حرام آمدنی

طلحہ السیف
مجھے ایک صاحب بہت کثرت سے ای میل کرتے رہتے ہیں اور ان کے ان پیغامات کا غالب موضوع گھریلو اور معاشرتی پریشانیوں کا ذکر اور ان کے حل کے لئے وظائف و دعائیں پوچھنا ہوتا ہے مگر وہ ہمیشہ کہتے رہتے ہیں کہ ان کی دعائیں قبول نہیں ہوتی اور وظائف بے اثر رہتے ہیں۔ گزشتہ چند ہفتوں سے انہوں نے اپنے حالات کی سختی کا جس انداز میں رونا رویا اس پر مجھے خود کئی بار رونا آگیا۔ ان سے پوچھا کہ کیا آپ بے روزگار ہیں جو اس قدر پریشان ہیں؟ دو دن بعد جواب آیا کہ بڑی اچھی نوکری ہے تنخواہ اورالاؤنس ماہانہ ایک لاکھ کے لگ بھگ بن جاتے ہیں۔ پوچھا نوکری کیا ہے تو جواب آیا جناب بنک میں آفیسر ہیں۔ ان کے اس جواب سے ذہن کی الجھن کافی حد تک دور ہو گئی اور سمجھ میں آگیا کہ پریشان کیوں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ö سے اعلان جنگ اور پھر امن کی تلاش؟ سکون کی خواہش؟ اطمینان کی جستجو اور خواہش؟
ایں خیال است و محال است وجنوں

یہ بھی سمجھ میں آگیا کہ دعا قبول نہ ہونے اور وظائف بے اثر رہنے کا شکوہ کیوں کر ہے۔ حضور اکرمﷺ نے اس شخص کا ذکر فرمایا ہے جو لمبے سفر کے دوران غبار آلود اور پراگندہ ہونے کی حالت میں اپنے رب تعالیٰ کے حضور ہاتھ اٹھا کر دعا مانگے اے میرے رب! اے میرے رب! لیکن اس کا کھانا حرام ہو، لباس حرام ہو اور اس کی حرام سے پرورش ہوئی ہو تو اس کی دعا کہاں قبول ہو سکتی ہے؟﴿مسلم﴾ حدیث شریف سے صاف معلوم ہو گیا کہ انسان کی ظاہری حالت اگرچہ انتہائی قابل رحم کیوں نہ ہو حرام مال استعمال کرنے کے سبب اس کی دعائیں رد کر دی جاتی ہیں۔ حضور اکرمﷺ نے اس لئے امت کو حرام مال سے بچنے کی سخت الفاظ میں تاکید فرمائی ہے۔ ارشاد گرامی ہے
’’تم میں سے کوئی آدمی اپنے منہ میں مٹی بھر لے یہ اپنے منہ میں حرام مال داخل کرنے سے بہتر ہے۔‘‘﴿شعب الایمان﴾

حرام مال کمانا آج کل ایسا گناہ بن چکا ہے جس کی شناعت عامۃ المسلمین کے دلوں سے نکل گئی ہے، مال کمانے کے کئی ذرائع تو خود حرام ہیں مثلاً سود، قمار، رشوت وغیرہ اور کئی بدقسمت لوگ حلال ذرائع سے بھی آمدنی کو حرام کرکے کماتے ہیں مثلاً حلال تجارت میں جھوٹ، دھوکہ دہی اور ملاوٹ وغیرہ کرنا۔ ذیل میں چند مروجہ حرام ذرائع کا ذکر اور اوران کی کچھ شناعت کا تذکرہ کیا جاتا ہے تاکہ ان سے بچنے کی فکر پیدا ہو ۔

۱.سود
آمدنی کے حرام ذرائع میں سب سے بدترین ذریعہ’’سود‘‘ ہے۔ قرآن کریم میں نہ صرف یہ کہ سودی لین دین سے منع کیا گیا ہے بلکہ سودی کاروبار میں لگے رہنے والوںسے اعلان جنگ کیا گیا ہے۔ ﴿البقرہ﴾ قرآن کریم میں اس طرح کی سخت وعید کسی ا ور عمل پر وارد نہیں ہے۔ اس سے سودی آمدنی کے منحوس ہونے کا بآسانی اندازہ لگایا جا سکتاہے۔ نیز احادیث شریفہ میں بھی کثرت کے ساتھ سود کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔ حضور ﷺ کا ارشادہے:
سود کا ایک درہم جسے آدمی جان بوجھ کر کھائے اس کا وبال اور گناہ ۶۳ مرتبہ منہ کالا کرنے سے بدترین جرم ہے۔﴿رواہ احمد﴾
آنحضرت ﷺ نے سود کھانے والے ، کھلانے والے، سودی معاملہ کو لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ یہ سب ﴿گناہ ﴾میں برابر ہیں۔﴿مسلم﴾
سیدنا حضرت ابو ہریرہ(رض) آنحضرتﷺ کا ارشاد نقل فرماتے ہیں: سود کے ستر اجزا ہیں جن میں سب سے زیادہ ہلکا درجہ ایساہے جیسے کوئی شخص اپنی ماں سے﴿ نعوذ باﷲ﴾ منہ کالا کرے۔﴿ مظاہر حق﴾

