تحریر۔۔ سید کمال حسین شاہ
گرینڈ ٹرنک روڈ یا جسے مختصرًا جی ٹی روڈ بھی کہتے ہیں دراصل ایشیا کی طویل
ترین اور قدیم ترین شاہراہوں میں سے ایک ہے ۔ اس کی عمر 2000 سال ہے ۔ یہ
شاہراہ جنوبی ایشیا کو وسطی ایشیا سے ملاتی ہے جو بنگلادیش سے شروع ہوکر
بھارتی علاقوں سے ہوتی ہوئی پاکستانی پنجاب پھر خیبر پختونخوا اور آخر میں
افغان شہر کابل تک جاتی ہے ۔عہدِ قدیم کے ان تجارتی راستوں کو مجموعی طور
پر شاہراہ ریشم کہا جاتا ہے جو چین کو ایشیائے کوچک اور بحیرہ روم کے ممالک
سے ملاتے ہیں۔ یہ گزر گاہیں کل 8 ہزار کلو میٹر (5 ہزار میل) پر پھیلی ہوئی
تھیں۔ شاہراہ ریشم کی تجارت چین، مصر، بین النہرین، فارس، بر صغیر اور روم
کی تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی اور جدید دنیا کی تعمیر میں اس کا
بنیادی کردار رہا ہے ۔
شاہراہ ریشم کی اصطلاح پہلی بار جرمن جغرافیہ دان فرڈیننڈ وون رچٹوفن نے
1877ئمیں استعمال کی تھی۔ اب یہ اصطلاح پاکستان اور چین کے درمیان زمینی
گزر گاہ شاہراہ قراقرم کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے ۔شاہراہ قراقرم (
این-35) پاکستان کو چین سے ملانے کا زمینی ذریعہ ہے ۔ اسے قراقرم ہائی وے
اور شاہراہ ریشم بھی کہتے ہیں۔ یہ دنیا کے عظیم پہاڑی سلسلوں قراقرم اور
ہمالیہ کو عبور کرتی ہے ۔ درہ خنجراب کے مقام پر سطح سمندر سے اس کی بلندی
4693 میٹر ہے ۔ یہ چین کے صوبہ سنکیانگ کو پاکستان کے شمالی علاقوں سے
ملاتی ہے ۔ یہ دنیا کی بلند ترین بین الاقوامی شاہراہ ہے ۔یہ بیس سال کے
عرصے میں 1986ئمکمل ہوئی اسے پاکستان اور چین نے مل کر بنایا ہے ۔ اس کو
تعمیر کرتے ہوئے 810 پاکستانیوں اور 82 چینیوں نے اپنی جان دے دی۔ اس کی
لمبائی 1300 کلومیٹر ہے ۔ یہ چینی شہر کاشغر سے شروع ہوتی ہے ۔ پھر ہنزہ،
نگر، گلگت، چلاس، داسو، بشام، مانسہرہ، ایبٹ آباد, ہری پورہزارہ سے ہوتی
ہوئی حسن ابدال کے مقام پر جی ٹی روڈ سے ملتی ہے ۔د ریائے سندھ، دریائے
گلگت، دریائے ہنزہ، نانگا پربت اور راکاپوشی اس کے ساتھ ساتھ واقع
ہیں۔شاہراہ قراقرم کے مشکل پہاڑی علاقے میں بنائی گئی ہے اس لئے اسے دنیا
کا آٹھواں عجوبہ بھی کہتے ہیں۔
پاکستان میں موٹر وے سے جدا قومی شاہراہوں……ن تمام شاہراہوں کا انتظام
مقتدرہ قومی شاہراہ سنبھالتی ہے ۔ قومی شاہراہوں کے لیے انگریزی حرف N
استعمال کیا جاتا ہے جس کے بعد زیادہ سے زیادہ دو عدد ہوتے ہیں، جیسا N-55۔
تاہم چند قومی شاہراہوں کے نام انگریزی کے حروف S اور E سے بھی شروع ہوتے
ہیں۔ملک کی سب سے بڑی شاہراہ این-5 ہے جو کراچی کو پشاور سے ملاتی ہے ، اس
شاہراہ کی کل لمبائی 1756 کلومیٹر ہے ۔ عام طور پر اسی شاہراہ کو قومی
شاہراہ کہا جاتا ہے ۔
ہمیں ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کے مسائل کا بھی سامنا تھا جس کی وجہ سے سامان
کی آمدورفت وغیرہ میں مسئلہ تھا، اس لیے 11ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سڑک،
