جب زندگی شروع ہوئی۔۔۔۔۔ حصہ ١٦

ساتواں باب: حضرت عیسیٰ کی گواہی

میری آنکھ کھلی تو میں نے خود کو ایک نفیس اور نرم و نازک بستر پر پایا۔ ناعمہ بستر پر میرے قریب بیٹھی پریشان نگا ہوں سے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میری آنکھیں کھلتے دیکھ کر ایک دم سے اس کے چہرے پر رونق آ گئی۔ اس نے بے اختیار پوچھا:
’’آپ ٹھیک ہیں ؟‘‘
’’میں کہاں ہوں ؟‘‘، میں نے جواب دینے کے بجائے خود ایک سوال کر دیا۔
’’آپ میرے پاس میرے خیمے میں ہیں ۔ صالح آپ کو اس حال میں یہاں لائے تھے کہ آپ بے ہوش تھے ۔‘‘
’’وہ خود کہاں ہے ؟‘‘
’’وہ باہر ہیں ۔ ٹھہریں ، میں انہیں اندر بلاتی ہوں ۔‘‘
اس کی بات پوری ہونے سے قبل ہی صالح سلام کرتا ہوا اندر داخل ہو گیا۔ اس کے چہرے پر اطمینان کی مسکراہٹ تھی۔ میں اسے دیکھ کر اٹھ بیٹھا اور پوچھا:
’’کیا ہوا تھا؟‘‘
’’تم بے ہوش ہوگئے تھے ۔‘‘
’’باخدا میں نے اپنے رب کا یہ روپ پہلی دفعہ دیکھا تھا۔ خدا کے بارے میں میرے تمام اندازے غلط تھے ۔ وہ اس سے کہیں زیادہ عظیم ہے جتنا میں تصور کرسکتا تھا۔ مجھے اب اپنی زندگی کے ہر اس لمحے پر افسوس ہے جو میں نے خدا کی عظمت کے احساس میں بسر نہیں کیا۔‘‘
میری بات سن کر صالح نے کہا:
’’یہ غیب اور حضور کا فرق ہے ۔ دنیا میں خدا غیب میں ہوا کرتا تھا۔ آج پہلا موقع تھا کہ خدا نے غیب کا پردہ اٹھا کر انسان کو مخاطب کیا تھا۔ تم نصیبے والے ہو کہ تم نے غیب میں رہ کر خدا کی عظمت کو دریافت کر لیا اور خود کو اس کے سامنے بے وقعت کر دیا تھا۔ اسی لیے آج تم پر اللہ کا خصوصی کرم ہے ۔‘‘
’’مگر یہ بے ہوش کیوں ہوئے تھے ؟‘‘، ناعمہ نے گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے پوچھا۔

’’دراصل ہوا یہ تھا کہ ہم عرش کے بائیں طرف مجرموں کے حصے میں کھڑ ے تھے ۔ اُسی وقت فرشتوں کا نزول شروع ہو گیا اور حساب کتاب کا آغاز ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے چونکہ غضب کے عالم میں گفتگو شروع کی تھی اور اس ناراضی کا اصل رخ بائیں ہاتھ والوں کی طرف ہی تھا، اس لیے سب سے زیادہ اس کا اثر اسی بائیں طرف ہورہا تھا۔ اللہ تعالیٰ اپنی صفات سے کبھی مغلوب نہیں ہوتے ، اس لیے اس غضب میں ہونے کے باوجود بھی انہیں احساس تھا کہ اس وقت ان کا ایک محبوب بندہ الٹے ہاتھ کی طرف موجود ہے ۔ اس لیے انہوں نے عبد اللہ کو بے ہوش کر دیا۔ وہ اگر ایسا نہ کرتے تو عبد اللہ کو اس قہر و غضب کا سامنا کرنا پڑ جاتا جو بائیں جانب والوں پر اس وقت ہورہا تھا۔‘‘