کچھ آزاد خیال دانشوروں نے کافی عرصہ سے یہ غلط فہمی پیدا کر رکھی ہے کہ بینک میں رقم رکھنے پر جو زائد روپیہ ملتا ہے وہ تو شرکت ہے کہ بینک اسی رقم سے کاروبار کرتا ہے پھر اپنے نفع میں سے کچھ حصہ روپیہ رکھنے والوں کو بھی دیتا ہے۔ لہٰذا اسے سود نہیں کہا جائے گا، بلکہ زائد رقم شرکت کا معاوضہ قرار دی جائے گی۔ حالانکہ یہ قول قطعاً بلا دلیل ہے۔ فقہ اسلامی میں بینک سے جو زائد رقم ملتی ہے وہ بلاشک و شبہ’’ ربا النسیہ‘‘ میںداخل ہے۔ جس کی حرمت پر تمام علمائ و فقہائ اسلام متفق ہیں۔ کیونکہ بینک میں جوبھی اضافہ ملتاہے وہ محض مدت گزرنے پر ملتاہے۔ کاروبار میں شرکت کاوہاں وہم وگمان بھی نہیں ہوتا۔ اس لئے یہ نہایت سطحی اور واقعی انتہائی فاسد تاویل ہے کہ بینکوں میں جاری سود کو ’’ربا النسیہ‘‘ سے خارج کر کے خوامخواہ شرکت میں ڈال دیا جائے گا۔ یہ سود خوروں کے شیطانی وساوس ہیں جنہیں امت بار بار رد کر چکی ہے۔

﴿۲﴾ جوا اور سٹہ
شریعت میں آمدنی کے جن ذرائع کی سختی سے ممانعت آئی ہے ان میں جوا اور سٹہ بھی شامل ہے۔ قرآن کریم نے سورۂ مائدہ میں جوئے اور شراب کو ایک ساتھ ذکر کر کے انہیں گندگی اور غلاظت قرار دیاہے۔ اورجناب رسول کریمﷺ نے چوسر﴿جو سٹہ میں کھیلاجاتا ہے﴾ کے بارے میں فرمایا:
’’ جس نے چوسر کھیلا گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور اس کے خون میں سان لیا۔‘‘﴿ مسلم شریف﴾
دیکھئے سٹہ کھیلنے کو آنحضرتﷺ نے کس قدر گھناؤنے عمل سے مشابہ قرار دیا ہے جس کا کوئی مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتا۔ سٹہ بازی کے دینی و دنیوی مفاسد بالکل ظاہر اور روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ علامہ آلوسی(رح) روح المعانی میں لکھتے ہیں:
’’ اور جوئے کے مفاسد میں سے یہ ہیں﴿۱﴾ لوگوں کا مال ناجائز طریقہ پر کھانا﴿۲﴾ اکثر جواریوں کا چوری کرنا﴿۳﴾ قتل کرنا﴿۴﴾ بچوں اور گھر والوں کا خیال نہ کرنا ﴿۵﴾ گندے اور بدترین جرائم کا ارتکاب کرنا﴿۶﴾ ظاہرہ اور پوشیدہ دشمنی کرنا۔ اور یہ بالکل تجربہ کی باتیں ہیں۔ ان کاکوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ الایہ کہ اﷲ تعالیٰ نے کسی کو سننے اور دیکھنے کی صلاحیت سے محروم کر دیا ہو‘‘۔

تجربہ سے یہ بات واضح ہے کہ جس معاشرہ میں سٹہ بازوں کی کثرت ہوتی ہے وہ معاشرہ جرائم اور اعمال بد کی آماجگاہ بن جاتاہے۔ اس لئے کہ مفت میں حرام خوری کی جب عادت پڑ جاتی ہے تو محنت مزدوری کرکے کمانا بہت مشکل ہوتاہے۔ لاکھوں خاندان اس نحوست میں گرفتار ہو کر تباہی اور بربادی کے غار میں جا چکے ہیں۔ اور دونوں جہاں کی رسوائی مول لے چکے ہیں۔

