اسلام دین رحمت ہے اس میں بندوں کی طاقت اور زمانے وحالات
کی نزاکت کی رعایت بھی پائی جاتی ہے ۔ ٹھنڈے موسم میں موزوں پر مسح کی
اجازت ہمارے لئے باعث رحمت ہے ۔نبی رحمتﷺ سے موزہ اور جراب دونوں پہ مسح
کرنا ثابت ہے ۔ عمرو بن امیہ سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں:
رأيتُ النبيَّ صلَّى الله عليه وسلَّمَ يمسح على عمامته و خفَّيه .(صحیح
مسلم:205)
ترجمہ : میں نے نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے (وضو میں) اپنی پگڑی اور موزوں پر
مسح کیا۔
مسلم شریف کی یہ حدیث موزہ پر مسح کرنے کی دلیل ہے اور جراب (اونی یا سوتی
موزے) پر مسح کرنے کی دلیل حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی روایت
ہے وہ بیان کرتے ہیں :
توضَّأَ النَّبيُّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ ومسحَ على الجَورَبينِ
والنَّعلينِ(صحیح الترمذی:99، صحیح ابن ماجہ :460)
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو فرمایا اور اپنی جرابوں اور
جوتوں پر مسح فرمایا۔
مذکورہ دونوں احادیث سے ہر قسم کے موزوں (چمڑے، اونی، سوتی) پر مسح کرنے کی
واضح دلیل مل گئی ، ساتھ ہی مسح سے متعلق دیگر تمام نصوص کی روشنی میں پتہ
چلتا ہے کہ احادیث میں موزہ یا جراب پہ مسح کا حکم عام ہے ،اس کی کوئی علت
نہیں بیان کی گئی ہے کہ صرف مجبوری میں یا ٹھنڈ کی وجہ سے یا مرض کی وجہ سے
مسح کرسکتے ہیں ۔ اس وجہ سے آدمی بیمار ہو یا تندرست، مقیم ہویا مسافر،
معذور ہو یا غیر معذور موزے پہ مسح کرسکتا ہے خواہ گرمی کا موسم ہو یا سردی
کا اور چاہےگرم پانی موجود ہویا پھر سردی کم ہو یعنی بلاکسی عذر اور بغیر
کسی مجبوری کے کسی بھی موسم میں اور کہیں بھی موزہ اور جراب پر مسح کرسکتے
ہیں ۔
میرے اس موقف کی تائید میں چند احادیث پیش ہیں جن کی روشنی میں صراحت کے
ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ بلاکسی عذر کے بھی موزہ / جراب پر مسح کرنا
جائز ہے ۔
پہلی دلیل : حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں :
كنتُ معَ النبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم في سفَرٍ ، فأهوَيتُ لأنزِعَ
خُفَّيهِ، فقال : دَعْهما، فإني أَدخَلتُهما طاهِرَتَينِ . فمسَح عليهما .(صحيح
البخاري:23193)
ترجمہ: میں نبی ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھا کہ (وضو کے وقت) میں نے نبی کریم
صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں سے موزوں نکالنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا:انہیں مت نکالو کیوں کہ میں نے انھیں باوضو ہوکر پہنا
ہے ،پھر آپ نے ان پر مسح کیا۔
دوسری دلیل : زر بن حبیش کے متعلق وارد ہے :سألتُ صفوانَ بنَ عسَّالٍ عنِ
المسحِ علَى الخفَّينِ ؟ فقالَ : كانَ رسولُ اللَّهِ يأمرنا إذا كنَّا
مسافرينَ ، أن نمسحَ علَى خفافنا ، ولا ننزعَها ثلاثةَ أيَّامٍ من غائطٍ
وبولٍ ونومٍ إلَّا من جنابةٍ(صحيح النسائي:127)
ترجمہ: (زر بن حبیش) نے صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے موزے پہ مسح کے
متعلق پوچھا توانہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ حکم
دیا کرتے تھے کہ ہم حالت سفر میں اپنے موزوں پہ مسح کریں۔اور اسے تین دن،
تین رات تک پیشاب،پاخانہ اور نیند سے نہ اتاریں الایہ کہ جنابت کی
حالت(درپیش) ہو۔
تیسری دلیل: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے :لو كانَ الدِّينُ بالرَّأيِ
لَكانَ أسفَلُ الخفِّ أولى بالمسحِ مِن أعلاهُ، وقد رأيتُ رسولَ اللَّهِ
صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ يمسَحُ على ظاهرِ خُفَّيهِ . (صحيح أبي
داود:162)
ترجمہ: اگر دین کا دارو مدار عقل پر ہوتا تو موزوں کے ظاہری حصے پر مسح
کرنے سے بہتر ہوتا کہ باطنی حصہ پر مسح کیا جاتا، میں نے رسول اللہ ﷺ موزے
کے طاہری حصے پہ مسح کرتے دیکھا۔
یہ سارے نصوص بتلاتے ہیں کہ بغیر کسی عذر کے بھی موزه اور جراب پہ مسح
کرسکتے ہیں ۔مسافر کے لئے تین دن اور تین رات اور مقیم کے لئے ایک دن اور
ایک رات مسح کرنے کی اجازت ہے ۔ مسافر ومقیم کے درمیان مسح کی مدت کے اس
فرق کو دھیان میں رکھنا چاہئے ۔اب یہاں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ مسح کرنا
افضل ہے یا پاؤں دھونا افضل ہے ؟
اس سلسلے میں شیخ الاسلام ؒ اور ان کے شاگرد ابن القیم ؒ نے بہترین بات
لکھی ہے کہ افضل صورت انسان کے لئے وہ ہے جو اس کے قدم کے موافق ہے یعنی
اگر وہ موزہ پہنے ہوا ہے تو مسح کرنا افضل ہے اور اگر قدم کھلا ہوا ہے تو
دھونا افضل ہے اور موزہ اس لئے نہ پہنے کہ اس پہ مسح کرنا ہے۔
(الإنصاف:1/378و زاد المعاد:1/199)
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ موزوں پر مسح کيلئے چار شرطيں پائی جانی چاہئے
:
(1) دونوں موزے/جراب وضو کرکے پہنے گئے ہوں ۔
(2) موزے/جراب پاک ہوں ۔
(3) مسح حدث اصغر یعنی پیشاب و پاخانہ سے کیا جائے ،حدث اکبریعنی غسل سے
نہیں۔
(4) مسح مدت کے اندر کيا جائے ۔ |