رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری حصہ دوئم

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مدینہ میں قیام
آپ ، بروز جمعہ اپنى سوارى پر بيٹھ كر مدينہ كى طرف روانہ ہوئے _ على عليہ السلام آپ (ص) كے ہمراہ تھے جو آپ (ص) كى سوارى كے ساتھ ساتھ چل رہے تھے، آپ (ص) انصار كے قبائل ميں سے جس قبيلے كے پاس سے بھى گزر تے تھے وہ آپ (ص) كى تعظيم ميں كھڑے ہوجاتے اور آپ (ص) كى خدمت ميں اپنے ہاں ٹھہرنے كى درخواست كرتے ، آپ (ص) ان كے جواب ميں فرماتے تھے: ''اونٹنى كا راستہ چھوڑ دو ، يہ خود ہى اس كام پر مامور ہے''_

آپ (ص) نے اونٹنى كى مہار ڈھيلى چھوڑ ركھى تھى ، يہاں تك كہ وہ چلتے چلتے مسجد النبى (ص) كى جگہ پر پہنچى اور وہيں رك كر بيٹھ گئی ، يہ جگہ ابو ايوب انصارى كے گھر كے قريب تھى جو مدينہ كے فقيرترين شخص تھے (1) پس ابوايوب يا انكى والدہ وہاں آئے اور آنحضرت (ص) كا سامان اٹھاكر اپنے گھر لے گئے ، يوں رسول اللہ (ص) ان كے ہاں قيام پذير ہوئے جبكہ على (ع) بھى آپ (ص) كے ساتھ تھے اور مسجد اور اپنے گھروں كى تعمير تك آپ (ص) وہيں مقيم رہے (2) كہا گيا ہے كہ آنحضرت (ص) نے تقريباً ايك سال تك ابو ايوب كے ہاں قيام فرمايا ، جبكہ ايك دوسرے قول كے مطابق سات ماہ اور تيسرے كے بقول صرف ايك ماہ وہاں قيام پذير رہے(3) ہمارے نزديك يہ آخرى قول حقيقت كے زيادہ قريب ہے ، كيونكہ بعيد ہے كہ تعمير كا كام اتنى طويل مدت تك جارى رہا ہو حالانكہ مہاجرين و انصار اپنى پورى كوشش اور توانائی سے اس كام ميں مصروف تھے جبكہ رسول اكرم (ص) خود بھى ان كے ساتھ اس كام ميں شريك رہے

ابن سلام كا قبول اسلام :
مكتب اہل بيت (ع) سے ناواقف تاريخ اور سيرت نگار كہتے ہيں كہ جب عبداللہ بن سلام نامى يہودى نے رسول اكرم (ص) كے مدينہ ميں داخل ہوتے وقت لوگوں كے شور و غل كو سنا تو تيزى سے آپ (ص) كے پاس آيا ، آپ (ص) كو ديكھنے اور آپ (ص) كى باتيں سننے كے بعد اسے يقين ہوگيا كہ يہ(نورانى ) چہرہ جھوٹ بولنے والا نہيں ہوسكتا(1)_

يہ بھى كہا گيا ہے كہ اس نے آنحضرت (ص) سے تين ايسے سوال پوچھے جنہيں نبى كے علاوہ كوئی نہيں جانتا تھا پس آپ (ص) نے ان كا صحيح جواب ديا تو وہ اسلام لے آيا اور آپ (ص) كى خدمت ميں عرض كى : '' اس سے پہلے كہ يہوديوں كو ميرے اسلام كا علم ہو، آپ(ص) ان سے ميرے متعلق پوچھيں'' رسول اكرم (ص) نے يہوديوں سے اس كے بارے ميں پوچھا تو انہوں نے جواب ديا : '' ہم سب سے اچھا شخص ہے اور سب سے اچھے شخص كا بيٹا ہے ، وہ خود بھى ہم سے افضل ہے اور ہم ميں سے افضل ترين شخص كا بيٹا ہے'' _اسكے بعدجب يہوديوں كو اس كے اسلام كا علم ہوا تو كہنے لگے _ '' شرنا و ابن شرنا '' وہ خود بھى ہم ميں سے بدترين شخص ہے اور بدترين شخص كا بيٹا ہے(2)_