اس دور میں جوئے اور سٹے کی بہت سی شکلیں رائج ہیں۔ اور وہ سب حرام ہیں۔ ان میں ایک ’’لاٹری‘‘ کی لعنت بھی ہے جس کے ذریعہ خوبصورت انداز میں پوری قوم کا خون چوسا جارہا ہے۔ ذرا غور فرمائیں!لاٹری کی ایک کمپنی یومیہ مثلاً تین لاکھ کے ٹکٹ فروخت کر تی ہے۔ اور ان میں سے ایک لاکھ روپے انعام میں دے دیتی ہے تو یہ دو لاکھ روپے جو لاٹری کی کمپنی کو ملا۔ یہ کس کا سرمایہ ہے۔ بیچارے غریب رکشاپولروں اور مزدوروں کا۔ جن کے خون پسینے کی کمائی سرمایہ داروں اور حکومت کے خزانوں میں سمٹ کر چلی جاتی ہے اور محض ایک موہوم نفع کے لالچ میں یہ سادہ لوح عوام اپنی محنت کی کمائی خوشی خوشی چوسنے والوں کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ہمارے سامنے ایسی مثالیں ہیں کہ لاٹری کے نرغے میں آکر کتنے لوگوں نے اپنے گھر کے برتن، بیوی کے زیورات،حتیٰ کہ کپڑے اور مکانات تک بیچ دیئے یا گروی رکھوادیئے۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے کنگال ہو گئے۔

سود اور جوئے کی ایک ترقی یافتہ صورت وہ ہے جسے بیمہ یا انشورنس کہاجاتا ہے، بیمہ خواہ مالی ہو یاجانی اس میں سٹہ کی شکل ضرورپائی جاتی ہے۔ یعنی یہ شرط ہوتی ہے کہ اگر پالیسی کی مدت میں مال ضائع ہو گیا یا پالیسی لینے والا مر گیا تو مشروط رقم بیمہ کمپنی پر ادا کرنی لازم ہو جائے گی۔ اب مال کے بیمہ کی شکل میں شرط نہ پائے جانے کی صورت میں کوئی رقم واپس نہیں ہوتی۔ اور زندگی کے بیمہ﴿ لائف انشورنس﴾ میں اگر پالیسی ہولڈر نہ مرے تو پالیسی پوری ہونے کے بعد ساری جمع شدہ رقم مع سود کے اسے واپس کی جاتی ہے۔اس اعتبار سے لائف انشورنس میں جوا بھی ہے اور سود بھی۔ جبکہ مال کے انشورنس میں صرف جوئے کی شکل پائی جارہی ہے۔ اس لئے علمائ محققین کے نزدیک لائف انشورنس کی حرمت مالی انشورنس کے مقابلے میں زیادہ شدیدہے۔ بریں بنا ہر ایک مسلمان کا یہ فریضہ ہے کہ وہ اختیاری طور پر بیمہ اور انشورنس کے معاملات سے دور رہے اور جہاں کوئی قانونی یا اضطراری مجبوری ہو تو پوری صورت حال بتا کر علمائ حق سے مسئلہ پوچھ کر عمل کرے۔ نفع نقصان کا مالک صرف اﷲ ہے۔ جونقصان اﷲ کی طرف سے مقدر ہے وہ انشورنس کیوجہ سے ٹل نہیں سکتا۔ اس لئے اﷲ پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ اس کا خوف دل میں بٹھانا چاہئے۔ اور محض چند روزہ نفع کے لالچ میںآخرت کے دائمی نفع پر بٹہ نہ لگانا چاہئے نجات اور عافیت کا راستہ یہی ہے۔

﴿۳﴾دوسروں کے مال یا جائیداد پر ناحق قبضہ کرنا
حرام ذرائع آمدنی میں سے یہ بھی ہے کہ بلاکسی تحقیق کے کسی دوسرے شخص کے مال یا جائیداد پر قبضہ جمالیا جائے ۔ قرآن کریم میں متعدد جگہ آپسی رضا مندی کے بغیر باطل طریقے پر ایک دوسرے کا مال کھانے سے سخت منع کیا گیا ہے اور ایک حدیث میں وارد ہے کہ جناب رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا:
جوآدمی بالشت بھر زمین بھی ظلماً لے لے تو سات زمینوں سے اس پر طوق بنا کر ڈالا جائے گا۔﴿ مسلم﴾

