(21) اِمام جلال الدین عبدالرحمن
بن ابو بکر السیوطی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی 911ھ) :-
امام جلال الدین سیوطی اپنے فتاويٰ ’’الحاوی للفتاوٰی‘‘ میں علامہ نووی کے
حوالے سے بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
27. أن البدعة لم تنحصر في الحرام و المکروه، بل قد تکون أيضاً مباحة و
مندوبة و واجبة. قال النووي رحمة الله عليه في تهذيب الأسماء واللُّغات،
البدعة في الشرع هي إحداث ما لم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله
وسلم وهي منقسمة إلي حسنة و قبيحة، وقال الشيخ عز الدين بن عبدالسلام رحمة
الله عليه في القواعد : البدعة منقسمة إلي واجبة و محرمة و مندوبة و مکروهة
و مباحة قال : والطريق في ذلک أن نعرض البدعة علي قواعد الشريعة فإذا دخلت
في قواعد الإيجاب فهي واجبة أوفي قواعد التحريم فهي محرمة أو الندب فمندوبة
أو المکروه فمکروهة أو المباح فمباحة، وذکر لکل قسم من هذه الخمسة أمثلة
إلي أن قال : و للبدع المندوبة أمثلة، منها أحداث الربط والمدارس وکل إحسان
لم يعهد في العصر الأول، ومنها التراويح والکلام في دقائق التصوف وفي الجدل،
ومنها جمع المحافل للإستدلال في المسائل إن قصد بذلک وجه اﷲ تعالي.
’’بدعت حرام اور مکروہ تک ہی محصور نہیں ہے بلکہ اسی طرح یہ مباح، مندوب
اور واجب بھی ہوتی ہے جیسے کہ امام نووی اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء و
اللغات‘‘ میں فرماتے ہیں کہ شریعت میں بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں نہ ہوا ہو اور یہ بدعت، بدعت
حسنہ اور بدعت قبیحۃ میں تقسیم ہوتی ہے اور شیخ عزالدین بن عبدالسلام اپنی
کتاب ’’القواعد الاحکام‘‘ میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ بدعت کی تقسیم
واجب، حرام، مندوب، مکروہ اور مباح کے اعتبار سے ہوتی ہے اور فرماتے ہیں کہ
اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہم بدعت کو شریعت کے قواعد پر پیش کریں اگر وہ بدعت
قواعدِ ایجاب کے تحت داخل ہو تو واجب ہے اور اگر قواعد تحریم کے تحت داخل
ہو تو حرام ہے اور اگر قواعدِ اِستحباب کے تحت داخل ہو تو مستحب ہے اور اگر
کراہت کے قاعدہ کے تحت داخل ہو تو مکروہ اور اباحت کے قاعدہ میں داخل ہے تو
مباح ہے اور انہوں نے ان پانچ اقسام کی مثالیں بیان کی ہیں جیسے کہ بدعت
مندوبہ کی مثال سرائے اور مدارس وغیرہ کا تعمیر کرنا اور ہر وہ اچھا کام جو
پہلے زمانے میں نہیں ہوا جیسے کہ نماز تراویح اور علم التصوف کے متعلق گہری
معلومات اور مجادلہ سے متعلق معلومات وغیرہ اور اسی میں سے رضائے الٰہی کے
لئے مسائل میں استدلال کے لئے محافل کا انعقاد کرنا ہے وغیرہ وغیرہ۔‘‘
1. سيوطي، الحاوي للفتاويٰ، 1 : 192
2. سيوطي، شرح سنن ابن ماجه، 1 : 6
3. سيوطي، الديباج علي صحيح مسلم بن الحجاج، 2 : 445
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے قول ’’نعمت البدعۃ ھذہ‘‘ کے ذیل میں نماز
تراویح کو بدعت حسنہ قرار دیتے ہوئے علامہ جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں :
28. عن عمر أنه قال في التراويح : نعمت البدعة هذه(1) والتي ينامون عنها
أفضل فسماها بدعة. يعني بدعة حسنة. و ذلک صريح في أنهالم تکن في عهد رسول
اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، و قد نص علي ذلک الإمام الشافعي و صرح به
جماعات من الأئمة منهم الشيخ عز الدين بن عبد السلام حيث قسم البدعة إلي
خمسة أقسام و قال : ومثال المندوبة صلاة التراويح و نقله عنه النووي في
تهذيب الأسماء و اللغات، ثم قال و روي البيهقي بإسناده في مناقب الشافعي عن
الشافعي قال : المحدثات في الأمور ضربان، أحدهما ما أحدث مما خالف کتابا أو
سنة أو أثرا أو اجماعا فهذه البدعة الضلالة. والثاني ما أحدث من الخير و
هذه محدثة غير مذمومة و قد قال عمر في قيام شهر رمضان : نعمت البدعة هذه.