كہا گيا ہے كہ عبداللہ بن سلام ہى وہ شخص ہے جسكے بارے ميں يہ آيت نازل ہوئی:
(شھد شاھد من بنى اسرائيل على مثلہ فآمن واستكبرتم)(احقاف10)
بنى اسرائيل كا ايك گواہ ايسى ہى بات كى گواہى دے چكا ہے جبكہ وہ ايمان لايا اور تم نے پھر بھى تكبر كيا
متوكل وہى شخص ہے جو على عليہ السلام كى فضيلت ميں ايك روايت نقل كرنے والے كو ايك ہزار تازيانے لگايا كرتا تھا،اور اسى نے حضرت امام حسين (ع) كے روضہ اطہر پر ہل چلوا ديا تھا اور وہ لوگوں كو آپ(ع) كے روضہ اطہر كى زيارت سے روكتا تھا (1)_ اسى متوكل كے دربار ميں احمد بن حنبل كو وہ عظيم مقام حاصل تھا كہ اسے متوكل نے اپنے بيٹے معتز، ديگر بيٹوں ، شہزادوں اور ولى عہدوں كا اتاليق مقرر كيا ہوا تھا (2) اور ابن كثير كے بقول متوكل اس كے مشورے كے بغير نہ تو كسى كو عزل كرتا اور نہ ہى كسى عہدہ پر كسى كو منصوب كرتا تھا_(3)

ہم سؤال كرتے ہيں كہ اے اہل بصيرت كس وجہ سے متوكل كے دربار ميں احمد بن حنبل اس قدر عظيم منزلت و عظمت كا مستحق قرار پايا، اس بارے ميں آپ كتاب ''بحوث مع اہل السنة والسلفية ''كى طرف رجوع كريں تا كہ اہل حديث اور حنابلہ كى ناصبيت كے كچھ شواہد آپ پر واضح ہوجائيں _
دوم: رہا آيت مجيدہ '' و شھد شاھد من بنى اسرائيل ...'' كا مسئلہ تو اس سلسلے ميں ہم درج ذيل امور كى طرف اشارہ كرتے ہيں_

ا لف: عكرمہ كہتاہے : يہ آيت عبداللہ بن سلام كے بارے ميں نازل نہيں ہوئي ، اور اس آيت كا نزول مكہ ميں ہوا ، آيت سے مراد يہ ہے كہ بنى اسرائيل ميں سے جو شخص (قرآن پر)ايمان لاياوہ اس شخص كى مانند ہے جو رسول اكرم(ص) پر ايمان لے آئے اور اسى طرح كى بات مسروق بھى قسم كھاكر بيان كرتاہے_ شعبى بھى يہى كہتاہے اور عكرمہ ہى كى دليل كو مدنظر ركھتے ہوئے ابوعمر نے بھى اس آيت كا (عبداللہ بن سلام كے متعلق ہونے كا ) انكار كيا ہے (3)_

ابن سلام والى روايت پراعتماد كرتے ہوئے اس آيت كو مدنى قرار دينا كسى طرح بھى قابل توجيہ نہيں كيونكہ ايسے ايسے مذكورہ اشخاص اس كا انكاركررہے ہيں جو زمانہ نبوت كے قريب تھے جبكہ شعبى و غيرہ نے بھى اس كے خلاف تصريح كى ہے(جسے ہم بعد ميں ذكر كريں گے

ب: بعض روايات كے مطابق يہ آيت ميمون بن بنيامين كى شان ميں نازل ہوئي ، اس كا قصہ بھى ابن سلام كے قصے كى مانند نقل كيا گيا ہے (1) اورزہرى ، مجاہد، ابن عمر ، سعيد بن جبير ، عمر اور قتادہ سے اس سے مختلف واقعات منقول ہيں(2)_

ج: شعبى سے منقول ہے كہ اس نے كہا :'' عبداللہ كے متعلق قرآن مجيد ميں كوئي آيت نازل نہيں ہوئي''(3)_

د: ظاہرى طور پر مذكورہ آيت ميں ان مشركين كو خطاب كياگيا ہے جنہوں نے اس سمے تكبر كيا جب ان كى باتوں پر اندھا اعتماد كرنے والے بعض بنى اسرائيل بھى آپ (ص) پر ايمان لے آئے اور يہ ممكن نہيں كہ اس آيت ميں يہوديوں كو مخاطب كيا گيا ہو، كيونكہ خود يہود بھى بنى اسرائيل ميںسے ہيں ، اور اس بات سے عكرمہ ، شعبى اور مسروق و غيرہ كے گزشتہ قول كى بھى تائيد ہوتى ہے_

