ہماری ریسرچ کا معیار بھی کچھ عجیب ہے بلکہ سچ کہوں تو
بعض اوقات باعث شرمندگی ہے ۔ایک نیا نیا Phd زدہ بچہ ملا۔ اس نے سکولوں کے
بارے تحقیق کی تھی اور اپنا مقالہ مجھے دکھا رہا تھا۔لاہور کے قریب ایک
علاقے کے سکولوں کی حالت زار کا تذکرہ تھا۔بتانے لگا کہ Phd بڑا مشقت طلب
کام ہے ۔ میں چل چل کے پاگل ہو گیا تب کہیں جا کر یہ ڈیٹا اکٹھا ہوا۔بڑی
ویران جگہوں پر سکول تھے جہاں جانا پڑا۔ Phd کا مقالہ لکھنے کے لئے اس نے
جس قدر مشقت کی اس کو اس نے اپنے بیان میں اس طرح سمویا تھا کہ اس محنت کی
مشقت اس کے چہرے سے چھلک چھلک جا رہی تھی۔ بات کرتے ہوئے بھی لگتا تھا کہ
ابھی تک سانس چڑھی ہوئی ہے۔میں عادتاً مقالہ پڑھنے لگا۔ اتفاق سے ایک ایسے
سکول کا ذکر آ گیا جس کا نام میں نے سن رکھا تھا۔ میں نے عرض کی ، برادر !یہ
سکول تو بہاولپور میں پایا جاتا ہے اور تمہاری ریسرچ ساری لاہور کے قریب
ایک علاقے سے ہے، یہ سکول یہاں کیسے منتقل ہو گیا۔پھر ہنس کر کہا، بیٹا نقل
ضرور مارو مگر تھوڑا سا تکلف یہ کر لو کہ سکولوں کے نام ریسرچ کرنے والے
علاقے کے ہی ہوں ۔ نام بدلنے میں تو کوئی حرج نہیں۔ کچھ شرمندہ ہو کر کہنے
لگا۔ میں نے سارا کام خود کیا ہے۔ پھر پھر کر پاگل ہو گیا تھا۔ ایک دو
جگہوں پر ایک دوست کو اپنی جگہ بھیج دیا تھا۔ لگتا ہے اس نے گڑ بڑ کی ہے۔
میں دیکھ لیتا ہوں۔میں نے ہنس کر کہا کہ بیٹا اب کیا دیکھو گے، یہ مقالہ
سارے مرحلے طے کر چکا۔ جس نے تمہیں ڈاکٹریٹ کرائی اس نے بھی نہیں دیکھا۔
ریفری حضرات نے بھی بغیر دیکھے پاس کر دیا ہے، بس عیش کرو اور آئندہ کسی
میرے جیسے نان Phdمتعصب ٹیچر کو مقالہ مت دکھانا۔خوامخواہ شرمندگی ہو گی۔
دو ڈھائی سال پہلے کی بات ہے میں وائس چانسلر صاحب کے پاس بیٹھا تھا کہ ایک
صاحب تشریف لائے۔ ہاتھ میں ایک حیران کن حد تک بڑی کتاب تھی۔ لا کر انہوں
نے وائس چانسلر کی میز پر رکھی اور بولے، ’’سر میں چاہتا ہوں آپ میری محنت
دیکھیں۔ یہ تقریباً چھہ ہزار صفحے ہیں۔ سب سے پہلے میری CV ہے۔ پھر میرا
Phd کا مقالہ ہے۔پھر میرے پچاس کے قریب ریسرچ پیپر ہیں ۔ آخر میں کچھ دوسرے
کا غذات ہیں۔ ‘‘ وائس چانسلر مسکرائے، کہنے لگے ، ماشا اﷲ، ویسے آ پ زبانی
ہی بتا دیں کافی ہو گا۔مگر انہوں نے صفحوں کو دائیں بائیں اور اوپر نیچے
کرکے دکھایا بھی اور اس کے بارے بڑی لمبی چوڑی باتیں بھی کیں۔ ان میں کچھ
باتیں سننے والی تھیں اور کچھ ہنسننے والی۔ ان کے جانے کے تھوڑی دیر بعد
میں وہاں سے چلا تو وہ VC صاحب کے دفتر کے ایک اہلکارکو سائیڈ پر لے جا کر