ریل و ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر پر خرچ کی جارہی ہے ۔ 21ویں صدی میں سڑک و ریل
ٹرانسپورٹ انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ہائی ویز بھی ضروری ہیں جس
کے لیے چین سے پاکستان تک فائبر آپٹیک کیبل بھی ڈالی گئی تاکہ ہماری ڈیجیٹل
ریڑھ کی ہڈی بھی مضبوط ہو اور ہم دنیا میں معاشی طاقت کے طور پر ابھر سکیں۔
گوادر بندرگاہ جسے ہم نے سی پیک کا گیٹ وے بنانا ہے اس میں سوشل
انفراسٹرکچر کے منصوبے شامل کیے گئے جن میں ایئرپورٹ بھی شامل ہے جس کا جلد
آغاز کردیا جائے گا۔ اسی طرح ایکسپریس وے شروع ہونے والی ہے ۔ گوادر پورٹ
کے انفراسٹرکچر کو وسیع کیا جارہا ہے ، ٹریڈ فری زون کے حوالے سے کام شروع
کردیا گیا ہے جو اس سال کے اختتام تک کام مکمل ہوجائے گا۔ وہاں پانچ ملین
گیلن روزانہ کے حساب سے ریورس اوسموسس واٹر پلانٹ کی منظوری ہوچکی ہے تاکہ
گوادر میں پانی کا مسئلہ حل کیا جاسکے ۔ وہاں تعلیمی اداروں و ہسپتال کے
منصوبے منظور ہو چکے ہیں تاکہ عوام کو بنیادی سہولیات مل سکیں۔گوادر جو ایک
چھوٹے سے قصبے کی طرح تھا آج اس میں 6سے 8لین سڑکوں کا جال بچھ چکا ہے ۔
وہاں بچے گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے جدید ترین سکول میں تعلیم حاصل کررہے
ہیں…… سی پیک کے ذریعے ہم نے 2سال میں سڑکوں کی تعمیر کر کے 2 دن کا فاصلہ
8 گھنٹوں میں بدل دیا ہے اور اب لوگ ایک دوسرے سے منسلک ہوگئے ہیں۔ وہاں
زمین کی قدر بڑھ گئی ہے اور وہاں تیزی سے ترقی کا عمل جاری ہے
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ 21ویں صدی کی بحری شاہراہ ریشم اور شاہراہ ریشم
اقتصادی بیلٹ پرمشتمل ہے جس کا مقصد قدیم شاہراہ ریشم کے روٹ پر تجارت اور
بنیادی ڈھانچے کے نیٹ ورک کی تعمیر کر کے ایشیاء
کو یورپ افریقہ اوردیگر ممالک کے ساتھ منسلک کرنا ہے
اس وقت تک چین نے کل چوہتر ملکوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ دی بیلٹ
اینڈ روڈ انیشیئٹیو سے متعلق تعاون کے معاہدے طے کئے ہیں……دی بیلٹ اینڈ روڈ
انیشیئٹیو عالمی معیشت کی ترقی کی نئی قوت محرکہ بنے گا جو تمام ملکوں کی
مشترکہ خوشحالی کے لئے فائدہ مند ثابت ہوگا۔ہ پاک چین اقتصادی راہداری( سی
پیک) منصوبہ کے تحت ان ممالک کو آپس میں ملانے والی شروعات اور ون بیلٹ
اینڈ روڈ سے ان ممالک میں مواصلاتی روابط قائم ہوں گے ۔ تاریخی شاہراہ ریشم
کی طرح اس سے بھی باہمی تعاون اور خوشحالی لانے والے تعاون کی نئی نئی
راہیں کھلیں گی۔
ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ 3 براعظموں افریقہ، ایشیا اور یورپ کو ملائے گا۔اس
سے دنیا کے 65ممالک استفادہ کر سکتے ہیں۔ یہ منصوبہ شاہراہ ریشم جیسے
منصوبے کی یاد تازہ کرتا ہے ۔اس میگا پراجیکٹ کے تحت منصوبے نہ صرف غربت کے
خاتمہ کا باعث بنیں گے بلکہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے میں بھی
مدد ملے گی۔ اور یہ منصوبہ مختلف خطوں کو آپس میں ملا کر تہذیبوں کے مابین
فاصلے کم کردے گا۔پاکستان چین کے سب سے بڑے تجارتی منصوبے 'ون بیلٹ ون روڈ'