ھ : طحاوى نے واضح طور پر لكھا ہے كہ ابن سلام كى شان ميں اس آيت كے نزول كے بارے ميں رسول اكرم (ص) نے كوئي تصريح نہيں فرمائي اور اس بات كو مالك نے ( اپنى طرف سے) استنباط كيا ہے (4)_
سوم: آيت مجيدہ : ''و من عندہ علم الكتاب'' كے بارے ميں ہم درج ذيل امور كى طرف اشارہ كرتے ہيں_
1_ مذكورہ آيت كے ضمن جو قول بيان كيا گيا ہے اس كى مخالفت ميں زہرى ، مجاہد، سعيد بن جبير، ابن عمر، قتادہ اور عمر و غيرہ سے منقول روايات موجود ہيں، اور مذكورہ قول جندب،ابن عباس اورمجاہدسے منقول دو روايتوں ميں سے صرف ايك ميں ذكر ہوا ہے

پہلا اہم نكتہ:
بعيد نہيں ہے كہ عبد اللہ بن سلام كو يہ تمغے معاويہ اور اس كے چيلوںنے ہى عطا كئے ہوں_ اس كى دليل قيس بن سعد بن عبادہ كى وہ روايت ہے جس ميں وہ كہتاہے كہ ''و من عندہ علم الكتاب'' سے مراد على (ع) ہيں ليكن معاويہ بن ابوسفيان كہتاہے كہ وہ عبد اللہ بن سلام ہے _ جس پر سعد كہتاہے كہ خدا نے '' انما انت منذر و لكل قوم ہاد'' اور ''افمن كان على بينة من ربہ و يتلوہ شاہد منہ'' والى آيتيں نازل كيں اور پہلى آيت ميں ہادى اور دوسرى آيت ميں شاہد(گواہ) سے مراد حضرت على (ع) ہيں كيونكہ نبى (ص) كريم نے انہيں غدير كے دن منصوب فرمايا اور ''من كنت مولاہ فعلى مولاہ'' كا فرمان ارشاد فرمايا اور يہ فرمايا

'' انت منى بمنزلة ہارون من موسى الا انہ لا نبى بعدي'' جس پر معاويہ خاموش ہوگيا اور اس كا جواب نہ دے سكا (1)_

دوسرا اہم نكتہ :
يہاں ايك قابل توجہ بات يہ ہے كہ جس شخص سے مذكورہ آيت كو منسوب كيا جارہاہے اور امير المؤمنين على (ع) كے فضائل كو جھوٹے دعوؤں كے ذريعہ زبردستى اس كى طرف نسبت دى جارہى ہے وہ ہميشہ على (ع) كے دشمنوں كى مدد كيا كرتا تھا اور جب خلافت كے سلسلے ميں لوگ آپ (ع) كى بيعت كررہے تھے تو اس نے آپ (ع) كى بيعت سے اجتناب كيا تھا(2)_

يہ جو ابن سلام كو اتنى اہميت دى گئي ہے، اس كى شخصيت كيلئے مقام و منزلت كوثابت كياگيا ہے نيز رسول اكرم (ص) اور وحى الہى كى تصديق ميں اس كى پہل كو ذكر كيا گياہے اس سب اہتمام ميںشايد يہى راز پوشيدہ ہے ( كہ وہ دشمن على (ع) تھا)_

شيخ ابوريہ كہتے ہيں كہ يہ ابن سلام( اپنے يہودى مذہب كي) اسرائيلى روايات، اسلامى احاديث ميں داخل كيا كرتا تھا (3) اور يہودى حضرت جبرائيل (ع) كے سخت دشمن تھے_ اور شايد يہى سبب تھا كہ ''و اذ را او تجارة او لہوا انفضوا اليہا'' والى آيت ميں ''لہو'' كى تشريح عبد اللہ بن سلام يوں كرتاہے كہ ''لہو'' سے مراد لوگوں كا دحيہ كلبى كے حسن كى وجہ سے اس كے چہرے كى طرف ديكھنا ہے _ جبكہ روايتوں ميں آياہے كہ حضرت جبرائيل (ع) اسى دحيہ كى شكل ميں آپ(ص) پر نازل ہوتے تھے (4) اور واضح رہے كہ بعض خلفاء بالخصوص حضرت عثمان ، اہم امور ميں اس سے مشورہ كيا كرتے تھے اور وہ انہيں اپنے نظريات كے مطابق

