’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی خدمت میں چمڑے کے تھیلے میں بھر کر کچھ سونا بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی
بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ
سونا چار آدمیوں میں تقسیم فرما دیا، عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن
خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے کسی نے کہا : ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔
جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم مجھے امانت دار شمار نہیں کرتے؟ حالانکہ
آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام
آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہو گیا جس کی آنکھیں
اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں ابھری ہوئیں، اونچی پیشانی، گھنی
داڑھی، سر منڈا ہوا اور اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا : یا
رسول اللہ! خدا سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو ہلاک
ہو، کیا میں تمام اہل زمین سے زیادہ خدا سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب
وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض
کیا : بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں
نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے یہ حکم
نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی
کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب
دیکھا تو فرمایا : اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اللہ کی کتاب کی
تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین
سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو
پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔‘‘مسلم کی ایک روایت میں ہے کہ
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا
میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
: نہیں، پھر وہ شخص چلا گیا، پھر حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے
ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ! میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو
قرآن بہت ہی اچھا پڑھیں گے (راوی) عمارہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا : اگر میں ان لوگوں کو پالیتا تو (قومِ)
ثمود کی طرح ضرور انہیں قتل کر دیتا
البخاري في الصحيح، کتاب : المغازي، باب : بعث علي بن أبي طالب و خالد بن
الوليد رضي اﷲ عنهما إلي اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم : 4094، و
مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 742،
الرقم : 1064، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 4، الرقم : 11021، و ابن
خزيمة في الصحيح، 4 / 71، الرقم : 2373، و ابن حبان في الصحيح، 1 / 205،
الرقم : 25، و أبو يعلي في المسند، 2 / 390، الرقم : 1163، و أبو نعيم في
المسند المستخرج، 3 / 128، الرقم : 2375، و في حلية الأولياء، 5 / 71، و
العسقلاني في فتح الباري، 8 / 68، الرقم : 4094، و حاشية ابن القيم، 13 /
16، و السيوطي في الديباج، 3 / 160، الرقم : 1064، و ابن تيمية في الصارم
المسلول، 1 / 188، 192
مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 743،
الرقم : 1064.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے
یمن سے مٹی میں ملا ہوا تھوڑا سا سونا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم کی خدمت میں بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اقرع بن حابس
جو بنی مجاشع کا ایک فرد تھا اور عیینہ بن بدر فزاری، علقمہ بن علاثہ
عامری، جو بنی کلاب سے تھا اور زید الخیل طائی، جو بنی نبہان سے تھا ان
چاروں کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر قریش اور انصار کو ناراضگی ہوئی اور
انہوں نے کہا کہ اہلِ نجد کے سرداروں کو مال دیتے ہیں اور ہمیں نظر انداز
کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تو ان کی تالیف قلب
کے لئے کرتا ہوں۔ اسی اثناء میں ایک شخص آیا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی
ہوئیں، پیشانی ابھری ہوئی، داڑھی گھنی، گال پھولے ہوئے اور سرمنڈا ہوا تھا
اور اس نے کہا : اے محمد! اﷲ سے ڈرو، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا : اﷲ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والا کون ہے؟ اگر میں اس کی