يعني أنها محدثة لم تکن. (2)
’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے تراویح کے بارے
میں فرمایا یہ کتنی اچھی بدعت ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جاتے ہیں
یہ حصہ اس سے بہتر ہے آپ نے اسی وجہ سے اسے بدعت کا نام دیا یعنی بدعت
حسنہ۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ چیز آقا علیہ السلام کے زمانے میں نہیں
تھی۔ اور اس پر امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے نص پیش کی ہے اور پھر ائمہ کی
جماعتوں نے بھی اس کی وضاحت کی ہے۔ ان میں سے ایک شیخ عز الدین بن عبد
السلام ہیں جنہوں نے بدعت کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا ہے اور انہوں نے کہا
کہ جیسے مندوب کی مثال نماز تراویح ہے اور ان سے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ
نے اپنی کتاب ’’تہذیب الاسماء و اللغات‘‘ میں نقل کیا ہے۔ پھر انہوں نے کہا
کہ امام بیہقی نے بھی اپنی سند کے ساتھ مناقب شافعی میں بیان کیا ہے۔ امام
شافعی سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا محدثات الامور کی دو قسمیں ہیں ان میں
سے ایک احداث ایسا ہے جو کہ کتاب، سنت، اثر صحابہ (یعنی قول صحابہ) اور
اجماع کے مخالف ہے وہی بدعت ضلالہ ہے اور دوسرا احداث جو کہ خیر میں سے ہے
اور یہ احداث غیر مذموم ہے جیسے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ماہ رمضان میں
قیام (یعنی نماز تراویح) کے بارے میں کہا ’’نعمتِ البدعَۃ ھَذِہِ‘‘یہ کتنی
اچھی بدعت ہے، یعنی یہ ایسا محدثہ ہے جو پہلے نہیں تھا۔‘‘
1.
1. مالک، المؤطا، باب ما جاء في قيام رمضان، 1 / 114، رقم : 250
2. بيهقي، شعب الايمان، 3 / 177، رقم : 3269
3. ابن رجب حنبلي، جامع العلوم والحکم، 1 / 266
4. زرقاني، شرح الزرقاني علي مؤطا الامام مالک، 1 / 340
2.
سيوطي، الحاوي للفتاوي، 1 / 348
(22) اِمام ابو العباس احمد بن محمد شہاب الدین القسطلانی رحمۃ اللہ علیہ
(المتوفی 911ھ) :-
علامہ شہاب الدین احمد قسطلانی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فرمان ’’نعم
البدعۃ ہذہ‘‘ کے ضمن میں بدعت کی تعریف اور تقسیم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
:
29. نعم البدعة هذه(1) سماها بدعة لأنه صلي الله عليه وآله وسلم لم يسن لهم
الاجتماع لها ولا کانت في زمن الصديق ولا أول الليل ولا کل ليلة ولا هذا
العدد. و هي خمسة واجبة و مندوبة و محرمة و مکروهة و مباحة و حديث ’’کل
بدعة ضلالة‘‘(2) من العام المخصوص و قد رغب فيها عمر بقوله نعم البدعة و هي
کلمة تجمع المحاسن کلها کما أن بئس تجمع المساوي کلها و قيام رمضان ليس
بدعة لأنه صلي الله عليه وآله وسلم قال اقتدوا باللذين من بعدي ابي بکر و
عمر(3) (رضي اﷲ عنهما) و إذا أجمع الصحابة مع عمر رضی الله عنه علي ذلک زال
عنه اسم البدعة. (4)
’’نعم البدعۃ ہذہ‘‘ کے تحت نماز تراویح کو بدعت کا نام دیا گیا کیونکہ آقا
علیہ السلام نے تراویح کے لئے اجتماع کو مسنون قرار نہیں دیا۔ اور نہ ہی اس
طریقے سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تھی اور نہ ہی (پابندی کے
ساتھ) رات کے اِبتدائی حصے میں تھی اور نہ ہی مستقلاً ہر رات پڑھی جاتی تھی
اور نہ ہی یہ عدد متعین تھا اور بدعت کی درج ذیل پانچ اقسام واجبہ، مندوبہ،
محرمہ، مکروھہ، اور مُبَاحہ ہیں اور جیسا کہ حدیث میں ہے۔ ’’کل بدعۃ
ضلالہ‘‘ یعنی ہر بدعت گمراہی ہے یہ حکم عام ہے مگر اس سے مراد مخصوص قسم کی
بدعات ہیں اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنے قول ’’نعم البدعۃ
ہذہ‘‘ سے اس (بدعت حسنہ) کی ترغیب دی ہے۔ اوریہ کلمہ (یعنی لفظ نعم) اپنے
اندر تمام محاسن سموئے ہوئے ہے جس طرح کہ لفظ بئس اپنے اندر تمام برائیاں
سموئے ہوئے ہے۔ اور رمضان المبارک میں (نماز تراویح) کا قیام بدعت نہیں ہے
کیونکہ آقا علیہ السلام نے فرمایا کہ میرے بعد حضرت ابوبکر اور عمر رضی اﷲ
عنہما کی پیروی کرنا اور جب صحابہ رضی اللہ عنہم نے حضرت عمر فاروق رضی
اللہ عنہ کے ساتھ قیام رمضان پر اتفاق کیا تو اس طرح قیام رمضان سے بدعت کا
اطلاق ختم ہوگیا۔‘‘
1.