کھانے کی دعوت بھی دے رہے تھے اور اسے کہہ رہے تھے کہ جب بھی کوئی کمیٹی
بننے لگے تو صاحب کو میرا نام یاد دلانا تمھاری ذمہ داری ہے۔جس حد تک وہ گر
کر اور جس انداز سے اس اہلکار سے بات کر رہے تھے ان کا ترقی کے زینے چڑھنا
یقینی نظر آتا تھا۔
دو دن بعدمیں ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھا تھا اور ڈائریکٹر کا پی اے مجھ سے کوئی
بات کر رہا تھاکہ وہی صاحب تشریف لائے ۔ پی اے کو بڑا جھککر ملے اور اسے
کہا سر یہوں سے گزر رہا تھامیں نے سوچا سلام کر لوں۔ پی اے صاحب جواباً
مسکرائے ۔ میں ریٹائرڈ آدمی ہوں، مجھ سے بھی جاتے جاتے سرسری سلام دعا ہوئی
اور پی اے کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے باہر نکل گئے۔کچھ دن بعد پتہ چلا کہ
ہر کمیٹی کے ممبر یا چیئرمین ہیں۔ایک دن ایک سینئر پروفیسر کے کمرے میں پھر
ملاقات ہوئی ۔کچھ سوچ کر بولے آپ سے شاید VC کے دفتر میں ملاقات ہوئی تھی۔
آپ ان کے دوست ہیں۔جی دوست تھا۔ جب کوئی شخص بڑا آدمی ہو جاتا ہے تو دوستی
کہیں پیچھے رہ جاتی ہے۔ بس اک مہربانی ہے کہ وہ پرانے تعلقات کے حوالے چھی
طرح مل لیتے ہیں۔مجھے کہنے لگے ۔ویسے VC صاحب بڑے مردم شناس ہیں۔میں نے صرف
انہیں اپنی پچھلے اداروں کی خدمات کے بارے بتایا تو انہوں نے مجھے بہت سے
کام سونپ دیئے ہیں۔خدمت اپنا شعار ہے لگے ہوئے ہیں۔وہ باہر نکلے تو پروفیسر
صاحب جن کے کمرے میں میں بیٹھا تھا۔کہنے لگے VC صاحب کو پتہ ہی نہیں
لگتا۔شاید مصروفیت اور کام کا پریشر ہے کہ اس جیسے احمق کو بہت سے کام سونپ
دیئے ہیں۔ اسے پتہ ہی نہیں کہ کرنا کیا ہے۔کہتا ہے پچاس سے زیادہ ریسرچ
پیپر ہیں۔میرے حساب سے تو ایک بھی لکھنا اس کے بس کی بات نہیں۔
تین چار ماہ بعد ایک دن VC سے ملاقات کے دوران وہ صاحب آن پہنچے۔ کسی کام
کو مکمل نہ کرنے پر VC صاحب بہت ناراض تھے۔ تھوڑی سی عزت افزائی کے بعد وہ
واپس لوٹ گئے تو میں نے ناراضی کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے،اس شخص کو ایک
لائن بھی لکھنی نہیں آتی۔ چاہتا ہے کہ ہر کام اس کے ذمہ لگا دیا جائے۔ ہر
کام میں سے کچھ ڈھونڈھ رہا ہوتا ہے۔ کلرکوں کے ساتھ بیٹھ کر کچھ جوڑ توڑ
کرتا رہتا ہے۔ خود کچھ لکھنا نہیں آتا۔ ان سے اپنی مرضی کے مطابق لکھواتا
ہے۔ میں نے ہر ذمہ داری سے فارغ کر دیا ہے اب پرانی فائلیں بھی دینے میں
تاخیری حربے آزما رہا ہے۔ میں نے ہنس کر کہا یقیناً اس کی ڈگری اور ریسرچ
پیپر سب جعلی ہوں گے یا سب جعلسازی ہو گی۔VC صاحب میری بات سن کر مسکرائے
مگر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