صالح کی بات سن کر بے اختیار میری آنکھوں سے اپنے رب کریم کے لیے احسان مندی کے آنسو جاری ہوگئے ۔ میں بستر سے اترا اور سجدے میں گرگیا۔ میرے منہ سے بے اختیار یہ الفاظ نکلنے لگے : ’’معبود تو نے مجھے کب کب یاد نہیں رکھا۔ ماں کے پیٹ سے آج کے دن تک تیری کسی مصروفیت نے تجھے مجھ سے غافل نہیں کیا اور میں ؟ میں نے کبھی تیری کریم ہستی کی قدر نہ کی۔ میں نے کبھی تیرے کسی احسان کا شکر ادا نہ کیا۔ میں نے کبھی تیری بندگی کا حق ادا نہ کیا۔ تو پاک ہے ۔ تو بلند ہے ۔ ہر حمد تیرے ہی لیے ہے اور ہر شکر تیرا ہی ہے ۔ مجھے معاف کر دے اور اپنی رحمتوں کے سائے میں لے لے ۔ اگر تو نے مجھے معاف نہیں کیا تو میں ہلاک ہوجاؤں گا، میں برباد ہوجاؤں گا۔‘‘

میں دیر تک یہی دعا مانگتا رہا۔ ناعمہ نے میری پیٹھ پر ہاتھ پھیر کر کہا:
’’اب آپ اٹھیے ۔ آپ نے تو عمر بھر اللہ کی مرضی اور پسند کی زندگی گزاری ہے ۔ میں آپ کو جانتی ہوں ۔‘‘
ناعمہ کی بات سن کر میں خاموشی سے اٹھ کھڑ ا ہوا اور اسے دیکھتے ہوئے بولا:
’’تم ابھی خدا کے احسانوں اور اس کی عظمت کو نہیں جانتیں ۔ ۔ ۔ وگرنہ کبھی یہ الفاظ نہ کہتیں ۔‘‘
’’عبد اللہ ٹھیک کہہ رہا ہے ناعمہ۔‘‘، صالح نے میری تائید کرتے ہوئے کہا۔
’’انسان کا بڑ ے سے بڑ ا عمل بھی خدا کی چھوٹی سے چھوٹی عنایت کے مقابلے میں کچھ نہیں ۔ خدا عبد اللہ سے زبان چھین لیتا تو یہ ایک لفظ بول نہیں سکتا تھا۔ ہاتھ چھین لیتا تو لکھ نہیں سکتا تھا۔ ہر نعمت اور ہر توفیق اسی کی تھی۔ انسان کچھ بھی نہیں ۔ سب کچھ خدا ہے ۔‘‘
’’آپ ٹھیک کہتے ہیں ۔ میں نے اس پہلو سے غور نہیں کیا تھا۔‘‘، ناعمہ نے اعتراف میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
’’اب ہمیں کہاں جانا ہے ؟‘‘، میں نے صالح سے دریافت کیا۔
’’حساب کتاب شروع ہو چکا ہے ۔ تمھیں وہاں پہنچنا ہو گا۔ لیکن پہلے ایک اچھی خبر سنو۔‘‘
’’وہ کیا ہے ؟‘‘
’’جب حساب کتاب شروع ہوا تو اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے امت مسلمہ کے حساب کا فیصلہ کیا ہے ۔ اور جانتے ہو اس عمل میں تمھاری بیٹی لیلیٰ نجات پا گئی۔‘‘
’’کیا؟‘‘، میں حیرت اور خوشی کے مارے چلا اٹھا۔
’’ہاں! صالح ٹھیک کہتے ہیں ۔‘‘، ناعمہ بولی۔
’’میں اس سے مل چکی ہوں ۔ وہ اپنے باقی بھائی بہنوں کے ساتھ دوسرے خیمے میں موجود ہے ۔ وہاں سب آپ کا انتظار کر رہے ہیں ۔‘‘
’’اور جمشید؟‘‘، میں نے صالح سے اپنے بڑ ے بیٹے کے متعلق پوچھا۔
جواب میں ایک سوگوار خاموشی چھا گئی۔ مجھے اپنے سوال کا جواب مل چکا تھا۔ میں نے کہا:
’’پھر میں واپس حشر کے میدان میں جانا پسند کروں گا۔ شاید کوئی راستہ نکل آئے ۔‘‘
’’ٹھیک ہے ۔‘‘، صالح بولا اور پھر میرا ہاتھ تھام کر خیمے سے باہر آ گیا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
خیمے سے باہر آ کر میرا پہلا سوال یہ تھا:
’’کیا میں جمشید کے لیے کچھ کرسکتا ہوں ؟‘‘
’’تم لیلیٰ کے لیے کچھ نہیں کرسکے تو جمشید کے لیے کیا کرسکو گے ۔ کیا تم اللہ تعالیٰ کو بتاؤ گے کہ اسے کیا کرنا چاہیے ؟‘‘
’’استغفرا للہ۔ یہ میرا مطلب ہرگز نہیں تھا۔‘‘
پھر کچھ دیر توقف کے بعد میں نے دریافت کیا:
’’اچھا یہ بتاؤ کہ میرے بے ہوش ہونے کے بعد حشر کے میدان میں کیا ہوا؟‘‘
’’تم جب ہوش میں تھے تمھیں اس وقت بھی پوری طرح معلوم نہیں تھا کہ وہاں کیا ہورہا ہے ۔ اسے پوچھنا ہے تو کسی مجرم سے پوچھو۔ ادھر گروہ در گروہ فرشتے نازل ہورہے تھے اور ادھر مجرموں کی جان پر بن رہی تھی۔ پھر جس وقت سجدے میں جانے کا حکم ہوا تو سارے لوگ سجدے میں تھے اور یہ بدبخت اس وقت بھی خدا کے سامنے سینہ تانے کھڑ ے تھے ۔‘‘

