پاکستان میں بسنے والے لاکھوں لوگ ہر سال صرف اس لئے
بیرون ملک ہجرت کر جاتے ہیں کہ وہ اپنی غربت ختم کر سکیں اپنی غربت کو ختم
کرنے کے لئے اپنے خاندان کا سہارا بننے کے لئے کئی نوجوان ہر سال اپنی
جانوں کو داؤ پر لگاتے ہیں یہ سب پیسے کمانے کے لئے ہو رہا ہے اس موقع پر
والدین بھی دوسروں کی دیکھا دیکھی اپنی اولاد کو اس آگ میں دھکیل دیتے ہیں
جہاں کی منزل موت ہی ہے اکثر لوگ اس میں ناکام ہوتے ہیں اور والدین اپنی
جمع پونجی بھی اس کام پر لٹا دیتے ہیں۔انسانی سمگلنگ دنیا بھر میں ایک جرم
ہے مگر ہمارے ہاں کیا کیا جائے جب انسان خود ہی سمگل ہونے کے لئے بیتاب ہو
یہاں لوگ سنہرے خواب انکھوں میں سجائے دنیا کے امیر ممالک جانے کے لئے ہر
جائز و ناجائز طریقے آزما نے کو تیار نظر آتے ہیں ساٹھ ستر کی دہائی میں جب
منگلا ڈیم کی تعمیر ہوئی تھی تو خطہ پوٹھوار کے بہت سے لوگ انگلینڈ منتقل
ہوئے تھے جو وہاں پر جا کر اس قدر خوشحال ہوئے کہ پاکستان کے دیگر علاقوں
کے رہنے والوں کو بھی وہاں جانے اور پیسے کمانے کا اشتیاق ہوا اور یوں ایک
نہ رکنے والا سلسلہ چل نکلا یہ وباء اس قدر پھیلی کے ناصرف خطہ پوٹھوا ر
بلکہ اس کے ہمسائے علاقے کے بھی لوگ یورپ منتقل ہونا شروع ہو گئے یورپی
ممالک میں پاکستان کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے بعد ازاں نائن الیون
کے بعد جب پوری دنیامیں دہشت گردی کی وباء پھیلی تو رکاوٹ پیدا ہوئی اور وہ
لوگ جو غیر قانونی طور پر یورپ یا امیر ممالک میں منتقل ہو رہے تھے ان پر
پابندی لگی لیکن اس کے باجود بھی پیدل سفر کے ذریعے سے لوگ جان جوکھوں میں
ڈال کر پہنچتے رہے اور کئی لوگ منزل پر پہنچ جاتے مگر اکثریت راستے ہی مر
جاتے یا پھر نامراد واپس لوٹ آتے ان لوگوں کو وہاں لے کر جانے والے منظم
ایجنٹ ہوتے ہیں جو یہاں ہر بڑے شہر میں باآسانی دستیاب ہوتے ہیں یہ ایجنٹ
جن کا سفر پاکستان کے اندورنی علاقوں سے شروع ہوتا ہے اور چلتے چلتے یورپ
تک پہنچتا ہے آئے دن ایسے واقعات میں مرنے والوں کی کئی کہانیاں منظر عام
پر آتی ہیں حال ہی میں ہی بلوچستان کے ضلع کیچ میں 20 نوجوانوں کو دہشت
گردوں نے فائرنگ کرکے قتل کیا ان افراد کا تعلق شمال مشرقی پنجاب کے علاقوں
گوجرانوالہ، گجرات اور سیالکوٹ سے تھا۔جو روشن مستقبل کی تلاش میں ایران
اور ترکی سے گذر کر یونان اور دیگر یورپی ممالک میں جانا چاہتے تھے مگر ان
کے سہانے خوابوں کی تعبیر خوفناک موت سے ہمکنار ہو گئی اپنے مقاصد کے حصول
کے لئے انہوں نے قانونی راستہ اختیار کرنے کی بجائے انسانی اسمگلرز کی
خدمات حاصل کیں۔ روشن مستقبل کی خاطر اپنے والدین کی آنکھوں کو تاریک کرنے
والے پاکستانیوں کا یہ پہلا گروہ نہیں تھاان سے پہلے بھی ہر سال لاکھوں
پاکستانیوں نے ایران پاکستان سرحد کو غیر قانونی طور پر عبور کرنے کی کوشش
میں مارے جا چکے ہیں ۔ ان میں سے درجنوں سرحد پر موجود ایرانی بارڈ فورس کی
گولیوں کا نشانہ بنتے ہیں۔ جبکہ ہزاروں گرفتار کرلیے جاتے ہیں جو کئی مہینے