نافرمانی کرتا ہوں حالانکہ اس نے مجھے زمین والوں پر امین بنایا ہے اور تم
مجھے امین نہیں مانتے۔ تو صحابہ میں سے ایک شخص نے اسے قتل کرنے کی اجازت
مانگی میرے خیال میں وہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے تو حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں منع فرما دیا (اور ابو نعیم کی
روایت میں ہے کہ ’’اس شخص نے کہا : اے محمد اﷲ سے ڈرو اور عدل کرو، تو رسول
اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آسمان والوں کے ہاں میں امانتدار
ہوں اور تم مجھے امین نہیں سمجھتے؟ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے
عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ فرمایا : ہاں، سو وہ گئے تو
اسے نماز پڑھتے ہوئے پایا، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : میں نے اسے نماز پڑھتے پایا (اس لئے قتل
نہیں کیا) تو کسی دوسرے صحابی نے عرض کیا : میں اس کی گردن کاٹ دوں؟ جب وہ
چلا گیا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اس شخص کی
نسل سے ایسی قوم پیدا ہوگی کہ وہ لوگ قرآن پڑھیں گے لیکن ان کے حلق سے نیچے
نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا
ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے اگر میں انہیں پاؤں
تو قوم عاد کی طرح ضرور انہیں قتل کر دوں۔’’حضرت علی رضی اللہ عنہ روایت
کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے
سنا کہ عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو نوعمر
اور عقل سے کورے ہوں گے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی
احادیث بیان کریں گے لیکن ایمان ان کے اپنے حلق سے نہیں اترے گا۔ دین سے وہ
یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے پس تم انہیں جہاں کہیں
پاؤ تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے
گا۔
أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : قول اﷲ تعالي : تعرج
الملائکة و الروح إليه، 6 / 2702، الرقم : 6995، و في کتاب : الأنبياء، باب
: قول اﷲ عزوجل : و أما عاد فأهلکوا بريح صرصر شديدة عاتية، 3 / 1219،
الرقم : 3166، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و
صفاتهم، 2 / 741، الرقم : 1064، و أبو داود في السنن، کتاب : السنة، باب :
في قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم : 4764، و النسائي في السنن، کتاب : تحريم
الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 118، الرقم : 4101، و في
کتاب : الزکاة، باب : المؤلفة قلوبهم، 5 / 87، الرقم : 2578، و في السنن
الکبري، 6 / 356، الرقم : 11221، و أبو نعيم في المسند المستخرج علي صحيح
الإمام مسلم، 3 / 127، الرقم : 2373، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 68،
73، الرقم : 11666، 11713، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 156، و البيهقي في
السنن الکبري، 6 / 339، الرقم : 12724، 7 / 18، الرقم : 12962، و ابن منصور
في کتاب السنن، 2 / 373، الرقم : 2903، و أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 /
72، و الشوکاني في نيل الأوطار، 7 / 345، و ابن تيمية في الصارم المسلول، 1
/ 196. البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين و المعاندين و قتالهم،
باب : قتل الخوارج و الملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2539، الرقم :
6531، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2
/ 746، الرقم : 1066، و الترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلي
الله عليه وآله وسلم، باب : في صفة المارقة، 4 / 481، الرقم : 2188، و
النسائي في السنن، کتاب : تحريم الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس،
7 / 119، الرقم : 4102، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر
الخوارج، 1 / 59، الرقم : 168، و أحمد بن حنبل في المسند، 1 / 81، 113،
131، الرقم : 616، 912، 1086، و ابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 553، الرقم :
37883، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 157، و البزار في المسند، 2 / 188،
الرقم : 568، و أبو يعلي في المسند، 1 / 273، الرقم : 324، و البيهقي في
السنن الکبري، 8 / 170، و الطبراني في المعجم الصغير، 2 / 213، الرقم :
1049، و عبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 443، الرقم : 914، و الطيالسي في
المسند، 1 / 24، الرقم : 168