نيز درج ذيل آيت بھى اس كے بارے ميں ہى نازل ہوئي _
( قل كفى باللہ شھيداً بينى و بينكم ومن عندہ علم الكتاب) (نبى اسرائيل 96)
كہہ ديجئے ميرے اور تمہارے درميان اللہ اور وہ گواہ كافى ہے جسكے پاس كتاب كا علم ہے(1)_
اس كے علاوہ اور بھى كئي آيات اس كے بارے ميں ذكر كى جاتى ہيں، جنہيں يہاں ذكر كرنے كى گنجائش نہيں، مذكورہ بالا روايات كے بارے ميں درج ذيل امور توجہ طلب ہيں_

اول: اہل تحقيق حضرات جانتے ہيں كہ ابن سلام كے اسلام لانے كے بارے ميں روايات كے درميان واضح تناقض اور تضاد پايا جاتا ہے كيونكہ بعض مؤرخين كے مطابق اس نے ہجرت كے آٹھويں سال اسلام قبول كيا ، قيس بن ربيع نے عاصم اور اس نے شعبى سے نقل كياہے كہ عبداللہ بن سلام نے رسول اكرم(ص) كى وفات سے دو سال پہلے اسلام قبول كيا(2) عسقلانى نے اس روايت كى سند ميں قيس بن ربيع نامى راوى كى وجہ سے اسے ضعيف اور غلط قرار ديتے ہوئے ردكرديا ہے(3)_

ليكن ہم سمجھتے ہيں كہ اس روايت كو رد كرنے كى اس كى دليل وہ گذشتہ روايات ہيں جن كے مطابق عبداللہ بن سلام ابتدائے ہجرت ميں اسلام لے آيا تھا جبكہ ہم اس كى يہ بات قبول نہيں كرسكتے اس لئے كہ شعبى كا زمانہ عسقلانى كى نسبت نزديك تر ہے اور اس نے عبداللہ بن سلام كے اسلام قبول كرنے كے سال كو اسطرح دقت كے ساتھ مشخص و معين كيا ہے جس سے واضح ہوتاہے كہ اس نے بے پركى نہيں اڑائي ہے_
اسى طرح اگر ابن سلام اتنى ہى باعظمت شخصيت كا حامل تھا تو كيا وجہ ہے كہ ہجرت كے بعد آٹھ سال كے طويل عرصے ميں اس كى كوئي بات يا كوئي مشورہ ہمارے لئے نقل نہيں ہوا جبكہ تاريخ نے ايسے كم عمر صحابہ كي باتيں اور ان كے كردار كو ہمارے لئے محفوظ ركھاہے كہ جنہيں ايام طفوليت ميں نبى اكرم(ص) كى زيارت كا شرف حاصل ہوا ، پس كيا وجہ ہے كہ تاريخ نے (بقول ان كے ) ايسے عظيم شخص كے بارے ميں سكوت اختيار كيا ہے_

اسى طرح عسقلانى كا قيس بن ربيع كو ضعيف قرار دينا بھى نامناسب ہے اس لئے كہ خود عسقلانى نے عفان بن قيس ، الثورى ، شعبہ ، ابوالوليد اور ابن عدى سے قيس كى وثاقت كو نقل كيا ہے نيز يعقوب بن ابى شيبہ ، عثمان بن ابى شيبہ، ابو حاتم، شريك، ابن حبان ،العجلي، ابوحصين ، يحيى بن سعيد، معاذ بن معاذ، ابن عينيہ اور ابونعيم و غيرہ نے قيس كى تعريف كى ہے(1)_
عسقلانى و غيرہ كے قيس پر الزامات كا رازوہى ہے جس كى طرف احمدنے اشارہ كيا ہے، كيونكہ وہ ايك جگہ لكھتاہے: '' وہ (قيس) شيعہ تھا اورحديث ميں غلطى كياكرتا تھا''(2)_