’’یہ ان کی کمر تختہ ہوجانے کا نتیجہ تھا نا؟‘‘

’’ہاں یہ ان کی سزا تھی۔ اس کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے دریافت کیا کہ میں بادشاہ ہوں ۔ میرے سوا ور بادشاہ کہاں ہیں؟ اس وقت بھی یہی مجرم سینہ تانے اس کے سامنے کھڑ ے تھے ۔ کاش! تم دیکھ سکتے کہ اس وقت ان مجرموں کے ساتھ کیا ہورہا تھا۔ ان کے دل کٹے جا رہے تھے ۔ کلیجے منہ کو آ رہے تھے ۔ آنکھیں خوف اور دہشت سے پھٹی ہوئی تھیں۔ مجرم بے بسی سے اپنی انگلیاں چبا رہے تھے ، مگر مجبور تھے کہ اس وقت بھی ساری کائنات کے بادشاہ کے سامنے سینہ تان کر کھڑ ے رہیں ۔‘‘
’’پھر کیا ہوا؟‘‘

’’ظاہر ہے حساب کتاب تو فرداً فرداً ہونا تھا، لیکن اس موقع پر مجرموں کے سامنے ان کا انجام بالکل نمایاں کر دیا گیا۔ وہ اس طرح کہ جہنم کا دہانہ مکمل طور پر کھول دیا گیا۔ جس کے بعد میدان حشر کے بائیں حصے کا ماحول انتہائی خوفناک ہو گیا۔ جہنم گویا جوش کے مارے ابلی جا رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ مجرموں کو دیکھ کر شدت غضب سے پھٹی جا رہی ہو۔ اس کے دھاڑ نے کی آوازیں دور دور تک سنی جا رہی تھیں اور اس کے شعلے بے قابو ہوکر باہر نکلے جا رہے تھے ۔ یہ شعلے اتنے بڑ ے تھے کہ ان سے اٹھنے والی چنگاریاں بڑ ے بڑ ے محلات جتنی وسیع و عریض تھیں اور ان کے بلند ہونے سے آسمان پر گویا زرد اونٹوں کے رقص کا سا سماں بندھ رہا تھا۔ نہ پوچھو کہ یہ سب کچھ دیکھ کر لوگوں کی حالت کیا ہوگئی تھی۔ انہیں محسوس یہ ہورہا تھا کہ اس سے قبل حشر کی جو سختیاں تھیں وہ کچھ بھی نہیں تھیں ۔‘‘

’’حساب کتاب کیسے شروع ہوا؟‘‘
’’سب سے پہلے حضرت آدم کو پکارا گیا جو پوری انسانیت کے باپ اور پہلے نبی تھے ۔‘‘
انہوں نے عرض کیا:
’’لبیک و سعدیک۔ میں حاضر ہوں اور تیری خدمت میں مستعد ہوں اور سب بھلائیاں تیرے دونوں ہاتھوں میں ہیں ۔‘‘
’’اپنی اولاد میں سے اہل جہنم کو الگ کر لو۔‘‘، حکم ہوا۔
’’کتنوں کو الگ کروں ؟‘‘، انھوں نے دریافت کیا۔

