آج کے دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا
سکتا۔ اس کی اہمیت میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔۔ اس کی سب سے بڑی وجہ عوام
کا سوشل میڈیاسے منسلک ہونا ہے۔ ذرائع ابلاغ، اظہار رائے اور باہم رابطے کے
اطوار اور سہولیات بہت تیز رفتاری کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہیں۔اس میڈیا میں
خبروں اور معلومات کو تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ معلومات کا ذخیرہ آپ تک
خود بخود پہنچ جاتا ہے۔ایک چھوٹی سے چھوٹی خبر کو مقبول کرنے کے لئے کسی
بھی سوشل سائٹ میں صرف ایک پوسٹ شیئر کرنے کی ضرورت ہے پھر یہ خود بخود ایک
سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے فرد تک پہنچ جائے گی۔لوگ اظہار رائے، آگاہی و
تفریح کے حصول کے لئے سوشل میڈیا جیسے فیس بک، ٹوئیٹر، وہاٹس ایپ وغیرہ کا
رخ کرتے ہیں۔ گو سائنس کو یہ ترقی اور آگہی و تفریح کی یہ جدت خوش آئند ہے
مگر ساتھ ساتھ انسان کی جبلت میں موجود منفی پہلوؤں نے بھی معاشرے میں
پنپنے کے نئے راستے اختیار کر لئے ہیں۔ انسان کی جبلت میں ہے کہ جب کوئی
چیز، واقعہ، یا سانحہ اس کی سوچ، مفاد، مرضی اور منشاء کے مطابق نہیں ہو
پاتا تو وہ انگوروں کے کھٹے ہونے کا پرچار کرنے لگتا ہے۔ اکثر اس کی بے جا
اور بے بنیاد مذمت شروع کر دیتا ہے، اس کے خلاف بہتان تراشی ،ملامت شروع کر
دیتا ہے، اپنی پوری قوت سے لگائے گئے ان جھوٹے الزامات کی بھرمار اگرچہ اسے
اپنے مقصد تک رسائی تو فراہم نہیں کرتی مگر جھوٹی مذمت و واویلا سے دوسرے
کی بدنامی اور اس کے لئے طرح طرح کے مسائل کھڑے کردینا اس کی انا کے لئے
سکون کا باعث بنتی ہے۔ کچھ ایسا ہی رویہ ہمیں فیس بک اوروہاٹس ایپ پر
دیکھنے کو ملتا ہے کہ اگر کوئی بات یا نظریہ آپ کی عقل سے بالاتر، کوئی سوچ
آپ کی سوچ کے مترادف نہ ہو ، کوئی مسئلہ یا قانون آپ کی عقلی اور شعوری سطح
سے بلند ہو، یا کوئی دلیل جس سے آپ کی محدود سوچ کے معیار پر ضرب پڑتی نظر
آتی ہوں تو پھر آپ اپنی تمام اخلاقی اقدروں کو بھول کر اس پر الزام تراشی
شروع کر دیں، اس پر جھوٹے اور بے بنیاد الزام لگانا شروع کر دیں۔یہی وجہ ہے
کہ آزادی اظہار رائے کے نام پر آزادی سے جھوٹ ،الزام تراشی ،بہتان تراشی کا
کام وہاٹس ایپ پر ہوتا ہے۔کسی شخصیت کے خلاف نازیبا تبصرہ الزام تراشی طعنہ
تنقید ،خبریں، اوردیگر مواد بغیر کسی تصدیق کے ایک وائرس کی طرح پھیلتا
جاتا ہے اور کوئی تصدیق و تحقیق کی زحمت گوارا ہی نہیں کرتا۔حدیث پاک کا
خلاصہ مفہوم ہے کہ آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ ہر
سُنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے بیان کردے۔
|