زندگی میں بہت سی چیزیں بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں ۔ ان
میں سب سے ذیادہ اہمیت کی حامل شے انسان کے لیے علم ہے ۔ علم ان کو انسان
کہلانے کے لائق بنا دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں علم کو
اہمیت دی گئی ہے کہیں یہ گیان ہے تو کہیں اندرکی آواز ۔کہیں علم خود سے
شناسائی ہے تو کہیں ماحول کو جانچنے کا پیمانہ ۔ہر دور میں ہر جگہ علم اپنی
اہمیت کو تسلیم کرواتا رہا ہے۔ دین اسلام میں بھی علم کو خاص اہمیت دی گئی
ہے۔ مگر دیکھنا اور سوچنا یہ ہے کہ کون سا علم اہمیت کا حامل ہے۔ کیونکہ
لوگ جادو کا علم بھی سیکھتے ہیں ۔
غلامی اور علم
غلامی اور علم کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔غلام بنانے اور بننے کا علم بھی دیا
جاتا ہے۔ سرکس میں جانوروں کو قابو رکھنے کا علم بھی علم ہی ہے۔ علم کون سا
بہتر ہے یہ فیصلہ کرنا لازمی ہے۔ موجودہ دور میں جہا ں علم تک رسائی
انتہائی آسان ہو چکی ہے وہاں اپنے بچوں کے لیے بہترین تعلیم کا انتخاب اور
انہیں غلط علوم کو سیکھنے سے بچانے کا اہتمام بھی انتہائی ضروری ہو گیا ہے۔
شہد کی مکھی کوپھولوں کا رس چوس کر شہد بنانے کی تعلیم قدرت نے دی ہے وہ
جانتی ہے کہ کون سے پھول میں قدرت نے کیا رکھا ہے مگر انسان کامعاملہ
پیچیدہ ہے۔ ہمارے ارد گرد غیر معیاری تعلیم کی بھرمار ہے ۔ہمارے ہاں کتابوں
کےڈھیر ہیں۔ جن کاعلم سے دور دور کا واسطہ نہیں مگر لوگوں کے گھروں میں
موجود ہیں ۔ علم انسان کو جہاں انسان بناتا ہے ،وہاں غیر نفع بخش علم انسان
کو حیوان بنا دیتا ہے۔ سڑک کے کناروں پر آپ نے اکثر لکھا ہوا دیکھا ہو گا۔
عامل بابا۔ ایک رات میں وہ ہو گا جو آپ کی چاہت ہو۔ رابطہ کریں ۔
۔۔۔۔۔نوجوان ذہن کے لیے کچھ الفاظ ہی متوجہ کرنے کے لیے کافی ہیں ۔کچھ
نوجوان ایسے عامل بابا کا چیلا بننے کو امیر ہو جانے کا آسان راستہ سمجھتے
ہیں۔ عامل بابا کی غلامی میں زندگی برباد کر لیتے ہیں ۔معاشرے کو ایک نیا
ناسور ملتا ہے۔
خوف اور علم
علم جہاں جرت اور حوصلہ دیتا ہے وہاں انسان کو بزدل بنا دیتا ہے ۔ یہی وجہ
ہے کہ شیزادوں کو بادشاہوں کی بہادری کے قصے سنائے جاتے تھے۔ بچوں کو اتفاق
میں برکت ہے کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں ۔ ہمارا علم ہمارے وجود کے اندر
سرائیت کر جاتا ہے علم انسان پر اسی طرح اثر انداز ہوتا ہے جس طرح خوراک
اثر انداز ہوتی ہے۔ انسان کے عمل میں چاہتے نہ چاہتے تبدیلی آنے لگتی
ہے۔اپنے لیے کتب کا انتخاب سوچ سمجھ کر کیجے ۔جن کتب تک آپ کے بچوں کی
رسائی ہے وہ معیاری ہونی چاہیں۔
جب میں چھوٹی ہوتی تھی تو مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر بھی ایک دو کتابیں ایسی