ایرانی جیلوں میں رہ کر ڈی پورٹ کردیے جاتے ہیں۔صرف سال 2016 میں بیس ہزار
پاکستانی نوجوانوں کو ایران نے ڈی پورٹ کرکے پاکستان واپس بھیجا ان غیر
قانونی تارکین وطن میں سے جو کامیابی سے ایرانی سرحد کے پار چلا جائے اس کے
لئے اگلی مشکل ایران کے اندر اور بعد میں ایران ترکی سرحد پر ہے جہاں ان
میں سے بہت سارے ایرانی اور ترک محافظوں کے ہاتھوں جان دے دیتے ہیں ایک
اندازے کے مطابق پاکستان سے یونان تک ساڑھے چار ہزار کلومیٹر کو طے کرنے کے
لئے انسانی اسمگلرز کوفی کس ایک لاکھ روپے سے زائد روپے دیے جاتے ہیں۔ جس
کے بدلے آنکھوں میں حسین سپنے سجائے نوجوان پنجاب سے بلوچستان اور وہاں سے
تفتان سے ہوتے ہوئے ایران داخل ہوتے ہیں۔ جنہیں وہاں کئی روز تک چھپا کر
رکھا جاتا ہے اور مناسب موقع پر ترکی کے بارڈر تک پہنچا دیا جاتا ہے ترکی
کی سرحد پار ہونے پر بھی ان کو چھپ کر رہنا پڑتا ہے یورپ میں داخل ہونے کے
لئے کشتیوں اور دیگر ذرائع کا سہارا لیا جاتا ہے مگر بہت کم خوش نصیب ہوتے
ہیں جن کے یہ خواب پورے ہوتے ہیں ورنہ ذلت برداشت کرکے وہ ڈی پورٹ ہوتے ہیں
یا سرحدوں پر جان دیکر اپنے بوڑھے والدین کے لیے تاعمر غم کا ذریعہ بن جاتے
ہیں۔دوسری طرف حالیہ سانحے کے میڈیا پر آنے کے باوجود بھی حکومت پاکستان
بہت زیادہ متحرک دکھائی نہیں دیتی جو ہر سانحے کے بعد ہی متحرک ہوتی ہیابھی
بلوچستان کے واقعے کے بعد ایف آئی اے نے گوجرانوالہ اور دیگر علاقوں میں
کچھ انسانی اسمگلرز کو گرفتار کیا ہے اور دہشتگردی میں ملوث افراد تک
پہنچنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مگر یہ کوششیں عارضی ثابت ہوں گے کچھ عرصے کے
بعد دوبارہ انسانی اسمگلرز متحرک ہو جائیں گے اور حکومت کو دو بارہ متحرک
ہونے کے لئے ایک اور سانحے کی ضرورت ہوگی۔ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ جب بھی
کوئی بڑ ا واقعہ رونماء ہوتا ہے تو ہم اس وقت بیدار ہوتے ہیں اس کے کچھ دن
بعد ہی وہ کام پھر سے اور زیادہ تیزی سے شروع ہو جاتا ہے انسانی اسمگلنگ کے
ان اندوہ ناک واقعات کو روکنے کے لئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو مستقل
بنیادوں پر کام کرنا ہوگاایسے واقعات کی رو ک تھام کے بہت سے دیگر طریقے
ہیں جن میں سب سے اہم قانونی طریقے سے یہاں کے نوجوانوں کو بیرون ملک
روزگار کے مواقع میسر کرنا بھی ہے دنیا کے بیشتر ممالک میں افرادی قوت کی
کمی ہوتی ہے ایسے میں اگر حکومت تمام ممالک کے ساتھ ایسے معاہدے کرئے جن کے
ہاں پر ہماری افرادی قوت استعما ل ہو سکے تو اس سے پاکستان کو ناصرف غربت
کم کرنے میں مددملے گی بلکہ دیگر ممالک سے آنے والے زر مبادلہ سے یہاں کی
معیشت بھی بہتر بنائی جا سکتی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ کام کس کے کرنے کے
ہیں جن کے کرنے کے ہیں وہ اپنے جھمیلوں میں پھنسے ہوئے ہیں اپنے ملک
اورعوام کی خاطر اگر کوئی پالیسیاں بنانے والا ہو تو یہ کام دنوں میں ہو
سکتا ہے لیکن اگر کوئی ہو تو ۔۔۔۔۔ |