کے فروغ کے لیے چین کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک)
اس منصوبے کا اہم ترین جز ہے ۔ سی پیک سمیت دیگر علاقائی منصوبوں کی مدد سے
اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرسکتے ہیں۔۔پاکستان ?چین ? ترکی‘ وسطی ایشیائی
ریاستوں اور مشرق وسطیٰ کے درمیان جغرافیائی قربت اور مواقع کی بناء پر
ترقی کے بے پناہ مواقع موجود ہیں خاص طور پر چینی مصنوعات کی عالمی منڈی تک
بآسانی رسائی کے لئے پاکستان کے راستے گوادر پورٹ اور اس سے آگے سمندری
راستے سے دنیا بھر تک رسائی جو کبھی ایک خواب دکھائی دیا کرتا تھا‘ آج
اقتصادی راہداری کے ذریعے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے میں زیادہ دیر نہیں
لگے گی۔پاک چین اقتصادی راہداری46 ارب ڈالر کا ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جس سے
دونوں ممالک کے تعلقات نئی بلندی تک پہنچ جائیں گے اور یہ طویل راہداری چین
کے صوبے سنکیانگ کو باقی تمام دنیا سے پاکستان کی مدد سے جوڑے گی اور یوں
چین مزید ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا۔
اس منصوبے کے تحت دونوں ممالک شاہراہوں ? ریلویز اور پائپ لائنز کے ذریعے
باہم منسلک ہوں گے اس منصوبے کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ جن میں
سے سرفہرست گوادر کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی تکمیل ہے اور کچھ چھوٹے
موٹے منصوبے اس کا حصہ ہیں‘ ان میں سے ایک شاہراہ قراقرام کی توسیع ہے ایک
فائبر آپٹک لائن بھی دونوں ممالک کے درمیان بچھائی جائے گی تاکہ ذرائع
روابط کو بہتر کیا جاسکے ۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری سے ملک کے تمام صوبے مستفید ہوں گے جبکہ
بلوچستان‘ خیبر پختونخوا اور فاٹا کو خصوصی طور پر فائدہ ہوگا…… ’’ون بیلٹ
ون روڈ‘‘ کے چینی منصوبے میں متعدد کوریڈور ہیں لیکن ان میں سب اہم اور
نمایاں سی پیک ہے ۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ نہ صرف پاکستان
کیلئے اہم ہے بلکہ یہ ایشیاء کی معیشت اور علاقائی تعاو ن کے حوالے سے بھی
اہمیت کا حامل ہے ۔منصوبے کے مکمل ہونے سے پاکستانی معیشت کی تقدیر بدل
جائے گی۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت اہم منصوبوں میں گوادر پورٹ کی اپ
گریڈیشن، گوادر پورٹ ایکسپریس وے کی تعمیر،گوادر انٹرنیشنل ائیر پورٹ،اور
کراچی سکھرموٹروے کی تعمیر شامل ہے ۔تاکہ اس کی تکمیل سے ملک کی اقتصادی
اور معاشی ترقی اور خوشحالی کے اہداف میں مدد حاصل کی جاسکے ،سی پیک ون
بیلٹ ون روڈ منصوبے کا سب سے اہم حصہ ہے ۔ یہ منصوبہ سرحدوں کا پابند نہیں۔
اس سے خطے کے تمام ممالک مستفید ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں
65 فیصد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ۔ ان منصوبوں کی مدد سے نوجوان نسل کی
صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں۔ علاقائی روابط کے لئے ویژن 2025 پرعمل
پیرا ہیں۔ |