جى ہاں اس سے منقول احاديث ميں جرح كا يہى راز ہے اگر چہ اس كے باوجود وہ كہتے ہيں كہ اس كى اكثر روايات درست ہيں(3) قيس پر اس طرح كى الزام تراشى كرنے والى شخصيت احمد بن حنبل ہے ، اوراس سے يہ بات كوئي عجيب نہيں اس لئے كہ يہ وہى ہے جو متوكل ناصبى كے زمانے ميںتھا اور اس ناصبى متوكل نے ابن سكيت كے ساتھ وہ سلوك كيا جو سب كو معلوم ہے كہ اس نے حكم ديا تھا كہ اس كى زبان گدى سے كھينچ لى جائے اور اسى فعل كے نتيجہ ميں اس كا انتقال ہوگيا تھا اور اس كى وجہ يہ تھى كہ ابن سكيت نے متوكل كے دو بيٹوں كو امام حسن اور امام حسين عليھما السلام سے افضل و برتر قرار دينے سے انكار كيا تھا (4)،متوكل وہى تو ہے جس نے اپنے ہى بيٹے منتصر ( جواپنے باپ سے امير المؤمنين على (ع) كى كسر شان كرنے پر ناراض رہتا تھا) كو كچو كے لگانے كے لئے اپنى لونڈى كو يہ گانے كا حكم ديتا تھا _
غار الفتى لابن عمّہ
راس الفتى فى حرّامّہ1)ينابيع المودة ص 104 نيز كتاب سليم بن قيس_
2)حضرت على (ع) كى بيعت نہ كرنے كے سلسلے ميں ملاحظہ ہو: شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 4 ص 9_
3)ملاحظہ ہو: ابوريہ كى كتب شيخ المضيرہ و اضواء على السنة المحمديہ_
4)ملاحظہ ہو: التراتيب الاداريہ ج1 ص 190
1)مندرجہ ذيل كتب ميں اس كے اقوال ملاحظہ ہوں : المصنف صنعانى ج11 ص 444، ص 445و 446 نيز اسى كے حاشيہ ميں از طبقات ابن سعد ج 3 ص 83 ، حياة الصحابہ ج 3 ص 540 ، مجمع الزوائد ج 9 ص 92 و 93 و الاصابہ ج 2 ص 321 _
2)ملاحظہ ہو: الفتوح ابن اعثم ج 2 ص 223و 224
حياة الامام الرضا السياسية از مؤلف و مجموعة الرسائل الخوارزى
البحارج 19 ص 106 از اعلام الورى ، السيرة الحلبية ج2ص55 ، صحيح مسلم كى روايت كے مطابق آپ (ص) نے قبا ء ميں چودہ دن قيام فرمايا ، ان كے علاوہ اور بھى كچھ اقوال موجود ھيں_
2 )ملاحظہ ہو: بحار الانوار ج 58 ص 366 ، المواہب اللدنيہ ج 1 ص 67 اور تاريخ الخميس ج1 ص 337_
3)اس دعوى كے دلائل ملاحظہ ہوں : بحار الانوار ج8 ص 366 و 367_
4)تاريخ الخميس ج1 ص 337 _ نيز مندرجہ ذيل منابع ميں بھى اس واقعہ كا اشارہ ملتاہے; سيرہ حلبيہ ج2 ص 52 ، دلائل النبوة بيہقى ج2 ص 498 و 499 ، البدايہ والنہايہ ج3 ص 186 نيز ملاحظہ ہو السيرة النبويہ ابن ہشام ج2 ص 137
1) تاريخ الخميس ج1/ص337 ، 336 و السيرة النبويہ ابن ہشام ج2 ص 137 ، صحيح بخارى مطبوعہ سنہ 1309 ج2 ص 213 و سيرہ حلبيہ ج2 ص 52_
2)تاريخ الخميس ج1 ص 334 و ص 335 ، سيرہ ، سيرہ حلبيہ ج2 ص 94 و 50 ، دلائل النبوة ج1 ص 279_
3) المواہب اللدنيہ ج 1 ص 67 ، سيرہ ابن ہشام ج2 ص 139 ، تاريخ الخميس ج1 ص 339 ، بحارالانوار ج8 ص 367 نيز دلائل النبوة ج2 ص 500_
4)الغدير ج7 ص 258 كثير منابع سے ، نيز سيرہ حلبيہ ج2 ص 41 و مسند احمد ج3 ص 287

1) البحار ج19ص 121 ، مناقب ابن شھر آشوب ج1ص 185 _
2) روضة الكافى ص 340 _ 339 ، البحارج 19ص 116 _
3) البدء و التاريخ ج4 ص 178 ، وفاء الوفاء ج 1ص 265 ، السيرة الحلبية ج2ص 64_
4) السيرة الحلبية ج2ص64