ایک بچی Phd کرنے کے بعد بہت خوش تھی، اپنا کام کے بارے بتانے خوش خوش میرے
پاس آئی۔ موضوع پوچھا تو بتایا
’’ health benefits of sweet preserve of rose petals‘‘
تفصیل بتاتے اس نے عجیب نقشہ کھینچا۔ پہلے اسے اچھے گلاب نہیں مل رہے تھے۔
پتہ چلا کہ اچھے گلاب ہالینڈ سے مل سکتے ہیں۔ ہالینڈ جانے کے لئے فنڈ حاصل
کرنا بڑا مشکل مرحلہ تھا۔ بہت سی سفارشوں سے یہ مرحلہ طے ہوا۔ پھر اچھے
گلابوں کی پیسٹ بنانے کے لئے معقول گرائینڈر بھی خاص طور پر جرمنی سے
منگوایا گیا۔ اس گرائینڈر کے لئے فنڈ لینا بہت ہی زیادہ مشکل مرحلہ تھا۔بس
کیا بتاؤں چار سال کتنی بھاگ ڈور میں گزرے۔ اب میرا مقالہ مکمل ہوا ہے، مگر
سوچتی ہوں کہ Phd واقعی بہت مشکل ہے۔ میں نے پوچھا ، بیٹا اس کے اجزا بھی
معلوم کئے کہ جن کی وجہ سے یہ انسانی صحت اور جلد کے لئے مفید ہے۔ جواب
ملا۔ پاکستان میں ایسی کوئی سہولت ہی نہیں ، اجزا کا کیسے پتہ لگایا جا
سکتا ہے۔ میں ہنسا اور کہا، بیٹا پھر تم نے کیا نیا کام کیا ہے،یہ جو سب
کچھ تم مجھے انگریزی میں بتا رہی ہو، کوئی پرانا حکیم یا سنیاسی پنجابی میں
فر فر بتاتا اور بنا کر بیچتا ہے ۔ بازار جاؤ اور گلقند لے آؤ جو اس کا
دیسی نام ہے۔ تم نے خوامخواہ چار سال ضائع کئے۔پاکستان کا سرمایہ بھی ضائع
کیا۔ وہ بھی کمال احمق تھے جنہوں نے تم کو اتنا پیسہ اس فضول کام کے لئے دے
دیا۔بیچاری مجھے گھورتی مایوس اور ناراض وہاں سے چلی گئی۔لیکن جس وی آئی پی
ا نداز میں اس نے ریسرچ کی اور ڈگری حاصل کی ،لگتا ہے کسی با اثر شخص کی
رشتہ دار ہے ۔
یہ تو چند داستانیں ہیں۔اسی طرح سارے مقالوں کا مطالعہ کرتے جاؤ تو بس سنتا
جا شرماتاجا۔چند ایک صحیح ریسرچر اشخاص کے علاو ہ باقی سب وسائل کی لوٹ مار
کے سواکچھ نہیں۔ تعلیم کے علاوہ کسی دوسرے محکمے میں ایسی لوٹ نہیں۔کو ن سا
جج ، کو ن سا انجینیراور کون سا بیوروکریٹ ہے جسے پروموشن کے لئے Phd ڈگری
کی ضرورت پڑتی ہے۔
تعلیم کے محکمے کی اصلاح کے لئے ایک ایسے با اثر شخص کی ضرورت ہے جو اس
سارے عمل کو پوری طرح سمجھتا ہو یا سمجھنے کو تیار ہو۔ جو اندازہ لگا سکتا
ہو کہ کسی شخص کی ڈگری اور اس کا علم آپس میں مطابقت رکھتے بھی ہیں یا
نہیں۔ وگرنہ دو نمبری ہوتی رہے گی۔ گریڈوں کی ریس اور جعلسازی کا چولی دامن
کا ساتھ ہے۔اگر یہی صورتحال جاری رہی توکرپٹ اور فنکار اپنے لئے کسی نا کسی
طریقے سے اپنی جگہ بناتے رہیں گے اور صحیح حقدا ر آسمان کی طرف دیکھتے کسی
خدائی مدد کے انتظار میں دن گزارتے رہیں گے مگر قوم کی حالت بالکل بھی نہیں
بدلے گی۔ |