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبداللہ بن ذی الخویصرہ
تمیمی آیا اور کہنے لگا یارسول اللہ! انصاف سے تقسیم کیجئے (اس کے اس طعن
پر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کمبخت اگر میں
انصاف نہیں کرتا تو اور کون کرتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
یا رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیے میں اس (خبیث) کی گردن اڑا دوں، فرمایا :
رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں (یا ہوں گے) کہ ان کی نمازوں اور ان کے
روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانوگے۔ لیکن وہ لوگ
دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر
پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر
نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ
ہو گا اور تیر (جانور کے ) گو بر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسی ہی ان
خبیثوں کی مثال ہے کہ دین کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق نہ ہوگا)۔’’حضرت
جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور
کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوفرماتے سنا : جعرانہ کے مقام
پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑوں (گود) میں چاندی تھی اور حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے مٹھیاں بھر بھر کے لوگوں کو عطا فرما
رہے ہیں تو ایک شخص نے کہا : عدل کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : تو ہلاک ہو۔ اگر میں عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا؟ حضرت
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے چھوڑ دیں کہ میں
اس خبیث منافق کو قتل کر دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا : میں لوگوں کے اس قول سے کہ میں اپنے ساتھیوں کو قتل کرنے لگ گیا
ہوں اﷲ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بیشک یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن ان
کے حلق سے نہیں اترے گا، وہ دین کے دائرے سے ایسے خارج ہو جائیں گے جیسے
تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔
البخاري في الصحيح، کتاب : استابة المرتدين و المعاندين، باب : مَن ترک
قتال الخوارجِ لِلتَّألُّفِ، وَ لِءَلَّا ينْفِرَ النَّاسُ عَنه، 6 / 2540،
الرقم : 6534، 6532، و في کتاب : المناقب، باب : علاماتِ النُّبُوّةِ في
الإِسلامِ، 3 / 1321، الرقم : 3414، و في کتاب : فضائل القرآن، باب :
البکاء عند قراء ة القرآن، 4 / 1928، الرقم : 4771، و في کتاب : الأدب، باب
: ما جاء في قول الرَّجلِ : ويلَکَ، 5 / 2281، الرقم : 5811، و مسلم في
الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج و صفاتهم، 2 / 744، الرقم :
1064، و نحوه النسائي عن أبي برزة رضي الله عنه في السنن، کتاب : تحريم
الدم، باب : من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم : 4103، و في
السنن الکبري، 6 / 355، الرقم : 11220، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب
: في ذکر الخوارج، 1 / 61، الرقم : 172، و ابن الجارود في المنتقي، 1 /
272، الرقم : 1083، و ابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم : 6741، و
الحاکم عن أبي برزة رضي الله عنه في المستدرک، 2 / 160، الرقم : 2647، و
قال : هذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 56، الرقم :
11554، 14861، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 171، و ابن أبي شيبة في
المصنف، 7 / 562، الرقم : 37932، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 146، و نحوه
البزار عن أبي برزة رضي الله عنه في المسند، 9 / 305، الرقم : 3846، و
الطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 35، الرقم : 9060، و أبو يعلي في المسند، 2
/ 298، الرقم : 1022، و البخاري عن جابر رضي الله عنه في الأدب المفرد، 1 /
270، الرقم : 774
أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 354، الرقم : 1461، و أبو نعيم في المسند
المستخرج علي صحيح الإمام مسلم، 3 / 127، الرقم : 2372.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے کہ وہ قرآن
پاک پڑھیں گے مگر وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح
نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے اور پھر وہ دین میں واپس