موجود تھیں ۔ پڑھنے کا شوق رکھنے کی وجہ سے سے میں دونوں کتب کا تفصیلی
مطالعہ کیا۔ ایک تھی موت کامنظر اور دوسری تھی قصائص الانبیا۔ موت کا منظر
میں نے بارہ سال کی عمر میں تقریباً بارہ سے ذیادہ بار پڑھی ۔ جس کا نتیجہ
یہ ہوا کہ میں اندھرے سے ڈرنے لگی اور بعض اوقات تو عجیب و غریب خواب مجھے
پریشان کرنے لگے ۔ عمر اور عقل کی کمی کے باعث میں یہ نہیں جانتی تھی کہ
ایسا کیوں ہو رہا ہے۔ گھر میں کوئی بیمار ہو جاتا تو میں خوفزدہ ہو جاتی ۔
یہ سوچتی کہ یہ مر جائےگا تو قبر ۔قبر کا عذاب۔ موت کے منظر میں جہاں قبر
کا عذاب لکھنے والے نے تفصیل سے بیان کیا ہے وہاں دوزخ کی گہرائی اور اندر
کی تفصیل کو بھی ایسے بیان کیا ہے جیسے موصوف بہت عرصہ تک وہاں رہ کر آئے
ہو۔ قبر کا سانب انسان سے ایسے باتیں کرتا ہے جیسے کوئی بھائی بھائی سے بات
کر رہا ہو۔ یعنی انسان اور جانور کا فرق ہی ختم ۔ جیسے جیسے میں بڑی ہوئی
تو سمجھ میں آیا کہ علم جہاں ایک شہد کی طرح انسان کی زندگی کو خوبصورت
بناتا ہے وہاں غلط قسم کی معلومات انسان کے دماغ کے لیے ذہر کی طرح ہیں ۔
انسانی ذہین اور علم
بعد میں بہترین کتب کے مطالعہ نے میری انکھیں کھولیں اور مجھے پتہ چلا کہ
کیسے انسان پرمعلومات اثر انداز ہوتی ہیں ۔ اچھی باتیں اچھا اور بری باتیں
برا اثر کرتیں ہیں ۔ آپ تلاوت کرنے کے بعد سوتے ہیں تو دماغ میں اس کا اثر
تمام رات رہتا ہے اور اگر آپ کوئی ڈراونی فلم دیکھ کر سوتے ہیں تو کیا
ہوتا ہے اس کا مشاہدہ آپ نے بھی ضرور کیا ہو گا۔ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ
ٹی وی ہو یا اخبار مثبت باتیں کم ہی سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں ۔ علم کے
حصول کا واحد ذریعہ کتابیں ہی ہیں ۔جن کے انتخاب میں آپ کو خود محنت کرنا
ہو گی۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں بہت سے گھرانو ں میں کتابوں سے دلچسپی رکھنے
والے موجود ہی نہیں ۔ لوگ فارغ اوقات میں ٹی وی سے دل بہلاتے ہیں ۔بچوں کو
کورس کی کتابیں غیر دلچسپ لگتی ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ٹیچر نے سکول
میں ہیومین رائٹز پر کتابیں بانٹی تو تمام سٹوڈینس نے بڑے شوق سے کتاب لی
تھی۔ ان میں سے ایک میں بھی تھی ۔میری ایک دوست نے مسکراتے ہوئے کہا تھا۔
چلو کورس سے کچھ تو ہٹ کر پڑھنے کو ملے۔
مقاصد اور علم
علم کے حصول کے لیے بہترین مقاصد کو مدنظر رکھ کر کتب کا مطالعہ نہ صرف آپ
کو اپنے مقصد کے قریب کرتا ہے بلکہ آپ کے عمل میں بھی تبدیلی کا باعث بنتا
ہے۔ اگر آپ ایک مبلغ ببنا چاہتے ہیں تو ایٹمی بم بنانے سے متعلق معلومات