1) الاصابةج2ص320، الاستيعاب ج2 ص 382 ، مستدرك الحاكم ج3ص13 ، تلخيص مستدرك ذہبى ج 3ص 13_
2) البخارى حاشيہ فتح البارى ج7ص213،212( خود ابن سلام سے روايت) الاصابہ ج2 ص321 ، الاستيعاب (حاشيہ الاصابة )ج 2 ص 382 _
3) اسد الغابة فى معرفة الصحابة ص3 ج 176، صحيح بخارى حاشيہ فتح البارى ج7 ص 97، الاستيعاب حاشيہ الاصابہ ج 2ص383 ، الدرالمنثورج 4ص69 ، روايت ابويعلي،ابن جرير، حاكم، مسلم ، نسائي ، ابن المنذر ، ابن مردوية ، ترمذى ، ابى حاتم ، ابن عساكر وعبد بن حميد_
1) الاصابة ج2ص321 ، الاستيعاب ج2 ص383 ، الدرالمنثور ج4 ص 69 ، روايت از ابن مردويہ ، ابن جرير ، ابن ابى شيبہ ، ابن سعد ابن منذر_
2) الاصابة ج2 ص 320_
3) الاصابة ج2 ص 320 ، فتح البارى ج7ص97
1) تہذيب التھذيب ج 8ص395 ، 392 _
2) تہذيب التھذيب ج2ص394_
3) تھذيب التھذيب ، ترجمة قيس ج 8_
4)الكنى و الالقاب ج1 ص 314 تا 315 ، نيز ملاحظہ ہو: وفيات الاعيان ج6 ص 395 ، 396 ، 400 و 401 و تاريخ الخلفاء ص 348_
5)الكامل ابن اثير ج7 ص 55
1)الكامل ابن اثير ج7 ص 55_
2)مناقب امام احمد بن حنبل ابن جوزى ص 385 و 364 ، احمد بن حنبل والمحنہ ص 190 و حلية الاولياء ج9 ص209 _
3)البداية والنہايہ ج10 ص 316 _
4) الاستيعاب حاشيہ الاصابةج2ص383 ، فتح البارى ج7ص98،درالمنثورج6ص39 ،ابن جرير، عبد بن حميد، ابن ابى حاتم، ابن المنذر روايا ت سے منقول ہيں _
1) الدرالمنثورج 6ص40 ، (عبد بن حميد مكى ) ، فتح البارى ج 7ص98 نيز الاصابہ ج3 ص 471_
2) الدرالمنثور ج 4ص69 ، مشكل الآثارج1ص 137_
3) مشكل الآثار ج1ص137 اس روايت كے مطابق ابن سلام كى شان ميں كوئي آيت نازل نہ ہونے كے بارے ميں سعيد بن جبير نے بھى شعبى كى تائيد كى ہے، الدرالمنثورج 4ص69 ، و ج6ص39 ، 40 ، ابن منذر سے روايت ، دلائل الصدق ج2ص135 ، الميزان ج11ص389_
4) مشكل الآثار ج1ص 139
1) مشكل الآثارج 1ص 137 ، 138، الاستيعاب ( حاشيہ الاصابة) ج2ص 383 ، الدرالمنثورج 4ص69 ، روايات از نحاس، سعيد بن منصور ، ابن جرير ، ا بن المنذروا بن ابى حاتم، دلائل الصدق ج2ص 135 ، غرائب القرآن نيشاپورى ج13 ص 100 (جامع البيان كے حاشيہ پر مطبوع) الاتقان ج1 ص12، احقاق الحق ج3 ص 280 تا 284 ، الجامع الاحكام القرآن ج9 ص 336 نيز ينابيع المودة ص 104 و 103_
2) الدرالمنثور ج4ص69 ، عبدالرزاق اور ابن المنذر نے زھرى سے روايت كى ہے_
3) شواھد التنزيل حسكانى ج1ص307 ، 308 ، 310 ،مناقب ابن المغاز لى حديث نمبر 361 ، الخصائص ص 26 ، غاية المرام ص 357 ،360، ازتفسير ثعلبى والحبرى ( خطى نسخہ) عمدة ابن بطريق ص 124 ، دلائل الصدق ج 2ص135 ، (ينابيع المودة اور ابى نعيم سے منقول )_ ينابيع المودة ص 102و 105 نيز ملاحظہ ہو ملحقات احقاق الحق ج4 ص 362 و 365 و ج3 ص 451 و ص 452 و ج3 ص 280 تا ص 285 حاشيہ اور متن دونوں ج20 ص 75 تا 77 كثير منابع سے ، اور الجامع لاحكام القرآن ج9 ص 336_
4) شواھد التنزيل ج 1ص310 نيز ملحقات احقاق الحق ج14 ص
پیرآف اوگالی شریف
About the Author: پیرآف اوگالی شریف Read More Articles by پیرآف اوگالی شریف: 832 Articles with 1284693 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.