نہیں آئیں گے جب تک تیر اپنی جگہ پر واپس نہ لوٹ آئے۔ دریافت کیا گیا کہ ان
کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا : ان کی نشانی سر منڈانا ہے یا فرمایا : سر منڈائے
رکھنا ہے۔ مسلم کی روایت میں ہے : يُسیر بن عمرو کہتے ہیں کہ میں نے حضرت
سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم سے خوارج کا ذکر سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا : ہاں! میں نے سنا
ہے اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہا : وہ اپنی زبانوں سے قرآن
مجید پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور دین سے ایسے نکل جائیں
گے جیسے تیر شکار سے۔
البخاري في الصحيح، کتاب : التوحيد، باب : قراءة الفاجر و المنافق و
أصواتهم و تلاوتهم لاتجاوز حناجرهم، 6 / 2748، الرقم : 7123، و مسلم في
الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : الخوارج شر الخلق و الخليفة، 2 / 750، الرقم
: 1068، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 64، الرقم : 11632، 3 / 486، و ابن
أبي شيبة في المصنف، 7 / 563، الرقم : 37397، و أبو يعلي في المسند، 2 /
408، الرقم : 1193، و الطبراني في المعجم الکبير، 6 / 91، الرقم : 5609، و
ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 490، الرقم : 909، و قال : إسناده صحيح، و أبو
نعيم في المسند المستخرج، 3 / 135، الرقم : 2390
’’زید بن وہب جہنی بیان کرتے ہیں کہ وہ اس لشکر میں تھے جو حضرت علی رضی
اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے
فرمایا : اے لوگو! میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے ایک قوم ظاہر ہوگی وہ
ایسا قرآن پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی
حیثیت نہ ہوگی، نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی
وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے لئے مفید ہے لیکن درحقیقت وہ ان
کے لئے مضر ہوگا، نماز ان کے گلے کے نیچے سے نہیں اتر سکے گی اور وہ اسلام
سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔
’’حضرت ابو سلمہ اور حضرت عطاء بن یسار رضی اﷲ عنہما دونوں حضرت ابو سعید
خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : کیا آپ نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ تو انہوں
نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ حروریہ کیا ہے؟ ہاں میں نے حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس امت میں سے کچھ
ایسے لوگ نکلیں گے اور یہ نہیں فرمایا کہ ایک ایسی قوم نکلے گی (بلکہ لوگ
فرمایا) جن کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے، وہ
قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن یہ (قرآن) ان کے حلق سے نہیں اترے گا یا
یہ فرمایا کہ ان کے نرخرے سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں خارج ہو
جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة
باب : التحريض علي قتل الخوارج، 2 / 748، الرقم : 1066، وأبوداود في السنن،
کتاب : السنة، باب : في قتال الخوارج، 4 / 244، الرقم : 4768، والنسائي في
السنن الکبري، 5 / 163، الرقم : 8571، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 91،
الرقم : 706، و عبد الرزاق في المصنف، 10 / 147؛ والبزار في المسند، 2 /
197، الرقم : 581، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 445. 446، والبيهقي في
السنن الکبري، 8 / 170.
البخاري في الصحيح، کتاب : استتابة المرتدين والمعاندين و قتالهم، باب :
قتل الخوارج و الملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 / 2540، الرقم : 6532، و
في فضائل القرآن، باب : إثم من رائي بقرائة القرآن أو تاکل به أو فخر به، 4
/ 1928، الرقم : 4771، و مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج
و صفاتهم، 2 / 743، الرقم : 1064، و مالک في الموطأ، کتاب : القرآن، باب :
ماجاء في القرآن، 1 / 204، الرقم : 478، و النسائي في السنن الکبري، 3 /
31، الرقم : 8089، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 60، الرقم : 11596، و ابن
حبان في الصحيح، 15 / 132، الرقم : 6737، و البخاري في خلق أفعال العباد، 1
/ 53 وا بن أبي شيبة في المصنف، 7 / 560، الرقم : 37920، و أبو يعلي في
المسند، 2 / 430، الرقم : 1233، و ابن أبي عاصم في السنة، 2 / 456، الرقم :
935، و البيهقي في شعب الإيمان، 2 / 537، الرقم : 2640، و الربيع في
المسند، 1 / 34، الرقم : 36.
