ایک ویڈیو میں پاکستانی فوج کے ایک سینیئر افسر کو اسلام
آباد میں دھرنا دینے والوں کو رقم دیتے دکھایا گیا ہے، جس پر سوشل میڈیا
میں زبردست بحث شروع ہو گئی ہے۔
اس ویڈیو کو بعض لوگوں نے اس بات کی شہادت کے طور پر لیا ہے کہ پاکستانی
فوج مذہبی تنظیموں کے لیے 'نرم گوشہ' رکھتی ہے۔
|
|
مظاہرین نے تین ہفتوں تک اسلام آباد اور راولپنڈی کے درمیان واقع اہم
گزرگاہ فیض آباد انٹرچینچ کو بند کیے رکھا جس سے جڑواں شہروں کی زندگی عملی
طور پر مفلوج ہو کر رہ گئی تھی۔
پولیس نے انھیں ہٹانے کے لیے آپریشن کیا جو بری طرح ناکام رہا جس کے بعد
فوج کی ثالثی سے یہ معاملہ پیر کے روز ایک معاہدے کے نتیجے میں ختم ہوا،
جسے حکومت کی جانب سے گھٹنے ٹیکنے کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔
ویڈیو میں پنجاب رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل اظہر نوید حیات کو ایک
ہزار روپے رقم پر مشتمل لفافے مظاہرین میں بانٹتے دکھایا گیا ہے۔ کہا جاتا
ہے کہ ان مظاہرین کے پاس واپسی کا کرایہ نہیں تھا۔
ویڈیو میں جنرل حیات ایک باریش شخص سے کہتے ہیں: 'یہ ہماری طرف سے تمھارے
لیے ہے۔ کیا ہم آپ کے ساتھ نہیں ہیں؟'
اس کے بعد وہ ایک اور شخص کے گال تھپتھپاتے ہوئے اسے تسلی دیتے ہیں: 'ان
شااللہ ہم سارے چھڑوائیں گے۔' ممکنہ طور پر ان کا اشارہ زیرِ حراست مظاہرین
کی طرف ہے۔
ویڈیو کے اختتام پر جنرل حیات کہتے ہیں: 'یہ ایک تھیلے سے ہے۔ دوسرے تھیلے
میں اور رقم ہے۔'
یہ واضح نہیں ہے کہ ویڈیو کس نے بنائی اور یہ سوشل میڈیا تک کیسے پہنچی۔
فوج کی طرف سے اس پر فوری ردِ عمل نہیں آیا۔
ابھی تک کسی سیاست دان نے اس پر تبصرہ نہیں کیا اور نہ ہی کسی ٹیلی ویژن
چینل نے اسے نشر کیا ہے۔
|
|
اخباروں نے بھی اس خبر کو زیادہ اہمیت نہیں دی، تاہم سوشل میڈیا نے اسے خوب
اٹھایا ہے۔
سماء ٹی وی کے صحافی عمر قریشی نے ٹوئٹر پر پوچھا ہے کہ کیا یہ ٹیکس
دہندگان کی رقم کا درست استعمال ہے؟
'یہ ٹیکس دہندگان کی رقم کا درست استعمال ہے۔۔۔ اسے مذہبی تنظیم کے لوگوں
میں بانٹ دو جنھوں نے اسلام آباد کو کئی دنوں تک مفلوج کیے رکھا اور عوامی
املاک کو نقصان پہنچایا اور ایک پولیس والے کو قتل کیا۔'
فرانس 24 کے رپورٹر طٰہٰ صدیقی نے ٹویٹ کی کہ انھیں اس ویڈیو سے کوئی حیرت
نہیں ہوئی: 'میں یہ پڑھتا رہتا ہوں کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے المناک
دن ہے کہ حکومت نے مذہبی انتہاپسندوں (یعنی پراکسیز) کے آگے گھٹنے ٹیک دیے۔
سچ تو یہ ہے کہ صورتِ حال ایک عرصے سے مایوس کن ہے۔ لیکن اب میں کچھ محسوس
نہیں کر رہا۔ ملک کے حاکم ہمیں ایسے مقام پر لے آئے ہیں جہاں پر میرے سارے
جذبات نچڑ گئے ہیں۔'
ڈان کے سابق مدیر عباس ناصر نے سوال کیا ہے: 'جب میجر جنرل فیض حمید، ڈی جی
آئی ایس آئی نے بطور سہولت کار معاہدے پر دستخط کیے۔ کیا ان کا وسیلہ (گڈ
آفسز) صرف بحران کو ختم کرنے میں استعمال ہوئے یا اسے پیدا کرنے میں بھی؟'
|
|
دی نیوز اخبار کے چیف ایڈیٹر طلعت اسلم نے لکھا: 'تحریکِ یا رسول اللہ کے
آگے جھک جانے کے مضمرات کئی برسوں تک محسوس کیے جاتے رہیں گے۔ اب ملک کی ہر
انتہاپسند تنظیم جانتی ہے کہ اسے حکومت کو بلیک میل کرنے کے لیے دو ہزار
لوگوں کو اکٹھا کرنے کی ضرورت ہے۔'
ایک اور صارف سلیم نے جنرل حیات کے دھرنا والوں میں رقم تقسیم کرنے کی
تصویر ایک اور فوجی افسر کی طرف سے نیک محمد کو ہار پہنانے کے تصویر کے
ساتھ لگائی ہے۔ نیک محمد پاکستانی طالبان کے پہلے سربراہ تھے جو 2004 میں
ایک امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے تھے۔
|