’’ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے ۔‘‘، ارشاد ہوا۔

’’تم اندازہ نہیں کرسکتے عبد اللہ کہ یہ سن کر حشر کے میدان میں کیا کہرام مچ گیا تھا۔‘‘

’’لیکن اتنی بڑ ی تعداد میں لوگوں کی جہنم کا فیصلہ کیوں ہوا؟‘‘، میں نے دریافت کیا۔

’’یہ فیصلہ نہیں اس بات کا اظہار تھا کہ میدان حشر میں جو لوگ موجود ہیں ، ان میں ہزار میں سے ایک ہی اس قابل ہے کہ جنت میں جا سکے ۔ دراصل انسانیت مجموعی طور پر ایمان و اخلاق کے امتحان میں بری طرح فیل ہوئی ہے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے عدل کے تحت اصولی طور پر اتنے ہی لوگ جہنم کے مستحق ہو چکے ہیں ۔ مگر جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا ہی میں بتادیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سو حصے کیے جائیں تو اس کی رحمت کا صرف ایک حصہ دنیا میں ظاہر ہوا تھا اور باقی ننانوے حصے اس نے آج کے دن کے لیے روک رکھے تھے ۔ چنانچہ اس کی رحمت کا ظہور ہوا اور اس نے ناکام لوگوں کی جہنم کا فیصلہ سنانے کے بجائے پہلے مرحلے پر ان لوگوں کو بلانے کا فیصلہ کیا جن میں کامیابی اور نجات پانے کے امکان سب سے زیادہ تھے ۔‘‘
’’یعنی مجموعی طور پر اچھے لوگ؟‘‘

’’ہاں ۔ ہر امت کے ان لوگوں کو جن کی نجات بس ایک رسمی حساب کتاب کا تقاضا کرتی ہے ۔ اس عمل کا آغاز امت مسلمہ سے شروع ہو چکا ہے پھر دیگر امتوں کا نمبر بھی جلد آجائے گا کیونکہ کل انسانی آبادی میں سے ایسے لوگ صرف ایک فیصد ہی ہیں ۔ باقی لوگوں کا معاملہ وہ بعد میں دیکھیں گے ۔ اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ اگر حشر کی سختی کسی کے گنا ہوں کا بدل بن سکتی ہے تو بن جائے ۔‘‘، یہ کہنے کے بعد صالح لمحہ بھر کو رکا اور پھر تأسف سے بولا:
’’ویسے میں دوسرے لوگوں کے لیے زیادہ امکانات نہیں دیکھتا۔‘‘
’’کیوں ؟‘‘، میں نے پوچھا۔
’’اس کی وجہ شرک ہے ۔ اللہ تعالیٰ شرک کے معاملے میں بہت غیرت مند ہیں ۔ تم جانتے ہو کہ انسانیت کا ہر دور میں سب سے بڑ ا مسئلہ شرک ہی رہا ہے ۔ اسی شرک کی وجہ سے آج سب سے زیادہ لوگ مارے جائیں گے ۔ کیونکہ شرک کی معافی کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے ۔ ہاں کسی کے حالات اور ماحول کا کوئی عذر ہوا تو خیر ہے وگرنہ شرک کرنے والے کسی شخص کے لیے آج نجات کی معمولی سی بھی کوئی امید نہیں ہے ۔‘‘
’’چاہے وہ مسلمان ہوں ؟‘‘، میں نے دریافت کیا۔
’’ہاں ۔‘‘، صالح نے جواب دیا۔
’’شرک جہنم کی آگ کا شعلہ تھا۔ آج یہ لازماً ہر اس شخص کو جلائے گا جس نے اللہ کے سوا کسی اور کو اس کی ذات، صفات یا حقوق و اختیارات میں شریک ٹھہرایا تھا۔ غیر اللہ کی عبادت کی تھی۔ اس سے دعا مانگی تھی۔ اس کو سجدہ کیا تھا۔ اس کو خدا کا شریک سمجھا تھا اور صفات و اختیاراتِ الٰہی میں حصہ دار ٹھہرایا تھا۔‘‘
’’اللہ اکبر۔ لا الٰہ الاللہ! ‘‘، بے اختیار میرے منہ سے نکلا۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Owais
About the Author: Owais Read More Articles by Owais: 27 Articles with 26519 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.