اہل لوگ پیچھے رہ
جاتے ہیں اور یوں اداروں میں نااہل شخص کی وجہ سے کمزوریاں باقی رہتی ہیں ۔ادارے
بند ہوتے ہیں اور لوگ بیروزگار ہوجاتے ہیں ۔
4۔(فنی و تیکنیکی تعلیم کی کمی و مہارت کی کمی):ہم غور کریں تو معلوم
ہوتاہے کہ بے روزگاری کا ایک سبب مہارت کی کمی ہے۔طلباء اداروں سے ڈگری کے
حصول کے لیے جستجوکرتے ہیں ۔اس علم کی باریکیوں پر مہارت حاصل نہیں کرتے
نیز تیکنیکی و فنی تعلیم میں بھی کم مائیگی اور دلچسپی کا نہ ہونا بھی
بیروزگاری کی وجہ ہے ۔جبکہ کسی بھی شعبہ میں حاذق وماہر ہونا نہایت اہم اور
ضروری ہے۔
5۔(غیر مستقل مزاجی:):بیروز گاری و معاشی پسماندگی کی دیگر محرکات میں سے
ایک محرک یہ بھی ہے کہ لوگ مزاجاََ غیر مستقل مزاج ہوتے ہیں ۔کسی ایک نوکری
،کسی ایک ادارے میں ٹک کر ملازمت کرنا ان کا مزاج نہیں ہوتاہے ۔جس کی وجہ
وہ ادارے بدلتے رہتے ہیں نوکری چھوڑنے کے بعد دوسری جگہ نوکری کی تلاش میں
جُت جانایوں بیروزگاری کی فضا بنتی چلی جاتی ہے ۔
6۔(اپنے سٹینڈر قائم کرنا):نوجوانوں کو ابتدائی تعلیم کے بعد کوئی بہتر
رہنمائی نہیں ملتی کہ مارکیٹ لیول پر کس قسم کی جابز اور بزنس کی مانگ
زیادہ ہے اور جس نوجوان کے ہاتھ میں ڈگری آجائے وہ بڑے جاب کے انتظار میں
بیٹھا رہتا ہے اور نچلی سطح کی جاب میں عار محسوس کرتا ہے۔لہذا اس انداز سے
بھی معاشرے میں بیروزگاری کا ماحول بنتاہے ۔خاندان کے خاندان پریشان رہتے
ہیں کہ گھر کا کفیل ہاتھ پہ ہاتھ دھرے سٹینڈر کی جاب کا متلاشی ہے ۔
7۔(علاقائی سطح پر روزگار ی کے مواقع تقسیم نہ کرنا ): اپنے علاقے،ملک اور
معاشرے کے افراد کے بجائیدوسرے علاقوں اور ممالک کے افراد کو نوکریاں دینا
کسی بھی علاقے کے اندر بے روزگاری کا سبب بن سکتا ہے۔
8۔(بدلتے حالات و واقعات:): ان کے علاوہ کساد بازاری،موسموں کا تغیّر،ملکوں
کی باہمی جنگیں،سستی وکسل مندی اور والدین کی کمائی پر قناعت اور دیگر
عالمی معاشی اسباب بھی بے روزگاری میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
9:(باہم روابط ):گھر سے پڑوس اور پڑوس سے محلہ اور محلہ سے علاقہ سطح پر
باہمی روابط کی فضا قائم کرنے سے اخوت و بھائی چارہ کا ماحول بنے گا۔جس کا
فائدہ یہ ہوگا کہ یونٹی کی صورت میں سب ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوں
گے ۔مشکل سکھ دکھ میں دست راست بنیں گے ۔یوں معاشی مشکلات کا بھی تدارک
ممکن ہوگا۔
10:(صنعت و حرفت):ایسے زون کا قیام عمل میں لایاجائے جہاں لوگوں کو فنی
تعلیم مفت یا پھر مناسب فیس کی مد میں سیکھنے کے مواقع ہوں ۔اس سے وہ لوگ
جو معاشرے پر بوجھ ہیں اور معاشی بدحالی کا شکار ہیں فن سیکھ کر خود کفیل
بن سکتے ہیں ۔
محترم قارئین یہ تو معاشی پسماندگی کے مسائل تھے۔ لیکن اب اس بات پر غور
کرتے ہیں کہ ان کا حل کیا ہے ۔اس معاملے میں اسلام نے ہماری مکمل رہنمائی
فرمائی ہے ۔
(٭):اسلام دین فطرت ہے اور اس کی تعلیمات عالمگیر حیثیت رکھتی ہیں۔چنانچہ
مسلمان معاشرے کا فرد اپنی معاشی ضروریات میں دوسروں پر بوجھ بننے کے بجائے
خود ہی معاشی کوششیں کرے۔
(٭):اسلام نے سخت ضرورت اور اضطراری حالت کے بغیر دوسروں کے سامنے ہاتھ
پھیلانے اور بھیک مانگنے سے منع فرمایا ہے۔جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے کہ’’
جو شخص باجود قدرت وطاقت کے لوگوں سے بھیک مانگتا ہے وہ قیامت کے دن چہرے
پر سوال کا داغ لیکر آئیگا۔( سنن الترمذی)
(٭):اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ حکام بے روزگاروں کو روزگار کے مواقع فراہم
کریں۔ایسے راستے اپنائے جائیں جس سے روزگار کے مواقع پیداہوں۔
(٭):اگر اسلامی اصلاحات کی بات کریں تو اس اعتبار سے زکٰوۃ اور خراج کا
نظام درست کرے اور اس سے مستحق لوگوں کی امداد اور بے روزگاروں کے لیے
روزگار فراہم کیا جائے۔
(٭)بے روزگاروں اور عاجز لوگوں کو قرض حسنہ فراہم کیاجائے تاکہ وہ اپنا
کوئی کاروبار اور تجارت کرسکیں۔
اسلام نے معاشی پسماندگی کو کم کرنے کے لیے مکمل ایک ضابطہ بنارکھاہے ۔بس
بات یہ ہے کہ اگر اس کو عملی جامہ پہنایاجائے تو اس کے خاطر خواہ نتائج و
ثمرات میسر آسکتے ہیں ۔اگر ایک جملے میں معاشی پسماندگی کو اسلام کے پیرہن
میں بیان کروں تو وہ یہ ہے کہ اسلام نے کچھ نظام پیش کیے ہیں ۔جن پر عمل
کرکے اس طوفان کو روکا جاسکتاہے ۔وہ مندرجہ ذیل ہیں (۱)نظام زکوٰۃ،(۲)نظام
خیرات (۳)نظام میراث (۴)نظام اوقاف
حالات و واقعات کے پیشِ نظر یہ وہ بنیادی مسائل اور ان مسائل کے بنیادی حل
جو پیش کئے گے ہیں ۔میں نے بھرپور کوشش کی ہے کہ اس مضمون کو آپ کے لیے
زیادہ سے زیادہ نفع بخش بناسکوں ۔میں کس حد تک کامیاب ہوایہ اس کا انداز آپ
کی عملی زندگی میں آنے والی تبدیلی اورمیرے حق میں آپ کی دعاوں سے ہوگا۔ |