’’حضرت ابوسعید خدری اور حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب میری امت میں اختلاف
اور تفرقہ بازی ہو گی، ایک قوم ایسی ہوگی کہ وہ لوگ گفتار کے اچھے اور
کردار کے برے ہوں گے، قرآن پاک پڑھیں گے جو ان کے گلے سے نہیں اترے گا (اور
ایک روایت میں ہے کہ تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں
کے مقابلہ میں حقیر سمجھو گے) وہ دین سے ایسے خارج جائیں گے جیسے تیر شکار
سے خارج ہو جاتا ہے، اور واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر کمان میں واپس نہ آ
جائے وہ ساری مخلوق میں سب سے برے ہوں گے، خوشخبری ہو اسے جو انہیں قتل کرے
اور جسے وہ قتل کریں۔ وہ اﷲ عزوجل کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے
ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہو گا ان کا قاتل ان کی نسبت اﷲ تعالیٰ کے زیادہ
قریب ہو گا، صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ان کی نشانی کیا ہے؟
فرمایا : سر منڈانا۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی طرح فرمایا : ان کی نشانی سر منڈانا اور
ہمیشہ منڈائے رکھنا ہے۔‘‘
’’حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے ایک قوم کا ذکر کیا جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں پیدا
ہو گی، اس کا ظہور اس وقت ہوگا جب لوگوں میں فرقہ بندی ہو جائے گی۔ ان کی
علامت سر منڈانا ہوگی اور وہ مخلوق میں سب سے بد تر (یا بدترین) ہوں گے اور
انہیں دوجماعتوں میں سے وہ جماعت قتل کرے گی جو حق کے زیادہ قریب ہوگی، پھر
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان لوگوں کی ایک مثال بیان فرمائی کہ جب
آدمی کسی شکار یا نشانہ کو تیر مارتا ہے تو پر کو دیکھتا ہے اس میں کچھ اثر
نہیں ہوتا اور تیر کی لکڑی کو دیکھتا ہے اور وہاں بھی اثر نہیں ہوتا، پھر
اس حصہ کو دیکھتا ہے جو تیر انداز کی چٹکی میں ہوتا ہے تو وہاں بھی کچھ اثر
نہیں پاتا۔
أبو داود في السنن، کتاب : السنة، باب : في : قتال الخوارج، 4 / 243، الرقم
: 4765، و ابن ماجة في السنن، المقدمة، باب : في ذکر الخوارج، 1 / 60،
الرقم : 169، و أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 224، الرقم : 13362، والحاکم
في المستدرک، 2 / 161، الرقم : 2649، و البيهقي في السنن الکبري، 8 / 171،
و المقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 15، الرقم : 2391. 2392، و قال :
إسناده صحيح، و أبو يعلي في المسند، 5 / 426، الرقم : 3117، و الطبراني
نحوه في المعجم الکبير، 8 / 121، الرقم : 7553، و المروزي في السنة، 1 /
20، الرقم : 52.
مسلم في الصحيح، کتاب : الزکاة، باب : ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 745، الرقم
: 1065، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 5، الرقم : 11031، و عبداﷲ بن أحمد
في السنة : 2 / 622، الرقم : 1482،
’’حضرت (عبداللہ) بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت
عطا فرما، اے اﷲ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، (بعض) لوگوں نے عرض
کیا : یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
(پھر) دعا فرمائی : اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اﷲ!
ہمارے لئے ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر) عرض کیا : یا
رسول اﷲ! ہمارے نجد میں بھی میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
تیسری مرتبہ فرمایا : وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ (فتنہ
وہابیت) وہیں سے نکلے گا۔البخاري في الصحيح، کتاب : الفتن، باب : قول النبي
صلي الله عليه وآله وسلم الفتنة من قبل المشرق، 6 / 2598، الرقم : 6681، و
في کتاب : الاستسقاء، باب : ما قيل في الزلازل و الآيات، 1 / 351، الرقم :
990، و الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلي الله عليه وآله
وسلم، باب : في فضل الشام و اليمن، 5 / 733، الرقم : 3953، و أحمد بن حنبل
في المسند، 2 / 118، الرقم : 5987، و ابن حبان في الصحيح، 16 / 290، الرقم
: 7301، و الطبراني في المعجم الکبير، 12 / 384، الرقم : 13422، و المقري
في السنن الواردة في الفتن، 1 / 251، الرقم : 46، و المنذري في الترغيب و
الترهيب، 4 / 29، الرقم : 4666. |