1. بخاري، الصحيح، 2 : 707، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان، رقم
: 1906
2. مالک، المؤطا، 1 : 114، رقم، 2 : 250
3. ابن خزيمة، الصحيح، 2 : 155، رقم : 1100
2.
1. ابوداؤد، السنن، 4 : 200، کتاب السنة، باب في لزوم السنة، رقم : 4607
2. ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 44، کتاب العلم، باب ما جاء في الأخذ بالسنة،
رقم : 2676
3. ابن ماجه، السنن، مقدمه، باب اتباع السنة الخلفاء الراشدين، 1 : 15، رقم
: 42
4. احمد بن حنبل، المسند، 4 : 126
3.
1. ترمذي، الجامع الصحيح، کتاب المناقب عن الرسول صلي الله عليه وآله وسلم
، باب مناقب ابي بکر و عمر، 5 / 609، رقم : 3662
2. ابن ماجه، السنن، باب في فضل اصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ، 1
/ 37، رقم : 97
3. حاکم، المستدرک، 3 / 79، رقم : 4451
4.
قسطلاني، ارشاد الساري لشرح صحيح البخاري، 3 : 426
(23) امام ابو عبد اﷲ محمد بن یوسف صالحی الشامی رحمۃ اللہ علیہ (المتوفی
942ھ) :-
امام محمد بن یوسف صالحی شامی اپنی معروف کتاب ’’سبل الھدی والرشاد‘‘ میں
علامہ تاج الدین فاکہانی کے اس مؤقف ’’ان الابتداع فی الدین لیس مباحًا‘‘
کا محاکمہ کرتے ہیں اور اس ضمن میں بدعت کی اقسام بیان کرتے ہوئے فرماتے
ہیں :
30. أن البدعة لم تنحصر في الحرام والمکروه، بل قد تکون أيضاً مباحة و
مندوبة و واجبة. قال النووي رحمة الله عليه في تهذيب الأسماء واللُّغات :
البدعة في الشرع : هي ما لم يکن في عهد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم
وهي منقسمة إلي حسنة و قبيحة. وقال الشيخ عز الدين بن عبدالسلام رحمة اﷲ
تعالٰي في القواعد : البدعة منقسمة إلي واجبة و إلي محرمة و مندوبة و
مکروهة و مباحة.
’’ بدعت کا انحصار صرف حرام اور مکروہ پر نہیں ہے بلکہ بدعت اسی طرح مباح
مندوب اور واجب بھی ہوتی ہے۔ اِمام نووی رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ’’تہذیب
الاسماء واللغات‘‘ میں فرماتے ہیں شریعت میں بدعت اس عمل کو کہتے ہیں جو
عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نہ ہوا ہو اور یہ بدعتِ حسنہ
اور بدعت قبیحہ میں تقسیم کی جاتی ہے شیخ عزالدین بن عبدالسلام اپنی کتاب
قواعد الاحکام میں فرماتے ہیں بدعت واجب، حرام، مندوب، مکروہ اور مباح میں
تقسیم ہوتی ہے۔‘‘
صالحي، سبل الهدي والرشاد، 1 : 370
جاری ہے--- |