اس حدیث کے مفہوم کے بارے میں متعدد معانی بیان کئے گئے ہیں۔ علامہ بغوی(رح)نے لکھا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ بالشت بھر جگہ ساتوں زمینوں تک کھودنے کا اسے حکم دیا جائے گا۔ تواس طرح کھودنے کی وجہ سے وہ حصہ اس کے گلے میں طوق کے مانند معلوم ہو گا۔ بخاری شریف کی ایک روایت سے بھی اس معنی کی تائید ہوتی ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ بیان کیا گیاہے کہ مغصوبہ زمین کے ساتھ ساتوں زمین کی مٹی ملا کر اسے حکم دیا جائے گا کہ اس مٹی کے وزن کواپنے سر پر اٹھا کر لے جائے۔ مسند احمد طبرانی کی روایت سے اس مضمون کی تائید ہوتی ہے۔

اور ایک دوسری روایت میں جناب رسول اﷲﷺ نے ارشادفرمایا کہ :جو شخص ناجائز طریقے پر دوسرے کی زمین کاکچھ حصہ بھی دبا لے تو اس کی کوئی بھی نفلی یا واجبی عبادت اﷲ رب العزت کی بارگاہ میں قابل قبول نہ ہوگی۔﴿ الترغیب و الترہیب﴾

۴. رشوت خوری
رشوت خوری یعنی دوسروں سے ناحق رقم وغیرہ لینے کا مرض ایسا خطرناک اور بد ترین ہے جس سے نہ صرف قوم کی معیشت تباہ ہو جاتی ہے۔ بلکہ جرائم پیشہ افراد کو بھی رشوت کے سہارے خوب پھلنے پھولنے کا موقع فراہم ہوتا ہے۔ جو شخص رشوت کی چاہت میں مبتلا ہو جاتاہے تو اس کی نظر میں نہ اپنے مذہب اور قوم کا مفاد ہوتا ہے اور نہ ملک کی سلامتی کی اہمیت اس کے سامنے رہتی ہے۔

اس کی نگاہ میں تو صرف اپنی جیب کا فائدہ اور منافع خوری ہی کا جذبہ ہوتا ہے۔ اور دولت کے نشہ میں وہ کسی دوسرے کے نقصان کی ہرگز پرواہ نہیں کرتا۔ اس کا دل سخت ہو جاتا ہے۔ اور ذہن سے رحم و مروت کا جذبہ فنا ہوجاتا ہے۔ اسی بنائ پر رشوت ستانی کی شریعت میں سخت مذمت وارد ہوئی ہے۔ آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے:
’’ رشوت لینے والا اور ﴿بلا ضرورت﴾ رشوت دینے والے پر اﷲ کی لعنت ہے۔ ‘‘﴿ الترغیب والترہیب﴾
اور دوسری حدیث میں ارشاد فرمایا:
’’ رشوت لینے والا اور ﴿بخوشی بلاضرورت﴾ رشوت دینے والا دونوں جہنم میں جائیں گے۔﴿طبرانی﴾
نیز ایک حدیث میںآنحضرتﷺ نے رشوت لینے اور دینے والے کے ساتھ رائش یعنی اس شخص پر بھی لعنت بھیجی ہے جو رشوت کے لئے درمیان میں دلالی کرتاہے۔﴿ادب الخصاف﴾
اور ایک روایت میں ہے کہ جو شخص رشوت لے کر ناحق فیصلہ کرے۔ تو اﷲ تعالیٰ اسے اتنی گہری جہنم میں ڈالے گا کہ پانچ سو برس تک برابر گرتے چلے جانے کے باوجود وہ اس کی تہہ تک نہ پہنچ پائے گا۔﴿الترغیب و الترہیب﴾

۵. ناجائز ذخیرہ اندوزی
شریعت نے عوام الناس کو نقصان پہنچا کر اشیائ ضرورت کی ذخیرہ اندوزی کر کے زیادہ کمانے سے بھی منع کیا ہے اسے اصطلاح میں’’احتکار‘‘ کہاجاتاہے۔ نبی کریمﷺ نے اس عمل سے سختی سے منع فرمایا ہے۔
ایک حدیث میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ جو شخص غلہ وغیرہ جمع کرے وہ غلط کار ہے۔‘‘﴿مسلم﴾
اورایک ضعیف روایت میں وارد ہے کہ آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’ جمع خور آدمی بہت براہے کہ اگر اﷲ تعالیٰ چیزوں کی قیمتیں سستی کرے تو اسے غم ہوتاہے او رجب مہنگائی ہو تو اسے خوشی ہوتی ہے۔‘‘﴿ الترغیب و الترہیب﴾

اﷲ تعالیٰ ہم سب کو رزق حلال وسعت کے ساتھ عطائ فرمائے اور حرام سے بچنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین
Shaheen Ahmad
About the Author: Shaheen Ahmad Read More Articles by Shaheen Ahmad: 99 Articles with 210728 views A Simple Person, Nothing Special.. View More