پرھتے رہیں یا پھر بجلی بنانے کے طریقے ۔ آپ کے لیے بے مقصد ہو گا۔ یہ
بلکل اسی طرح ہو گا جیسے انسان گاڑی کو چلانے کے لیے پیٹرول ڈالنے کی بجائے
پانی بھرتا جائے۔پھر جب مقصد پورا نہیں ہوتا تو ہم دوسروں پر الزام دے کر
بری الزمہ ہو جاتے ہیں ۔ اپنے مقاصد کو مدنظر رکھ کر کتب کو متعین کرنا
لازمی ہے ۔ہماری زندگی محدود ہے جبکہ علم اس دنیا پر موجود پانی کی طرح ہے
۔ہم دنیا کا تمام صاف پانی پینے سے قاصر ہیں جبکہ گندہ پانی ہمارے لیے مضر
صحت ہے۔اپنے لیے ہمیں کیا اور کتنا چاہیے یہ ہمیں خود ہی طے کرناہو گا۔یہ
لازم ہے کہ ہم اپنے بچوں کو صاف اور گندے پانی کا فرق سمجھائیں ۔ چھوٹے بچے
کو سمندر کا پانی اور پینے کا پانی ایک جیسا ہی معلوم ہوتا ہے۔
نوجوان اور علم
بچے چیزوں کو ان کی افادیت کے تحت انتخاب نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر
اوقات نوجوان بچے اپنی زندگیاں اپنے ہاتھوں سے برباد کر لیتے ہیں ۔ ہمارے
ہاں ہیرو اور ہیروئن کی محبت کو کہانیوں میں اس طرح پیش کیا جاتاہے کہ لڑکی
کو اپنے ماں ،باپ کا گھر جہنم اور کسی آوارہ لڑکے کے ساتھ بھاگ جانا جنت
کی تخلیق کا موجب لگنے لگتا ہے۔
کالج میں ایک بار پرنسپل راونڈ پر تھیں ۔ہم سب دوستیں گپ شپ میں مصروف تھیں
کہ پرنسل کو کچھ دور لڑکیوں کے ایک گروپ پر غصہ کرتے پایا۔ پرنسپل کے ہاتھ
میں کچھ میگزین تھے ،جن پر کچھ عریاں تصاویر تھیں ،پرنسپل نے غصہ سےکہا کیا
آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے لیے یہ علم ذہر ہے جوآپ کے کردار کا قتل کر دے
گا۔ گویا انہوں نے لڑکیوں کو کچھ غلط قسم کے علم کا حصول کرتے پکڑ لیا
تھا۔پرنسپل کاچہرہ غصہ سے سرخ تھا۔ اس گروپ کی تمام لڑکیاں منہ لٹکائے کھڑی
تھیں ۔
آج کے ترقی یافتہ دور میں اپنے بچوں کو یہ سمجھانا ہمارا اولین فرض ہے
تاکہ وہ غلط قسم کے علم سے دور رہیں ۔ غلط علم نہ صرف غلط مقاصد متعین کی
طرف رہنمائی کرتا ہے بلکہ انسان درست اور غلط کے فرق کو فراموش کر دیتا ہے،
جہاد کے نام پر بم پھٹتے ہیں ،ماڈرن ہونے کے نام پر شراب بٹتی ہے،محبت کے
نام پر عزتوں کے جنازے نکال دیے جاتے ہیں ۔آپﷺ نے بہترین علم کے لیے رب کے
حضور دُعا کی تھی۔ آپ ﷺ نے ہمیں ہر اس علم سے دور رہنے کا حکم دیا ہے جو
نفع نہ دے۔
ہمارا فرض ہے کہ اپنے آنے والی نسلوں کوذہر اور شہد میں فرق کرنا سکھائیں
۔ بچوں کو ان بے مطلب کتابوں سے دور رکھیں جو ان کو خوف کے سوا کچھ نہیں
دیتی۔ خوفناک ڈائجسٹ ، موت کا منظر نامی کتب ہمارے لیے تفکر کا مقام ہیں ۔
یہ عریاں میگزین کہاں اور کیوں چھپتے ہیں ۔بچوں تک ان کی رسائی کیسے ہوتی
ہے ۔ پاکستان جیسے اسلامی ملک میں کیا ایسا ہونا چاہیے ۔ہم سب کے لیے سوچنے
کا مقام ہے۔ |