صحافت کا موجودہ معیار

صحافت کا موجودہ معیار

جوں جوں وقت گزر رہا ہے دنیا سکڑتی جا رہی ہے اور یہ سب جدید ٹیکنالوجی سے ممکن ہوا ہے جہاں اس کے بہت سے فوائد ہیں وہاں اس کے بے شمار نقصانات بھی ہیں ۔ ہر چیز کو استعمال میں لانے کا اپنا طریقہ ہوتا ہے اگر اس کو قانون اور اصل طریقہ کار کے مطابق استعمال کریں گئے تو اس کے فوائد بہت زیادہ ہیں اگر انہی چیزوں کو غلط ٹائم پر غلط طریقے سے استعمال کریں گئے تو یہ نہ صرف ہماری اپنی ذات کے لیے نقصان دہ ہوتی ہیں بلکہ ہمارے ارد گرد رہنے والے بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں، اسی طرح کسی کو کوئی اہم عہدہ ملا ہے تو وہ بھی اگر اس کا اچھا استعمال کرے گا تو معاشرے کے ہزاروں افراد کو اس کا فائدہ ملتا ہے اور اگر اسی عہدے کا غلط استعمال کرتا ہے تو معاشرے کے بہت سے لوگوں کے لیے وہ ناسور بن جاتا ہے، موبائل فون پر ایس ایم ایس مارکیٹینگ نے بہت سے لوگوں کو اپنے کاروبار کی تشہیر کی سستا موقع فراہم کیا ہے ۔ اسی طرح کا ایک تشہیری میسج کل میرے موبائل پر آیا جس کو دیکھ کر میں یہ کالم لکھنے پر مجبور ہوا ، اس میسج کے الفاظ ہو بہو نقل کر رہا ہوں ادارے کا نام نہیں لکھ رہا ’’پریس رپورٹر بن کر اپنے ہی علاقے میں ڈیوٹی کریں اور ماہانہ بیس سے تیس ہزار کمائیں ادارے کی طرف سے پریس کارڈ اور موٹر سائیکل نمبر پلیٹ دی جائے گی اپنا نام ،فون نمبر اور شہر کا نام ایس ایم ایس کریں‘‘ یہ تو ایک ایس ایم ایس تھا چاہے اس کا کوئی بھی مقصد ہو لیکن بظاہر یہ پیسے کمانے کا چکر نظر آرہا ہے لوگوں سے پریس کارڈ کی فیس کے نام پر پیسے بٹورے جاتے ہیں اور پریس کارڈ بانٹ دیے جاتے ہیں آگے وہ لوگ کام کریں یا نہ کریں دونوں طرف کے لوگ فائدہ اٹھا لیتے ہیں ایک طرف پیسے اکٹھے ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف بغیر کسی تحقیق اور تجربے کے ایک بندہ صحافی بن جاتا ہے میرا مطلب اس کے پاس پریس کارڈ آجاتا ہے ، اب کسی بس کنڈیکٹر کو پوچھیں یا کسی ریڑھی والے کو ، کسی مکینک کو پوچھیں یا ہوٹل میں کام کرنے والے ویٹر کو ، کسی مستری کو پوچھیں یا کسی نائی کو سب ہی صحافی ہیں۔ پہلے پہل جب کوئی پوچھتا تھا کہ کونسے اخبار میں کام کرتے ہیں تو بتاتے ہوئے اچھا بھی لگتا تھا اور لوگ عزت بھی کرتے تھے اب کوئی پوچھتا ہے تو بتانے کے لیے منہ کھولنے کی دیر ہوتی ہے کہ جھاڑو دینے والا ورکر اپنا بتا دیتا ہے کہ میں فلاں اخبار میں رپورٹر ہوں تو کھلا ہوا منہ تھوڑا اور کھل جاتا ہے، یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ صحافت کا معیار اتنا گر گیا ہے کہ میڈیا ہاؤسز بغیر سوچے سمجھے ہر کسی کو پریس کارڈ جاری کر دیتے ہیں جو بہت سی جگہوں پر غلط استعمال ہوتے ہیں اور اصل صحافی جو کام کرتے ہیں ان کے لیے بھی مشکلات کا باعث بن جاتے ہیں ۔ اگر ایک پریس کلب کے پچاس ممبر ہیں تو آپ خود چیک کر لیں کہ ان میں سے کتنے ممبر اخبارات کے لیے خبریں بھیجتے ہیں یا کوئی کام کرتے ہیں اکثر پریس کلبوں میں بھی دو قسم کے لوگ بیٹھے ہوئے ہیں ایک وہ جو واقعی صحافی تو ہیں کام بھی کرتے ہیں لیکن وہ ورکنگ صحافیوں کو آگے نہیں آنے دیتے تا کہ ان کے عہدوں پر کوئی اثر نہ پڑھے اور اس کے لیے یہ بہانہ تراشا جاتا ہے کہ ممبر شپ بند ہے یا پھر ممبر بننے یا صحافی بننے کے لیے صحافتی ڈپلومہ ہونا ضروری ہے اور یہ پانچ چھ بندوں کا گروپ مل جل کر ورکنگ جرنلسٹ کا استحصال کرتا ہے ، ہو سکتا ہے آپ میری سوچ سے متفق نہ ہوں لیکن میرے خیال میں صحافی کو کسی تعلیمی ڈگری یا ڈپلومے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ کوئی بھی اچھی شہرت کا تجربہ کار بندہ جو عام لوگوں کا درد جانتا ہو اس کو اپنے الفاظ میں ڈھالنا جانتا ہو اور عام عوام کے مسائل کو اعلیٰ سطح تک مؤثر انداز میں پہنچانے کا فن جانتا ہو اس کو صحافت کرنے کا حق حاصل ہے اور وہی اصل صحافی بھی ہے ورنہ کسی کے پاس صحافت کی کتنی ہی بڑی ڈگری کیوں نہ ہو کچھ لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہوں ، عام عوام کے مسائل کو صرف باتوں کی حد تک جانتا ہو ، اعلیٰ افسران کی جی حضوری کے لیے ہر وقت حاضر ہو پیسوں کے چند ٹکڑوں پر بک جانے کے لیے تیار ہو اور کرایے کے لکھاریوں سے کالم لکھواتا ہو سٹیج پر بڑے گرج دار انداز میں بات کرتا ہو لیکن عام عوام کے لیے بولتے یا لکھتے ہوئے اس کی زبان گنگ اور ہاتھ شل ہو جاتے ہوں تو اس کی تعلیمی ڈگری یا صحافتی ڈپلومے کی حیثیت کسی کاغذ کے ٹکڑے سے زیادہ نہیں اور ایسے لوگ پریس کلب کے مضبوط دھڑوں میں شمار ہوتے ہیں، اور دوسری قسم کے لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے پاس صحافت کا ڈپلومہ بھی نہیں ہوتا اور کچھ لکھنے یا بولنے کی صلاحیت سے بھی محروم ہوتے ہیں لیکن بلیک میلنگ کے فن سے خوب واقف ہوتے ہیں اور یہ طبقہ پہلی قسم والے صحافیوں کو ووٹ اور سپورٹ مہیا کرتے ہیں جس کی وجہ سے درمیانی طبقہ یعنی ورکنگ صحافی اپنے جائزحق سے محروم ہو جاتے ہیں اور ان کو آگے آنے سے روکا جاتا ہے اس کی وجہ سے وہ بغیر کسی سرپرستی کے غیر منظم انداز میں کام کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کے آگے آنے سے شہرت حاصل کرنے اور مال کمانے کے رستے محدود ہو جاتے ہیں ایسے میں ورکنگ صحافیوں کو ان مافیاز کے خاف خود اپنے حق کے لیے منظم انداز میں اکٹھے ہو کر جد وجہد کرنی چاہیے اور تا کہ پریس کلبوں میں جعلی صحافیوں کا داخلہ بند کیا جا سکے تا کہ صحافت کے مقدس پیشے کی عزت بحال کروائی جا سکے۔
 

Shahid Mehmood
About the Author: Shahid Mehmood Read More Articles by Shahid Mehmood: 23 Articles with 21002 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.